زندگی کا خلاصہ !

اتوار 1 نومبر 2020

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

” بس یہی میری زندگی کا خلاصہ ہے “ وہ رکے ، پہلو بدلا اور گہرے مراقبے میں چلے گئے ۔ میں خاموشی سے ان کی طرف دیکھتا رہا، یہ دنیا کے ایک کامیاب انسان کی کہانی تھی ، دنیا میں کامیابی کے ہزاروں معیارات ہیں ، ہر انسان کی کامیابی کا معیار دوسرے سے مختلف ہو سکتا ہے ، ہو سکتا ہے ہم ساری زندگی جس کامیابی کے لیے بھاگ رہے ہوں دوسرے انسان کے لیے وہ محض ایک فضول اور عامیانہ سرگرمی ہو ۔

دنیامیں کامیابی کے چند یونیورسل معیارات بھی ہیں ان میں سر فہرست دولت ، شہرت اور عہدے کا حصول ہے ، دنیا کے ساڑھے سات ارب انسانوں کی کہانی انہی کامیابیوں کے حصول کے گرد گھومتی ہے ، ہم میں جومڈل اور لوئر مڈل کلاس ہیں وہ مالدار ہونا چاہتے ہیں اور اسے کامیابی کا معیار سمجھتے ہیں ، ان کی ساری زندگی اسی کامیابی کے حصول میں گزر جاتی ہے مگر یہ بھول جاتے ہیں کہ مال و دولت ہر ایک کے نصیب میں نہیں ہوتااور یہ بھی کہ دولت سے بڑی آزمائش کوئی نہیں ہوتی ، اگر قدرت نے ہمیں دولت سے نہیں نوازا اور ہماری جائز ضروریات ٹھیک سے پوری ہو رہی ہیں تو ہمیں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہئے ۔

(جاری ہے)

ہم میں سے جو مالدار ہیں وہ شہرت کی پوجا میں لگ جاتے ہیں اور ان کی ساری زندگی اس دیوی کی پوجا میں گزر جاتی ہے ، مگر ایک بار پھر ہم بھول جاتے ہیں کہ شہرت ہر ایک کے نصیب میں نہیں ہوتی اور شہرت سے بڑی آزمائش بھی کوئی نہیں ہوتی،یہ شہرت بڑے بڑے شریفوں کے دما غ خراب کر کے رکھ دیتی ہے اور اس کے بعد انسان ساری زندگی پچھتاتا رہتا ہے ۔ آخر میں ہم میں سے جنہیں شہرت نصیب ہو جاتی ہے وہ عہدوں کے حصول میں لگ جاتے ہیں اور ان کی باقی زندگی عہد وں کے حصول کے لیے بھاگ دوڑ کرنے اور اپنا ضمیر تک بیچنے میں گزر جاتی ہے ۔

یہ کامیابی کے تین یونیورسل معیارات کی حقیقت ہے ، اس کے علاوہ کامیابی کے لوکل معیارات کی حقیقت کیا ہوگی ہمیں اس کا اندازہ ہو جانا چاہئے ۔ میں آج ایسے ہی ایک کامیاب انسان کی کہانی سننے ان کے پاس بیٹھا تھا ، میں ان کے پاس انسپائریشن کے لیے آیا تھا مگر ان کی باتیں سن کر مجھے معلوم ہوا میں کسی غلط جگہ پر آگیا ہوں ۔ وہ کافی دیر سے سر جھکائے گہرے مراقبے میں گم تھے ، میں نے انہیں واپس لانے کے لیے مصنوعی کھانسی کا سہارا لیا ،میری آواز سے وہ سنبھل کر بیٹھ گئے اور گویا ہوئے :”انسان کی زندگی کا ہر دوسرا فیز پہلے سے جڑا ہوتا ہے ، یہ فیز اتنے گھمبیر اور پیچیدہ ہوتے ہیں کہ انسان ان میں الجھ کر رہ جاتا ہے ، ہمیں یہ ہوش ہی نہیں رہتی کہ ہم ہوش میں ہیں یا نہیں ، ہم اس لٹو کی طرح گھومتے رہتے ہیں جسے گھمانے والا رکنے نہیں دیتا “ وہ رکے اور سوالیہ انداز میں گویا ہوئے : ” تم نے کبھی لٹو کو گھومتے ہوئے دیکھا ہے “ میں نے عرض کیا ” صرف دیکھا ہی نہیں بلکہ بچپن میں خود گھمایا بھی ہے “ وہ زیر لب مسکرائے اور بولے :” تمہیں اندازہ ہو گا کہ لٹو گھمانے کی مہارت اسی میں ہے کہ اسے سانس نہ لینے دیا جائے بلکہ مسلسل اسے گھمایا جائے، جیسے ہی لٹو کی چال آہستہ ہو اسے ایک اور چابک رسید کیا جائے اور جب تک گھمانے والے کی مرضی ہے اسے مسلسل اسی عمل سے گزارا جائے ۔

یہی عمل ہماری زندگی کے ساتھ مسلسل وقوع پذیر ہو رہاہے ، زندگی ہمیں مسلسل گھما رہی ہے اور جیسے ہی ہم آہستہ ہونے کی کوشش کرتے ہیں یہ ہمیں مسائل اور خواہشات کی چابک رسید کر دیتی ہے اور ہم پھر سے بھرپور قوت اور توانائی سے گھومنے لگ جاتے ہیں ، جب تک اس کی مرضی ہوتی ہے یہ ہمیں گھماتی ہے اور جب ہم بالکل نڈھال ہوجاتے ہیں یہ ہمیں چھوڑ کر سائیڈ پر ہوجاتی ہے مگر تب تک چڑیاں کھیت چگ چکی ہوتی ہیں ۔

“ میں نے ہاں میں گردن ہلاکر ان کی تائید کی اور وہ دوبارہ گویا ہوئے ” میں جب بچہ تھا تو والدین کی مرضی مجھے لٹو کی طر ح گھماتی رہی ، پہلے نرسری کا چابک رسید ہوا اور میں گھومنے لگا، والدین کی خوشی دیدنی تھی ، پھر فائیو کلاس کا چابک رسید ہوا اور میں گھومتے گھومتے میٹرک کر گیا ، اس کے بعد والدین کی مرضی ختم ہوئی اور میں اپنی خواہشات اور خوابوں کے چابک کھا کر گھومنے لگا ،اب صرف ایک ہی خواہش تھی کہ میں اچھا پڑھ لکھ جاوٴں اور اچھی نوکری مل جائے ۔

اس کے لیے زندگی کے دس قیمتی سال صرف ہوئے اور ان دس سالوں میں میری زندگی صرف مستقبل کی منصوبہ بندی کے گرد گھومتی رہی ، مستقبل کے سپنے مجھے چابک رسید کرتے تھے اور میں تابع دار شاگرد کی طرح زندگی میں گھومنے لگ جاتا تھا ، صرف یہی خیا ل دل میں تھا کہ ایک بار سیٹ ہو جاوٴں پھر سب رشتے ناطے جوڑ لوں گا، نمازاو ردیگر فرائض و واجبات پورے کر لوں گا اور دوست احباب کو منا لوں گا ۔

پھر ایک دن یہ کامیابی بھی مل گئے اور میں ایک اچھے عہدے پر فائز ہو گیا ، مستقبل محفوظ تھا اور میں مطمئن تھا کہ زندگی اب اچھی گزرے گی مگر اس کے ساتھ ہی زندگی کے نئے فیز کی الجھنوں اور پیچیدگیوں نے گھیر لیا، اب شادی اور اچھے جیون ساتھ کے چابک مجھے گھمانے لگے اور میں غیر محسوس انداز میں ان کے چنگل میں پھنس گیا ، مجھے اندازہ ہی نہیں ہوا کہ میں ایک نئی مصیبت میں گرفتار ہو چکا ہوں ،انسانی زندگی کے ساتھ یہ تمام وارداتیں اتنی صفائی کے ساتھ ہوتی ہیں کہ انسان کو اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ وہ مکھی کی طرح مکڑی کے جال میں پھنسا ہوا ہے۔

پھر ایک دن یہ کامیابی بھی مل گئی، ایک اچھا ہمسفر میسر آیا اور زندگی ایک نئے فیز میں داخل ہو گئی ۔ یہ فیز بھی پہلوں کی طرح بڑا خوش کن تھا ، اچھی جاب ، شاندار مستقبل اور بہترین ہمسفر ، اس کے ساتھ اللہ نے خوبصورت اولاد سے بھی نواز دیا ، یہ سب کچھ معقول اور خوش کن تھا مگر اس کے ساتھ زندگی کا لٹو بھی مجھے شاندار انداز میں گھما رہا تھا ، پہلے صرف اپنی خواہشات اور اپنے غم تھے اب ساتھ اولاد کا حصہ بھی شامل ہو چکا تھا اور میرے گھومنے پن میں پہلے سے زیادہ تیزی، پھرتی اور مہارت آ چکی تھی ، میں ایک بار بھر گھوم رہا تھا ، پہلے اپنی تعلیم اور بہتر مستقبل کے لیے گھوما کرتا تھا اب اولاد کی تعلیم وتربیت اور ان کے بہتر مستقبل کی فکر مزید ایندھن فراہم کر رہی تھی ۔

میں ایک عرصے تک یہ چابک کھا کر گھومتا رہا ، پھراولاد جوان ہوئی اور میں ایک نئے فیز میں داخل ہوا ، ہمیشہ کی طرح یہ فیز بھی پہلوں سے زیادہ پیچیدہ اور خوفناک تھا ، اب اولاد کی بہتر شادی اور ان کے بہتر مستقبل کے چابک مجھے گھومنے پر مجبو ر کر رہے تھے اور میں ایک بار پھر مطیع و فرمانبردار چیلے کی طرح سرجھکا کر خشوع و خضوع کے ساتھ گھوم رہا تھا ۔

جب میں اس فیز سے گزر رہا تھا تو خیال تھا کہ اس کے بعد زندگی کی پیچیدگیاں ختم ہو جائیں گی اور خواہشات اور مسائل کے چابک کچھ عرصے کے لیے مجھے گھومنے سے فرصت دے دیں گے مگر میرا یہ خیال بھی غلط ثابت ہوا اور میں آج بھی پہلے سے زیادہ شدت اور مہارت کے ساتھ گھوم رہا ہوں۔ اس ساری تگ و دو اور گھومنے کے چکر میں میری اپنی زندگی کہاں ہے ، میرا اپنے ر ب سے تعلق اورمیری تخلیق کا عنوان یعنی رب کی عبادت کہاں ہے ، میرے اپنے رشتے ناطے کہاں ہیں اورمیری اگلی زندگی کا سامان کہاں ہے ، میں نے آگے کیا لے کر جانا ہے اور جس نے یہ زندگی دی اس کو جا کر کیا جواب دینا ہے۔

“ وہ بولتے جا رہے تھے اور آنسو ان کی گال پر لکیر بناتے ہوئے مٹی میں جذب ہو رہے تھے ، یہ ان کی زندگی کا خلاصہ تھا ، کیا ہماری زندگی کا خلاصہ اس سے مختلف ہے یا آخر میں ہم بھی ایک دن اسی طرح آنسو بہانے پر مجبور ہوں گے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :