طبی نظریہ ضرورت

پیر 18 نومبر 2019

Muhammad Shuja Ud Din

محمد شجاع الدین

مسلم لیگ ن کے قائد اور وزارت عظمی کی مسند کو تین بار رونق بخشنے والے میاں نواز شریف صاحب اس لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ طبی نظریہ ضرورت استعمال کیا گیا اور اس کے تحت جیل کی سزا کاٹتے ہوئے بھی انہیں مکمل پروٹوکول کیساتھ نہ صرف علاج معالجے کی سہولت مل گئی بلکہ بیرون ملک جانے کا پروانہ بھی تھما دیا گیا۔

یعنی۔ آم کے آم گھٹلیوں کے دام۔یاد رہے دنیا کی معلوم تاریخ میں امریکہ کی ایک عدالت میں طبی نظریہ ضرورت کے تحت فیصلہ دیا گیا تھا۔ جب جڑواں بچوں میں سے صرف ایک کی زندگی بچائی جا سکتی تھی۔ جس کیلئے دوسرے کا قتل لازم تھا۔لہذا ایک کو قتل کر کے دوسرے کو بچا لیا گیا تھا۔
نظریہ ضرورت یوں تو ہماری ، آپ کی پیدائش سے بہت پہلے دنیا میں معرض وجود میں آچکا تھا تاہم اس کے اثرات ملک عزیز پاکستان میں اسوقت نمایاں ہوئے جب منصف اعظم جسٹس محمد منیر نے اس نظریہ کا اطلاق کرتے ہوئے 1954ء میں گورنر جنرل ملک غلام محمد کی طرف سے پارلیمنٹ توڑنے کا اقدام جائز قرار دینے کیلئے اس نظریہ کو استعمال کیا۔

(جاری ہے)

ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ جمہوریت پر شب خون مارنے والے کیخلاف مولوی تمیزالدین نے آواز اٹھائی ، درخواست گزاری ، نظریہ ضرورت آڑے آیا اور حق سچ کے الفاظ کی روشنائی باطل کی تاریکیوں میں گم ہو گئی۔ اس طرح نوزائیدہ جمہور کے منہ پر اوائل میں ہی کالک مل دی گئی۔
ارض وطن کی اب تک کی تاریخ میں بہت سے ایسے نام ملتے ہیں جو بالواسطہ یا بلا واسطہ نظریہ ضرورت کی سازش میں شریک جرم رہے۔

کئی ایک کو نظریہ ضرورت کے ناگ نے ڈس بھی لیا۔ خواجہ ناظم الدین ، چودھری محمد علی ، سکندر مرزا ، جنرل ایوب خان کو یاد کرتے آگے بڑھیں اور جنرل یحیی کے دور جلیلہ کا ذکر کریں تو ملک غلام جیلانی اور الطاف گوہرکی گرفتاری ملتی ہے ۔ باپ کی گرفتاری کے خلاف کم عمر عاصمہ جہانگیر نے کئی جوانمردوں کو پیچھے چھوڑ دیا۔ سڑکوں پر نکلیں تو آزادی اظہار اور جمہور کے بچاو کی تحریک کیلئے روشن مثال رقم کر دی۔

افسوس سب بیکار گیا۔ نظریہ ضرورت کامیاب ٹھہرا۔
نظریہ ضرورت کے دائرے میں جسٹس حمودالرحمان ، ذوالفقار علی بھٹو ، جنرل ضیاالحق ، بیگم نصرت بھٹو ، جسٹس انوارالحق ، محمد خان جونیجو کے نام بھی گھومتے نظر آتے ہیں۔ سقوط ڈھاکہ کا ایک مرکزی کردار کہلائے جانے کے باوجود بھٹو مرحوم کی طلسماتی شخصیت نے جہاں نوجوان نسل میں سیاسی شعور پیدا کرنے کا اعزاز حاصل کیا وہیں روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ دے کر مزدور اور محنت کش کے دل میں نئی زندگی کی امید بھی پیدا کی۔

دوسری طرف جنرل ضیا نے اپنی مارشلائی حکمرانی کو جائز قرار دلوانے کیلئے نام نہاد اسلامی نظام کے نفاذ کے وعدے سے اس کا حلالہ کروایا ، مرد مومن مرد حق ضیاالحق ضیاالحق کے نعرے لگوائے اور ایسی ایسی تاویلیں گھڑیں کہ عقل حیران رہ گئی۔
جنرل ضیا نے بھارتی غاصب فوج کے ظلم و بربریت کا نشانہ بننے والے نہتے کشمیریوں کی آہ و بکا پس پشت ڈالی اور بھارتی اداکاروں کو سرکاری مہمان کا درجہ دیا۔

جنرل صاحب کے مشہور و معروف ریفرنڈم کا ایک ہی سوال تھا۔۔۔ اگر آپ ملک میں اسلامی نظام کا نفاذ چاہتے ہیں تو ہاں پر مہر لگائیے۔۔۔ اب کون کافر ہو گا جو ناں پر مہر لگائے۔۔ سو فرشتے حرکت میں آئے۔۔ ٹھپے پر ٹھپہ لگا اور نتیجہ 90 فیصد سے زائد جنرل صاحب کے حق میں آیا۔ جنرل صاحب نے طیارے کے حادثے کی نذر ہونے تک اسی ریفرنڈم کا پھل کھایا۔۔
جنرل صاحب کے اسلام سے انحراف کرنیوالے صحافیوں کو ٹکٹکی پر چڑھایا گیا۔

ننگے جسم پر کوڑے مارے گئے۔ شاہی قلعہ کے عقوبت خانے میں رکھا گیا۔ استاد محترم قبلہ عباس اطہر مرحوم بتاتے تھے کہ انہوں نے اور ان کے ساتھی قیدیوں نے شاہی قلعہ کاٹنے کا حل یہ نکالا تھا کہ کم سے کم کھایا جائے تاکہ نیند کی مار سے بچ سکیں۔ مکرمی و محترمی حسین نقی کے دل کو ٹٹولیں تو بہت کچھ ملے گا۔ پیارے خاور نعیم ہاشمی سے آج بھی کوڑے کھانے کا احوال پوچھیں تو مقصد حیات کی خاطر مر مٹنے کیلئے تیار رہنے والے ایک بہادر سپاہی کی طرح ان کی آنکھیں چمک اٹھتی ہیں۔


جنرل ضیا بھٹو کو پھانسی چڑھانے کے باوجود جب جمہور پسندوں کا قلع قمع نہ کر سکے تو شریف النفس اور انتہائی کم گو محمد خاں جونیجو کو دکھاوے کا وزیراعظم بنوا لیا لیکن ان کے ساتھ بھی نبھا نہ کر سکے۔ لہذا ایک مرتبہ وزیراعظم محمد خان جونیجو بیرون ملک دورے سے وطن واپس پہنچے تو ایک عام شہری کی طرح جہاز کی سیڑھیاں اتر رہے تھے۔ وطن واپسی کی پرواز کے دوران ہی محمد خاں جونیجو کی وزارت عظمی ختم کر دی گئی تھی۔

جنرل صاحب کے دور میں بیگم نصرت بھٹو کے جلسے جلوس رائیگاں گئے۔ قذافی سٹیڈیم کے باہر احتجاج میں بیگم صاحبہ کا سر پھٹ گیا تھا۔ جونیجو صاحب کی شریف النفسی بھی بیکار گئی۔ آئین گیا تیل لینے اور قانون کی راہداریوں میں نظریہ ضرورت ایک بار پھر سرخرو گیا۔
حاجی سیف اللہ ، بینظیربھٹو ، خواجہ احمد طارق رحیم ، نواز شریف ، غلام اسحاق خان ، فاروق احمد خان لغاری ، ملک معراج خالد کے نام بھی نظریہ ضرورت کی کئی کہانیوں کا حصہ بنے۔

بالخصوص محترمہ بینظیر بھٹو ، میاں نواز شریف ، غلام اسحاق خان اور سردار فاروق احمد خان لغاری کے درمیان جاری چومکھی لڑائیوں کا منطقی انجام بھی نظریہ ضرورت کی شکل میں منظر عام پر آیا۔
مطالعہ پاکستان کی کتابوں میں یہ بھی لکھا گیا کہ چھانگا مانگا کی سیاست نے جنم لیا تو مصر کے بازار سجے اور کئی یوسف کروڑوں کے بھاو خریدے گئے۔ قومی اخبارات کی شہ سرخیاں الفاظ کے بجائے ہندسوں کی محتاج ہو گئیں۔

۔۔ 10 ارکان قومی اسمبلی کی صدر سے ملاقات۔۔۔ 20 ارکان قومی اسمبلی کی صدر سے ملاقات۔۔۔ صدر سے ملاقات کرنیوالے ارکان قومی اسمبلی کی تعداد 50 ہو گئی۔ الغرض بلی 100 چوہے کھا کر حج کو چلی۔ اسمبلیوں کا دھڑکن تختہ ہو گیا۔۔۔ آئین اور قانون وضو کرتے رہ گئے اور نظریہ ضرورت قبلہ رو ہو گیا۔
جنرل پرویز مشرف ، جنرل ضیالدین بٹ ، میاں شہباز شریف ، ظفر علیشاہ سمیت مزید کئی نام بھی نظریہ ضرورت کے ساتھ نتھی ہیں۔

جنرل ضیا الدین بٹ کے ساتھ تو عجب تماشا ہوا کہ جرنیلی کے ستارے پوری طرح چمک بھی نہ پائے تھے کہ ان کی روشنی ماند پڑ گئی۔ میاں نواز شریف ، میاں شہباز شریف سمیت مسلم لیگ ن کے کئی رہنما اور کارکن پابند سلاسل ہوگئے۔
بیگم کلثوم نواز ایک خانہ دار خاتون ہونے کے باوجود میدان عمل میں اتریں تو بڑے بڑے سیاسی جغادر انگشت بدنداں رہ گئے۔ مال روڈ پر ایک احتجاج کے دوران قانون کے رکھوالوں نے بیگم صاحبہ کو آگے بڑھنے سے روکنے کیلئے ان کی گاڑی کو سڑک سے کئی فٹ اونچا اٹھا لیا۔

بیگم کلثوم نے شیر کی رکھوالی کا وعدہ ایفا کیا اور بڑی بہادری سے تحریک جاری رکھی۔ جنرل مشرف کے دور میں شریف فیملی کو جلا وطن بھی ہونا پڑا لیکن قانون کی سب کتابیں دھری رہ گئیں اور نظریہ ضرورت کا بول بالا ہو گیا۔
اب تک پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کی حکومت کے 5 / 5 سال پورے ہو سکے۔ اس میں بھی ہر حکومت کے 2/2 وزیراعظم آئے تب کہیں جا کر دونوں سیاسی جماعتوں کی 5/5 سال کی حکومت کی آئینی مدت پوری ہو سکی۔

نظریہ ضرورت کا المیہ یہ رہا کہ باقی چھوٹے موٹے جرائم کے ساتھ ساتھ بغاوت جیسا قبیح جرم بھی یک جنبش قلم معاف کر دیا گیا۔ قریب قریب 70 سال سے زائد کی ملکی تاریخ میں نظریہ ضرورت کا استعمال جا بجا نظر آتا ہے۔ طبی نظریہ ضرورت پہلی بار میدان میں اترا ہے۔ وہ بھی عمران خان صاحب کی حکومت میں میاں نواز شریف صاحب کی ناسازی طبع کا۔۔۔ دیکھئے کیا رنگ لاتا ہے ؟ امریکی عدالت کا Twin Case دنیا کی عدالتی تاریخ میں پیچیدہ ترین مقدمات میں سے ایک تھا۔

دو مولود بچوں کے جسم آپس میں کچھ اس طرح سے ملے ہوئے تھے کہ ان کو جدا کرنا ضروری تھا۔ ورنہ دونوں مرجاتے۔ جدا کرنے سے ایک بچ جاتا اور دوسرے کو مرجانا تھا لہذا امریکی عدالت نے ایک زندگی بچانے کیلئے دوسرے کا قتل قانونی قرار دے دیا تھا۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :