خدا ابھی زندہ ہے !

اتوار 5 اپریل 2020

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

یوری گیگرین خلا میں جانے والا پہلا انسان تھا ، وہ 9 مارچ 1934 میں روس کے ایک گاوٴں میں پیدا ہوا، والدین غریب تھے لیکن یوری کو پائلٹ بننے کا شوق تھا ، اس نے دوسری جنگ عظیم میں پہلی بار جنگی جہاز دیکھے تھے ، اس نے بڑی محنت سے تعلیم حاصل کی اور روسی ایئر فورس میں شامل ہو گیا۔ 1961 میں روس نے پہلا سیارہ خلا میں بھیجنے کا فیصلہ کیا تو اس کے لیے یوری گیگرین کا انتخاب ہوا، دو سال تک اس کی خفیہ تربیت کی گئی ، اپریل 1961 میں یوری گیگرین اپنے مشن پر روانہ ہوا ، وہ خلائی جہاز ووستوک 1 کے ذریعے خلا میں داخل ہوا اور زمین کے گرد چکر لگانے میں کامیاب ہو گیا۔

یہ بہت خطرناک سفر تھا ، سائنس دانوں کو امید نہیں تھی کہ یوری زندہ لوٹ آئے گا مگر اس نے خلا کا چکر لگا کر سب کو حیران کر دیا ،روس کی کامیابی سے امریکہ اور روس کے درمیان خلائی دوڑ شروع ہو گئی ، امریکہ روس کے خلائی مشن کی مسلسل جاسوسی کر رہا تھا ،ایک روز صبح ریڈیو ماسکو نے فخریہ انداز میں اعلان کیا کہ روس نے دنیا کا پہلا انسان خلا میں پہنچا دیاہے۔

(جاری ہے)

اعلان سنتے ہی ایک امریکی صحافی نے امریکی خلائی ادارے ناسا کے صدر دفتر فون کیا، وہ روس کی کامیابی پر ناسا کے ماہرین کا ردعمل جاننا چاہتا تھا ، ناسا کے پریس افسر نے صحافی کو ڈانٹتے ہوئے کہا ”کون ہے، تمہیں معلوم نہیں کہ یہاں سب سو رہے ہیں۔“ اس صحافی نے اگلے دن اخبار میں یہ شہ سرخی جمائی”روسیوں نے انسان کو خلا میں پہنچا دیالیکن ناسا کا ترجمان کہتا ہے کہ امریکا سو رہا ہے۔

“یوری گیگرین جنوبی روس کے ایک گاوں میں اْترا، وہاں سے اسے ہیلی کاپٹر کے ذریعے ماسکو لایا گیا ، ایک دن آرام کے بعد اگلی سہ پہر وہ لینن عجائب گھر کے چبوترے پر پہنچا ، یہاں بہت بڑے جشن کا اہتمام کیا گیا تھا، ہزاروں روسی یو ری گیگرین کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے جمع تھے ، یوری نے مختصر تقریر کی اور لوگوں کا شکریہ ادا کیا ، آخر میں روس کے صدر نیکتا خروشچیف اسٹیج پر تشریف لائے ، انہوں نے زمینی سیارے پر روس کی خدائی کا اعلان کر دیا ، خروشچیف نے کہا :”یوری گیگرین نے خلا میں جاکر ہر طرف دیکھا مگر اسے کہیں خدا نظر نہیں آیا۔

“ خرشچیف سے قبل لینن اور اسٹالن بھی اسی طرح کے دعوے کر چکے تھے ، لینن نے کہاتھا :” تمہاری طرف خدا ہے جو قدامت پسند ہے ، میری طرف شیطان ہے جو بہت اچھا کمیونسٹ ہے، “جوزف اسٹالن نے کہا تھا :” ہم نہ اہلِ ایمان سے لڑ رہے ہیں نہ ملّاؤں سے بلکہ ہم خدا سے لڑ رہے ہیں تاکہ ہم اس سے اہلِ ایمان کو چھین سکیں۔“یہ اشتراکیت کے فلسفے میں خدا کی حتمی بے دخلی کا اعلان تھا۔

اگرچہ خدا اور مذہب کا انکار اشتراکیت کے فلسفے میں روز اول سے شامل تھا مگر 1961 میں خروشچیف نے اپنے تئیں خلا میں جا کر اس کا عملی ثبوت بھی فراہم کر دیا۔ دوسری طرف سرمایہ دارانہ نظام کے علمبردار بھی مذہب اور خدا کی موت کا اعلان کر چکے تھے ، انیسویں صدی کے مشہور فلسفی نطشے نے کہا تھا :”خدا مر گیا ہے ۔“ مسولینی نے تو خدا کو دھمکی تک دے دی کہ اگر تو کہیں موجود ہے تو مجھے مار کر دکھا۔

امریکی صدر جان ایف کینیڈی نے کہاتھا:” امریکہ خدا کا ایجنٹ ہے اور اس کے پاس خدا جیسی صلاحیتیں ہیں۔“یووال نواح حراری عصر حاضر کا مشہور مورخ ہے ، اس کی دو مشہور کتابیں سیپئنز اور ہومو دیوس دنیا کی بیسٹ سیلر کتب میں شامل ہیں ، ان دونوں کتب میں ہراری جا بجا یہ دعوی کر تا ہے کہ انسان خود خدا ہے ، اپنی بات کو مدلل بنانے کے لیے وہ جدید ٹیکنالوجی کی مثالیں دیتا ہے ، مثلا اس کا کہنا ہے کہ مغرب میں کئی ایسے پروجیکٹ چل رہے ہیں جن میں موت کو شکست دینے اور انسانی زندگی کو دوام بخشنے پر کام ہو رہا ہے ، بہت جلد انسان موت کے مسئلے پر قابو پا لے گاتو پھر اہل ایمان کے جنت اور جہنم کے قصوں کا کیا بنے گا۔

وہ کہتا ہے کہ مذہب نظم اجتماعی کو قائم رکھنے کے لیے بنایا گیا ایک آرڈر اور بس۔
پچھلی دو تین صدیوں میں مغرب کے فلسفیوں، سرمایہ داروں ، دانشوروں اور حکمرانوں نے مذہب اور خدا کو بے دخل کرنے کے لیے جو کوششیں کی کرونا وائرس نے آ کر ان سب کو خدا یاد دلا دیا ۔آپ دیکھ لیں مذہب اور خدا کے حوالے سے دسمبر 2019کے بعد دنیا کا نقطہ نظریکسر تبدیل ہو چکا ہے ، سار ا یورپ اور امریکہ خداکی گود میں پناہ ڈھونڈ رہے ہیں ، اٹلی اور اسپین کے حکمرانوں نے ہاتھ کھڑے کر دیے ہیں ، وہ علی الاعلان کہہ رہے ہیں کہ ہم تمام زمینی تدبیریں اختیار کر چکے ہیں مگر ہم بے بس ہیں اب صرف آسمان ہی ہمیں بچا سکتا ہے ۔

اسپین میں سینکڑوں سال کے بعد لوگوں کو اپنے گھروں میں آذان کی اجازت دی گئی (ایک بلند مینار پرخوبصورت آذان کی ویڈیو جو سوشل میڈیا پر بہت وائرل ہوئی وہ اسپین کی نہیں بلکہ آزربائیجان کی ہے اور ایڈٹ شدہ ہے )امریکی صدر نے اپنی ناکامی اور بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے عوام سے 15 مارچ کو یو م دعا منانے کا اعلان کیا، آپ ٹرمپ کے الفاظ پر غور کریں: ” خدا کے لیے کوئی مسئلہ مسئلہ نہیں ہے اور اس کی مدد سے ہم کرونا وائرس پر قابو پا سکتے ہیں۔

“ اس نے امریکہ میں مقیم تمام مذاہب کے پیرو کاروں سے درخواست کی کہ وہ کرونا وائرس کے متاثرین اور وفات پا جانے والوں کے لیے دعا کریں۔اس نے مزید کہا کہ اس خطرناک وبا کی وجہ سے لاکھوں کروڑوں امریکی، چرچ، مندر، سینیگاگ اور مساجد میں جمع نہیں ہو سکتے اس لیے انہیں اپنے گھروں میں بیٹھ کر خدا سے دعا کرنی چاہئے۔ٹرمپ کا کہنا تھا کہ جب بھی امریکہ پر مشکل وقت آیا امریکیوں نے خدا سے مدد کی اپیل کی اس لیے میں آپ سے د رخواست کرتاہوں کہ 15 مارچ کو میرے ساتھ دعا میں شامل ہو کر خدا سے مدد کی اپیل کریں اور متاثرین کی بہتری کے لیے دعا کریں۔

ورلڈ کونسل آف چرچز کے سیکٹری نے اعلان کیا:” کرونا سے پیدا شدہ موجودہ صورتحال کا تقاضا ہے کہ ہم اپنا احتساب کریں ، محتاط ہوں اور خدا پر ہمارا یقین مزید مستحکم ہو جائے۔“ نیو یارک ٹائمز لکھتا ہے کہ کرونا وائرس کے وجہ سے بڑھتے ہوئے اضطراب نے لوگوں کا خدا پر یقین مزید پختہ کر دیا ہے ، صرف قدامت پسند ہی نہیں بلکہ لبرل امریکی بھی دعا اور خدا پر یقین کرنے لگے ہیں۔

وہ روس جس کے صدر خروشچیف نے طنزیہ کہا تھا کہ ہمیں خلاف میں کسی طرف کوئی خدا نظر نہیں آیا اسی روس کا موجودہ صدر پیوٹن کہہ رہا ہے کہ روس کے آئین میں خدا کا تصور لازمی ہونا چاہیے۔بھارت میں مختلف مذاہب کے لوگ اپنی مذہبی کتابوں میں خدا کو ڈھونڈ رہے ہیں ، ہندومت کے پیرو کار گائے کے پیشاب میں خدا کی رضا تلاش کر رہے ہیں ، بدھ مت اور سکھ مت بھی دوبارہ گردواروں اور اسٹوپوں میں زندہ ہو رہے ہیں اور رہا اسلام تو اس کے سیکولر دانشوروں کو بھی خدا یاد آ گیا ہے اور ان کا قبلہ و کعبہ بھی درست ہو گیا ہے ۔

کاش میں کینیڈی ، لینن ، سٹالن اور خروشچیف کو بتا سکتا کہ سر کار ذرا اٹھ کر دیکھو تمہارے معاشروں میں خدا اور مذہب آج بھی زندہ ہیں ، کاش میں نطشے سمیت انیسویں اور بیسویں صدی کے مغربی فلسفیوں اور دانشوروں کو بتا سکتا کہ تم مر چکے ہو مگرخدا آج بھی موجود ہے اور تمہاری نسلیں اسی خدا کی گو د میں پناہ ڈھونڈ رہی ہیں اور کاش میں اپنے وقت کے مسلم سیکولر دانشوروں کو باور کر اسکتا کہ خدا اور مذہب ہی اصلی اور ابدی حقیقتیں ہیں فرق صرف یہ ہے کہ ان حقیقتوں کو ماننے اور تسلیم کرنے کے لیے نفس کی خواہشات کو ترک کر کے خود کو خدا کی بندگی میں ڈھالنا پڑتا ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :