
عید کی خوشیاں
ہفتہ 18 جولائی 2015

محمد ثقلین رضا
بہت نکلے مگر میرے ارمان پھر بھی کم نکلے
(جاری ہے)
اچھا تلخیوں کو چھوڑئیے ایک ذرا لحظہ تصور کیجئے ‘ عید کے دن کا خاص تحفہ سویاں ‘شیر خورمہ بھی ہے‘ اب دیکھئے دونوں چینی کے بغیر کیا مزہ دیں گے؟یقینا ایسا نہیں ہے۔ چینی اور سویاں‘ شیر خورمہ لازم وملزوم ہیں لیکن اب دیکھئے جونہی سویاں اور شیر خورمہ کی تیاری کے دوران گھر کی ماں بہن بیٹی یہ کہے کہ آ پ جو چینی لائے تھے وہ تو بے ذائقہ ہے اور اس میں مٹھاس بھی نہیں تو آپ پر کیا بیتے گی؟ آپ پریشان کہ ابھی کل ہی تو یوٹیلیٹی سٹور سے چینی خرید ی تھی ‘وزن اور قیمت میں ہلکی دیکھ کر خرید لی یہ پتہ تو نہیں تھا کہ اس میں حکومت کی طرح کوئی ذائقہ نہیں ہوگا۔ عید کا پہلا مزہ ہی کرکرا ہوگیا۔ خیر عید نماز پڑھنے مسجدیا عید گاہ میں گئے وہاں داخلے سے پہلے آپ کی تلاشی ہوئی‘ موڈ خراب‘ عید کی نماز کیلئے جونہی لب سے ”اللہ اکبر“ نکلا دل میں جاگزیں خدشات تقویت پکڑنے لگے کہ”کچھ ہونہ جائے“ بعض منچلوں کو تو عید نماز کے دوران ”جوتے چوری “ کاڈر رہتا ہے اوروہ بیچارے جوتے آگے رکھ نہیں پاتے کہ نماز نہیں ہوتی اوراگر پیچھے رکھیں تو جوتے نہیں ہوتے۔
عید کی بات کرتے کرتے دل چاہتا ہے کہ ذرا خریداری کا بھی جائزہ لے لیاجائے۔ ارے بھئی اگرتو کوئی شادی شدہ ہے اور بال بچے دار بھی ‘تو اس کیلئے خریداری گویاجا ن جوکھوں کا کام ہوا‘ بچوں کاہاتھ پکڑے جونہی بازار میں داخلہ نصیب ہوتا تو روشنیوں کی چکاچوند میں اس کے ذہن سے یہ بھی اترجاتاہے کہ وہ کیا خریدنے آیاتھا ۔ خیر کپڑے خریدنے جاناہو تو بزاز جو نرخ بتائے گا وہ چودہ اٹھارہ کیا سو کے سو طبق روشن کردیگا ۔ اچھا بچوں کیلئے بھی تو ریڈی میڈ سوٹ خریدنا ہیں۔ آپ ریڈی میڈ سٹور والے کے مہمان بنے۔ بچوں کیلئے سوٹ پسند کئے جونہی نرخ کی بات ہوئی ‘ وہ مسکرا کر اور باقاعدہ دانتوں کی نمائش کرتے ہوئے نرخ بتا ئے گا ۔ آپ پریشانی کے عالم میں کہیں گے ”میاں پچھلے سال او ر اس سے پچھلے سال تو ا س کا نرخ یہ نہ تھا “ وہ کہے گا ”بھائی جی آپ پچھلے سال کی بات نہ کرو وہ تو پہلے کی بات ہے آج تو 2015ہے۔ دو چار سال پرانی یاد اشت پیش کریں گے تو جواب آئیگا کہ وہ مشرف کا دور تھا اوریہ نوازشریف کا ‘ پھر حکمرانوں کی شان میں وہ ”قصیدے “ گھڑے گا کہ خواہ مخواہ منہ بسورتے ہوئے جیب سے بٹوہ نکال کر اس کے بتائے ہوئے پیسے دینے پر مجبورہوجائیں گے جوتوں کی خریداری بھی ایسے ہی مراحل طے کرنے کے بعد ممکن ہوتی ہے۔ خیر بازار سے نکلتے ہوئے آپ کا ہاتھ جونہی جیب میں پڑے پرس پر پڑتاہے تو دل میں سے آہ سی نکل جاتی ہے کہ اتنے ارمانوں سے یہ پیسے جمع کئے تھے۔ ابھی تو اور بھی فرمائشیں ہیں‘ بلکہ ابھی تو بیگم صاحبہ کی لمبی چوڑی لسٹ بھی گھر میں انتظا رکر رہی ہوگی۔ پھر پاکستانی حکمرانوں کی سی شکل بناکر مانگ تانگ پر گزارہ ہوتا ہے۔
عید کادن ہو تو کچھ میٹھی ‘کچھ پھیکی باتیں ہوئی ‘ہوسکتاہے کہ میٹھے اورپھیکے کے ملاپ سے کچھ عجب ذائقہ بن گیا ہو لیکن صاحب کی خوشیوں میں بندہ ہرچیز بھلائے عید ہی مناتا ہے لیکن تھوڑی دیر ٹھہرجائیے‘ وہ جو سامنے سے روتا ہوا میلے پھٹے کپڑے پہن کر آنیوالا بچہ کس کا ہے؟ ذرا دھیان دیجئے ‘ خبر گیری کیجئے‘ ہوسکتا کہ آپ کی جیب پر بھاری گزرے لیکن اگرآپ اس معصوم بچے کے ہونٹوں پر ”مسکان “ لاسکیں تو آپ کی عید کی خوشیاں دوگنی ہوجائیں گی۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
متعلقہ عنوان :
محمد ثقلین رضا کے کالمز
-
سرکاری حج عمرے
جمعہ 31 مئی 2019
-
انصاف، حقوق کی راہ میں حائل رکاوٹیں
جمعرات 27 دسمبر 2018
-
قبرپرست
جمعہ 31 اگست 2018
-
محنت کش ‘قلم کامزدور
جمعہ 2 مارچ 2018
-
باباجی بھی چلے گئے
اتوار 28 جنوری 2018
-
پاکستانی سیاست کا باورچی خانہ اور سوشل میڈیا
بدھ 1 نومبر 2017
-
استاد کو سلام کے ساتھ احترام بھی چاہئے
ہفتہ 7 اکتوبر 2017
-
سیاستدان برائے فروخت
منگل 22 اگست 2017
محمد ثقلین رضا کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.