
گلی محلے کے لفنٹرو اور پاکستانی سیاستدان
جمعرات 27 اپریل 2017

محمد ثقلین رضا
یہی صورتحال پاکستان ہے ، خاص طورپر انتخابات قریب آتے ہی یہ ”چور، چور چور“ کی صدائیں گونجنے لگتی ہیں، پتہ نہیں آوازلگانے والوں کو بھی خبر ہوتی یا نہیں کہ اس چور ،کرپٹ کی صداؤں سے قوم واقعی سمجھنے پر مجبورہوجاتی ہے کہ ”چلو چور تو ہوگیا فلاں فلاں ،کرپٹ اور کمیشن خور وہ ہوگیا ، لٹیرا تو ظاہر ہے کہ وہ والا ہی ہونا ہے اس کے علاوہ کسی کو لٹیرا کہلوانے کا حق حاصل نہیں“
آج تک یہ نہیں سمجھ سکے کہ ایک دوسرے کو چور، چکار، لٹیرا، دھوکے بازی، فراڈی، کمیشن خور کہنے والے انتخابات کے بعد کیسے شیر وشکر ہوجاتے ہیں، مفادات پڑنے پر ایک دوسرے کو گلے لگالیتے ہیں اورپھر اس سمے انہیں خبر تک نہیں ہوتی کہ وہ ان صاحب کو کل گلیوں میں گھسیٹنے کا اعلان کرچکے تھے یا چور لٹیرا کہہ رہے تھے۔
(جاری ہے)
صاحبو! ابھی پانامہ لیکس کی گرد چھٹی نہیں بلکہ ڈھول پر لاڑ پڑتے ہی پہلا جملہ یہی نکلے گا ”گو․․․․․“ لیکن دوسری طرف بھی الاماشااللہ ”تجربہ کار ’“ لوگوں کی ٹیم ہے، کوئی گالی دے تو جواب میں ان کے پورے خاندان کو گالیاں ملتی ہیں، کوئی چور کہے تو جواب میں دس زنانہ،مردانہ قسم کے لوگ ”تو چور ،تیرا ابا چور، تیرا دادا چور“ قسم کے نعروں کے ساتھ آن موجود ہوتے ہیں۔ اس کھیل کو مزید رنگینی تو الیکٹرانک میڈیا نے بھی بخش دی ہے، سیاستدانوں کادال دلیہ گالیوں سے چل رہاہے تو زبان کا یہ چٹخارہ الیکٹرانک میڈیا کیلئے ”دلکشی “ کاباعث ہے۔ یعنی اب تو حد ہوگئی کہ میڈیابھی ”ریٹنگ“ کے چکرمیں ایسا پڑا کہ اخلاقیات تک ذہن سے نکل گئیں۔ ایک اینکر پرسن سے گپ شپ ہوتی رہتی ہے، بتارہے تھے کہ ان کے ایک پروگرام میں دومخالف سیاسی جماعتوں کی خواتین ایک دوسرے پر گھٹیا ترین الزامات لگارہی تھیں، بلکہ کسی کے بیڈروم کا قصہ بھی سناسنایاجارہاتھا تو انہوں نے ان خواتین کو روکنے کیلئے ہرطرح کا حربہ استعمال کیا ، لیکن یہ خواتین تو رکنے کانام ہی نہیں لے رہی تھیں اسی دوران پروڈیوسر کی آواز ان کے کان میں لگے چھوٹے سے سپیکر پر گونجی ”خاموش رہو یار، کیوں ریٹنگ خراب کرنا چاہتے ہو“ الیکٹرانک میڈیا کے اسی ریٹنگ کے چکر نے اخلاقیات کا جنازہ نکال دیا۔
بات سیاستدانوں کی ہورہی ہے اور ذکر پانامہ لیکس کا بھی ہوا تو عرض یہ ہے کہ اس بارے عدالت کی طرف سے جے آئی ٹی کے قیام کا حکم جاری ہوا ، کئی لوگ آج تک جشن فتح منارہے ہیں اورکئی طعنوں میں مصروف، ایک جشن منانے والے سے بھولے نے پوچھ لیا ”ایک بات تو بتاؤ ، تم کس بات کا منارہے ہو“ وہ نوجوان برامان گیا اور فوراً سے پہلے بولا ” تم یہ کہنا چاہتے ہو کہ دوججز نے ہمارے وزیراعظم کو وزارت عظمیٰ کیلئے نااہل ،صادق امین نہ ہونے کا لکھا ، پانچوں جج انہیں کلین چٹ دینے کو تیار نہیں، لیکن ہمیں کسی کی پرواہ نہیں بس ہمارا وزیراعظم مہینہ ڈیڑھ کیلئے بچ گیا اسی لئے مٹھائی بانٹ رہے ہیں“ بھولا ابھی کہنا چاہ رہاتھا کہ” اور جو عزت وزیراعظم خاک میں مل گئی وہ“ مگر خامو ش رہا کہ وہاں درجنوں ایسے ہی جیالے جمع ہوچکے تھے۔ خیر فیصلہ جو بھی ہو اور جیسا بھی ہو ہمیں اس سے غرض نہیں لیکن ایک غیرملکی اخبار کی خبر نے بہرحال شرمندہ ضرور کردیا ہے ”پاکستانی پارلیمنٹ ،جہاں پانامہ والے رہتے ہیں“ پتہ نہیں یہ بات گلی محلے کے لفٹنروں ،آوارہ لوگوں کی طرح لڑتے سیاستدانوں کو شرم دلاسکے لیکن بحیثیت قوم ہر پاکستانی شرمندہ ضرور ہے
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
محمد ثقلین رضا کے کالمز
-
سرکاری حج عمرے
جمعہ 31 مئی 2019
-
انصاف، حقوق کی راہ میں حائل رکاوٹیں
جمعرات 27 دسمبر 2018
-
قبرپرست
جمعہ 31 اگست 2018
-
محنت کش ‘قلم کامزدور
جمعہ 2 مارچ 2018
-
باباجی بھی چلے گئے
اتوار 28 جنوری 2018
-
پاکستانی سیاست کا باورچی خانہ اور سوشل میڈیا
بدھ 1 نومبر 2017
-
استاد کو سلام کے ساتھ احترام بھی چاہئے
ہفتہ 7 اکتوبر 2017
-
سیاستدان برائے فروخت
منگل 22 اگست 2017
محمد ثقلین رضا کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.