اللہ لوک ،ساجد گل کی یاد میں

منگل 8 فروری 2022

Muhammad Shuja Ud Din

محمد شجاع الدین

یوں جانیئے آنکھ باریش لوگوں  کے درمیان ہی کھولی ، یہ الگ بات کہ سبھی اپنی اپنی جگہ پر بڑے پائے کے درویش تھے ۔ البتہ دنیاداری کا لبادہ اوڑھے اللہ لوک خال خال ہی ملے ۔ 90 کی دہائی کے آخر میں روزنامہ پاکستان اسلام آباد کے اجرا کی ٹیم میں شامل ہوئے تو محترمی پروفیسر احمد رفیق اختر صاحب سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا ۔ شہر خموشاں کے دن رات مشینی انداز میں گزرتے  ، روکھے پیکھے چہرے اور جذبات سے عاری کولتار کی سڑکیں وحشت کا پتہ دیتیں ۔

سنگ و خشت سے بنی بلند و بالا عمارتوں کے حصار میں قید ہم ایسے آزاد منش کیلئے سانس لینا بھی دشوار ہو جاتا ۔ ان حالات میں گھر سے دور رہنا کسی عذاب سے ہر گز کم نہیں تھا۔ گاہے دل نے ڈوبنا شروع کیا تو کئی بار اسپتال کی ایمرجنسی کا منہ دیکھنا پڑا ۔

(جاری ہے)


ان دنوں محبی جاوید چودھری کیساتھ راول ڈیم کی جھیل کنارے یا پھر پریڈ گراونڈ کی سیڑھیوں پر بیٹھنا ایک معمول تھا ۔

ایک رات باتوں باتوں میں جناب پروفیسر کے ہاں جانے کا پروگرام بنا اور اگلے روز ہم دونوں گوجر خان کیلئے عازم سفر ہو گئے ۔ گھر کی بالائی منزل کے ایک کمرے میں بیٹھے تو قبلہ کو دیکھ کر انگشت بدنداں رہ گئے کہ  چہار دانگ عالم میں مچی دھوم ہے اور موصوف کلین شیو ؟ نشست ہوئی تو مزید حیرانی کہ گفتگو میں اپنی مقفی و مسجع تحریر کا تکبر تھا نہ القابات و محرکات کا شائبہ ۔

سادہ اور سلیس زبان میں بات کرتے جناب پروفیسر بڑی محبت سے پیش آئے ۔ حال احوال کے بعد دنیا داری کی باتیں کرتے رہے ۔
نماز کا وقت ہوا تو معذرت کر کے اٹھے اور سجدہ ریز ہوگئے ۔ ہمیں دعوت بھی نہ دی کہ مبادا ہم عاصیوں کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے  ۔ ان کی باتیں سن کر ہر گز ہر گز اپنی گناہ بھری زندگی سے نفرت محسوس نہیں ہو رہی تھی بلکہ زندگی سے پیار ہوتا محسوس ہوا ۔

دین کا کوئی دقیق پہلو نہ چھیڑا گیا ۔ ادب ، آداب میں گندھی عام محفل کی سی گفتگو تھی ۔ البتہ باتوں میں کچھ ایسا رچاو اور چاشنی تھی کہ تاثیر ذہن و قلب کو مغلوب کرتی چلی گئی ۔ ہم اٹھے تو دامن ، بھاری بھرکم پندو نصائح سے مرصع عمر صالح کی خواہش کے بجائے حسن و قبح کی تازگی سے بھرپور زندگی کے توشے سے بھرا پڑا تھا ۔
اپنے ساجد گل کی ناگہانی موت نے ماضی کے دریچے کھول دیئے ۔

عمروں کا ساتھ لمحوں میں ختم نہیں کیا جا سکتا ۔ زندگی رہے تو فاصلے کبھی نہ کبھی سمٹ ہی جاتے ہیں لیکن یہاں تو سوال ہمیشہ ہمیشہ کیلئے پردہ کر جانے کا ہے ۔ پھر ساجد گل کی یاد کیوں نہ ستائے ۔ بہت دفعہ ایسا ہوا کہ ملاقاتوں کا سلسلہ موقوف ہوا تو کئی کئی ماہ گزر گئے اور اگر ملنے لگے تو دن رات کی تفریق بھی ختم ہو گئی ۔
ساجد گل کا صحافتی قد کاٹھ کیا تھا ؟ وہ صحافت کے بزرجمہر جانیں یا پھر کارپوریٹ کلچر کی افسر شاہی جن کے ہاتھوں میں تحریر و تقریر کی لمبائی ماپنے کا پیمانہ تو ہے , الفاظ کے معانی و معارف کی گہرائی جانچنے کا سلیقہ نہیں ۔

یہی وجہ رہی کہ ساجد گل جیسا گدڑی کا لال صحیح معنوں میں پہچانا ہی نہیں جا سکا ۔ آفرین اس پر کہ زمانے کی ناقدری کا گلہ کبھی اس کی نوک زباں پر نہ آیا ۔ بس وہ اپنی ہی دھن میں مگن رہا ۔ پاتال میں اترتا تو گنج ہائے گراں مایہ  لاتا ، عرش پر پہنچتا تو نعرہ حق کی خبر  لے آتا ۔ اس لئے میرا معاملہ اس کی خبر اخبار کا ذکر کرنا ہر گز نہیں ۔ میرے لئے تو وہ ایک مٹی کا مادھو تھا ۔

ہر اک قالب میں ڈھل جاتا ۔ دنیا کی محفلوں میں بیٹھتا تو رنگینی گفتار دیکھنے والی ہوتی ، معرفت الہی کی مجلس میں ہوتا تو گریہ زاری کا سیل رواں جاری رہتا ۔
ساجد گل پکا جاٹ تھا لیکن کمال کا پڑھا لکھا ۔ اچنبھے کی بات تو ہے مگر اپنے اندر بزم آرائی کا فن جانتا تھا ۔ ظاہری و باطنی علوم کا ماہر ۔ طرح دار شاعر ، غضب کا لکھاری ۔ سیاست ، صحافت ، ادب سمیت کون سا علمی و ادبی شعبہ تھا جس پر اس کی دسترس نہ تھی اور کس کس مضمون کے اسرار و رموز سے وہ واقف نہ تھا  ۔

تصوف سے اسے خاص شغف تھا ۔ ملا کی اذان پر اس نے کبھی کان نہیں دھرا البتہ صوفی کی آہ اس کے دل کو پگھلا دیتی ۔ کلین شیو تھا ، خود کو ہمیشہ ٹپ ٹاپ رکھتا ۔ لباس کے انتخاب میں اسے ملکہ حاصل تھا ۔ شلوار قمیض زیب تن کرتا تو بھلا لگتا ، پتلون اور شرٹ میں ہوتا تو جچتا ۔ بڑا گہرا آدمی تھا مگر خود کو سطحی سا ، عام سا آدمی گردانتا ۔ تصوف کی بات چلے تو خود کو سیپ میں اجلے موتی کیطرح بند رکھتا ۔


ساجد گل مرشدی سیدی حیدر فاروق مودودی کی محفلوں کا دولہا تھا ۔ زانوئے تلمظ ایسا طے کیا کہ آخری تکبیر بھی انہی کی سنی ۔ اپنے نوشہ کی نماز جنازہ پر سیدی دلگیر تھے لیکن خود کو کمال ہمت سے سنبھال رکھا تھا ۔ سیدی ، ساجد گل کی شب بیداری کے امین تھے ۔ ساجد گل کے حاضر و غائب ، انہیں سب خبر تھی ۔ مجھ ایسے گناہگار کو بھی کئی بار ساجد گل کی رفاقت میں شاہی قلعہ کا ایک پتھریلا زینہ اترنے کی سعادت نصیب ہوئی ۔

رات کا آخری پہر جب آنکھوں میں لگی آنسووں کی جھڑی سے بھیگنے لگتا تو چراغ کی روشنی میں ایک سایہ آگے بڑھتا دکھائی دیتا جو میرے ہاتھ میں مرشدی کا دامن تھما دیتا ۔ ، وہ ساجد گل تھا ۔
جیو کی نوکری کیلئے کراچی گیا تو ہفتہ وار چھٹی کی شام حضرت عبداللہ شاہ غازی کے مزار پر گزرتی ۔ گلاب نذر کرنا اور سلام پیش کرنا حاضری کے آداب کا حصہ ٹھہرا ، فاتحہ کہہ کر خاموشی سے ایک کونے میں سر نیہوڑائے بیٹھا رہتا ۔

وداع ہوتا تو پہلا کام سیدی حیدر فاروق مودودی ، سیدی ڈاکٹر جلیل اسلم ، ساجد گل ، میاں عابد ، عامر وقاص چودھری اور مجاہد اقبال کو فون کر کے ان کی طرف سے سلام پیش کئے جانے کی رسید دیتا ۔ ان احباب نے لاہور سے روانگی کے وقت وعدہ لے رکھا تھا سو قرض چکاتا رہا ۔ جب تک کراچی رہا ہر حاضری پر یہ معمول برقرار رکھا ۔ غازی کے مزار پر حاضری کا نسخہ ساجد گل کی دین تھا ۔


ٹی وی کی نوکری نے رات بھر کی چاکری ختم کر دی ۔ اخبار کے زمانے میں راتیں مزنگ چونگی پر آلو والے پراٹھے کھانے میں ، ٹمپل روڈ پر یاکو کی چائے پینے میں یا پھر وحدت روڈ پر شیخ صاحب کے برگر سپاٹ پر گپ شپ میں گزرتیں ۔ انہی بیٹھکوں میں دوسرے موضوعات کیساتھ پریس کلب کی سیاست بھی زیر بحث آتی ۔ ساجد گل کا شمار بڑے جوڑوں میں تھا ، اس لئے خوب زور دار مہم چلاتا ۔

  میں ایک عرصے سے سگریٹ پیتا ہوں اور دوستوں کو کھلے دل کیساتھ پلاتا بھی ہوں ۔ ہماری محفلوں میں ترتیب یہ ہوتی کہ میں اپنے ہونٹوں میں بیک وقت چھ سگریٹ دبا کر سلگاتا اور ایک ایک کر کے سب کو پیش کرتا ۔ ساجد گل ہر بار کہتا ، پیر جی آپ کا دیا سگریٹ الگ نشہ دیتا ہے ۔
انہی محفلوں کے بارے میں برادرم میاں ندیم کا کہنا ہے ،،، ایک زمانہ تھا جب ساجد گل کے گھر محفل جمتی تھی تو پوری رات گزر جاتی ، پھر دوست کچن میں جاکر خود ہی کھانا پکاتے اور کھاتے ۔

۔۔ستار چوہدری کے جملے،محمد شجاع الدین صاحب کی میٹھی مسکراہٹ ،مجاہد اقبال صاحب ایک آدھ جملہ پھنک کر خاموشی سے سب کی باتوں کامزہ لیتے،طالب بھٹی ،زاہد چوہدری اور عامر وقاص چوہدری سے نوک جھونک،نعیم نیازی کے گیم جیتنے پر گرج دار نعرے ، میاں عابد کے لطیفے،برادرم ہارون اوپل صاحب بھی فقرے کے ماہر ، سب کل کی باتیں لگتی ہیں ،،،
ساجد گل مجلسی آدمی تھا ، اخلاقی اور خاندانی اقدار کا ہمیشہ خیال رکھتا ، گھر آتا تو ہمیشہ میری بیٹی کے سر پر شفقت سے ہاتھ رکھتا اور کہتا دھی رانی ! سب بہاریں تمہاری وجہ سے ہیں ۔

  بیٹی سکول کی طالبہ تھی تو شوق ہی شوق میں ایک روز زردہ بنایا تو ساجد گل آ گیا ۔ خوشدلی اور رغبت سے کھایا اور جاتے ہوئے 5 سو روپے کا نوٹ بیٹی کے ہاتھ میں تھما دیا اور کہا اتنی عمر میں ایسی لذیذ ڈش ، اللہ نیک نصیب کرے ۔ ساجد گل سب کے ساتھ ایسا ہی تھا ، غیر محسوس انداز میں خاندان کا حصہ بن جاتا ۔
ساجد گل کی خوبی یہ تھی کہ جس کسی کو اپنا بناتا ، اظہر من الشمس بن کر دکھاتا ، جس کسی کا احترام کرتا دل کی اتھا گہرائی سے کرتا ۔

جیو لاہور کے آفس جب بھی آیا مجھ سے پہلے رئیس صاحب سے ملا ۔  کہتا تھا ارشد میرا دوست ہے ، رئیس صاحب بڑے بھائی ۔ اس لئے پہلے بھائیجان کو سلام کرنا ضروری ہے ۔
ماں جی کے پاس ایک ہزار دانے کی تسبیح ہوا کرتی تھی ۔ انہوں نے کمال مہارت سے ایک امام کے پیچھے ایک ہزار دانے کھڑے کر دیئے تھے ۔ ماں جی کے پردہ کر جانے کے بعد تسبیح کھل گئی اور تمام دانے بکھر گئے ۔ کوئی کتنا بھی سمیٹ لے ، زندگی میں بھی شاید ایسا ہی ہوتا ہے کہ ذہن کی پردہ سکرین پر تیزی کیساتھ دوڑتی دوستوں کی قطار اندر قطار سجی تصویریں ایک ایک کر کے مٹتی چلی جاتی ہیں ۔ افسوس !  لمبے لمبے ڈگ بھرنے والے ، میلوں پیدل چلنے کے شوقین ساجد گل کو بھی اپنے دل کی رفتار کا پتہ نہ چل سکا
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا.

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :