تو پھر یونہی گذار لیں ۔۔۔۔؟

منگل 16 جون 2015

Muhammad Nawaz Tahir

محمد نواز طاہر

میرے پاس آج کرنے کو کچھ نہیں ، یوں تو کل بھی کچھ نہیں تھا، پنجاب کا مالی سال 2015-16کا بجٹ تھا جو قوم کے سامنے پہنچ چکا ہے، میں نے اس میں کیا کرنا تھا ، وزیرخزانہ یا ’عام وزیر‘ نے بھی کچھ نہیں کرنا ہوتا ہے،جو کرتی ہے، بیورو کریسی کرتی ہے، وزیر خزانہ کا کام اسمبلی میں پیش کرنا ، وزیروں کی ذمہ داری اس کی تحسین کرنا، ارکانِ اسمبلی کی ڈیوٹی واہ واہ کرنا اور محکمہ تعلقاتِ عامہ کا فرض بجٹ کے اعدادوشمار کا حوالہ دیکر وزراء کے بیانات جاری کرنا اور پتر کاروں کی نوکری سب کچھ جوں کا توں عوام پر تھوپ دینا ہے ۔

اس میں عوام کیلئے ہوتا بھی کچھ نہیں بس طے کرنا ہوتا ہے کہ پچھلے سال عوام کا کتنا خون نچوڑا گیا اور اب کتنے انجیکشن و پنکچر لگاکر ٹیکس اکٹھے کرکے کس کس مد میں خرچ کرنے ہیں ، عوام کیلئے بجٹ ہوتا کہاں ہے ؟ ہر روز نرخ من مانی سے بڑھائے جاتے ہیں ، ذخیرہ اندوزی سے سبزی منڈی کو بھی سٹاک مارکیٹ کی طرح ڈیل کیا جاتا ہے ۔

(جاری ہے)

۔۔ہر روز نیا بجٹ آتا ہے ۔

یہ سب کل بھی چلتا تھا ، اب چلتا ہے اور شائد ملک میں اصل جمہوریت کا خواب پورا ہونے تک چلتا رہے گا لیکن سوال یہ ہے کہ اصل جمہوریت کیسے آئے گی ؟ یا اصل جمہوریت کیا ہے ؟ ہمارے جیسے ترقی پذیر ملکوں میں جمہوریت کا نام دھونس دھاندلی اور طاقت کے بل پر قانونی طاقت حاصل کرنا ہے ، یہ طاقت کبھی بوٹوں والوں کے قبضے میں تو کبھی سوٹوں اور واسکوٹوں والے کے پاس، عوام تو میڈیا کی مدد سے بس اتنا یاد رکھتے ہیں کہ ان کے ساتھ کس نے ، کب کیا کچھ کیا؟ پھر بھول جاتے ہیں ، پھر بولنے والوں کو ان کے محبوب قائدین سبق بھی سکھاتے ہیں اور یوں’ اسی تنخواہ پر نوکری‘ جاری رہتی ہے ، آبادی، مسائل اور ووٹربڑھتے رہتے ہیں البتہ ووٹنگ کی شرھ کم ہوتی رہتی ہے ، نئے نئے حالات پیدا ہوتے ہیں نء نئے نعرے لتے ہیں اور رادھا نو من تیل کی امید سے رہتی ہے ؟
کل کچھ کرنے کو نہیں تھا تو آج کرنے کو کیا ہے ؟ وہی پرانی خبریں اور ان سے بھی پرانی سرخیاں ، بس نام بدلنا ہوتے ہیں ،یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے ، بس کاپی پیسٹ جیسی ’سخت مشقت ‘ ہے۔

اب خبر بنانا بھی اسے ہی کہا جاتا ہے اور ایڈیٹنگ کی مہارت بھی یہی ہے ۔یہ تو پتر کاروں کی ’سخت محنت‘ ہے جو اس کا عادی نہیں اورپرانے بابوں کی تقلید کرتے ہوئے جدید دور میں بھی پیشہ وارانہ روایات یا اصولوں کی پابندی کرتا ہے وہ قدیم ، فرسودہ بلکہ جدید تہذیب میںآ لودہ خیالات رکھنے والا قدامت پرست ہے جسے سیٹھ بھی ادارے پر بوجھ ہی تصور کرتا ہے۔

وقت پر کام کرنے والے سرکاری اہلکار کو پاگل کہا جاتا ہے ، رشوت سے بچنے والا دیوانہ کہلاتا ہے ، میرت کی بات کرنے والا احمق قراردیا جاتا ہے تو بھائی جی اتنی ساری ڈگریاں لینے اور کچھ کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے ؟ سوچ کر دماغ کیوں خراب کریں؟ سوچنے سے تو توانائی کا بحران ختم نہیں ہوگا ؟سماجی معاشی انصاف تو نہیں ملے گا ؟ روٹی کپڑا مکان تو نہیں ملے گا ؟دہشت گردی بھی یونہی رہے گی ، دنشوروں خود ساختہ شرعی آئنی ، قانونی ، تعلیمی، اقتصادی ماہرین کی تھوپی جانیوالی جہالت تو کم نہیں ہوگی ؟ نئے حقیقی سکالرز تو پیدا نہیں ہونگے جبکہ اصل مسئلہ ملک میں سکالرز اور دنشوروں کا قحط ہے ؟پھر محض فوٹو سیشن کیلئے’ ’علامہ اقبال“ بننے یا استاد دامن کا دامن” تار تار“ کرنے کی کیا ضرورت ہے ؟ کل بھی ’ویہلے ‘تھے ، آج بھی یونہی گذار کرلیں ۔

۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :