آسان ٹارگٹ

ہفتہ 23 فروری 2019

Muhammad Sikandar Haider

محمد سکندر حیدر

غربت و افلاس ایک بہت ہی سخت آزمائش کا نام ہے ۔جس در پر اِس کے ڈیرے ہو ں اُس گھر کے مکینوں سے ذرا پوچھ کر تو دیکھیں کہ غربت کس بلا کا نام ہے۔اُن کی زندگی کس طرح گزرتی ہے اور اُن کی آنکھوں میں سجے خواب کیسے انہیں نشترچبھو تے ہیں۔ ہر شخص ایک کامیاب زندگی گزرنا چاہتا ہے مگر سماجی ناانصافیوں نے حصول تعلیم اور ترقی کے مواقع غریب لوگوں سے چھین رکھے ہیں۔

 
ایک غریب باپ اپنی بچی کو ڈاکٹر بنانے کا خواب تو دیکھ سکتا ہے مگر مہنگی تعلیم کی بناپر وہ ایمانداری سے یہ خواب پورا نہیں کر سکتا۔ ہر سال ہزاروں بچیاں جو غربت کی بناپر شعبہ صحت میں ڈاکٹر تو نہیں بن سکتیں وہ شعبہ نرسنگ سے وابستہ ہو رہی ہیں۔ کیونکہ پاکستان میں شعبہ نرسنگ غریب بچیوں کے لیے ایک بہت بڑی مالی سہولت ہے۔

(جاری ہے)

میٹرک اور انٹرمیڈیٹ میں اچھے مارکس حاصل کرنے والی بچیاں جونہی شعبہ نرسنگ میں اپنا داخلہ حاصل کر تی ہیں انہیں کم و بیش 20ہزار روپے ماہانہ وظیفہ پہلے روز سے ملنا شروع ہو جاتا ہے جوکہ غریب گھرانوں کے لیے ایک بہت بڑی معاشی سپورٹ ہے۔

یہی وجہ ہے شعبہ نرسنگ کا انتخاب کرنے والی بچیاں زیادہ تر غریب گھروانوں سے تعلق رکھتی ہیں جنہیں ایک طرف معاشی سپورٹ کی ضرورت ہوتی ہے تو دوسری طرف اِن غریب اور شریف بچیوں میں خدمت خلق کا جذبہ بھی قدرتی طور پر موجود ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ا ٓج پاکستان میں شعبہ نرسنگ محکمہ صحت کی ریڑھ کی ہڈی بن چکا ہے۔ 
غریب بچیوں کی حفاظت اور باعزت روزگار فراہم کرنا ریاست کا فرض ہے اور اِس فرض کی ادائیگی محکمہ صحت کے تمام افسران پر عائد ہوتی ہے مگر صد افسوس کچھ واقعات ایسے رونما ہوتے ہیں کہ جن سے عرش بھی کانپ جاتا ہے مگر گناہوں میں بدمست افسران اور اہلکاروں کو نہ خوفِ خدا ہے اور نہ خوف ِقانون۔

چند روز قبل عزیز بھٹی شہید ٹیچنگ ہسپتال گجرات کے نرسنگ سکول کی ایک طالبہ کے ساتھ ایک سیکیورٹی گارڈ نے جنسی زیادتی (ریپ) کی۔ ڈپٹی کمشنر ڈاکٹر خرم شہراذ نے فوری طور پر تین رُکنی انکوئری کمیٹی بنائی ۔ انکوئری کمیٹی کی رپورٹ پر پرنسپل کوثر انجم اور نرسنگ انسٹرکٹر شہناز کوثر کو فوری طورپر معطل کر دیا گیا ہے اور محکمہ صحت پنجاب نے نرسنگ انسٹرکٹر صفیہ خانم کو نیا پرنسپل تعینات کر دیا ہے۔

 انکوئری کمیٹی نے اپنی سفارشات دی ہیں کہ نرسنگ سکولوں اور گرلز ہو سٹلز بشمول لیڈی ڈاکٹرز ہوسٹلز وغیرہ میں ایسے میل سٹاف کو تعینا ت کیا جائے جن کی عمریں 50سال سے زائد ہوں اور اِ س سے کم عمر کے میل سٹاف ممبران کو تعینات کرنے سے گریز کیا جائے۔ جدید بے راہ روای کے شکار معاشرے کے مطابق یہ سفارشات انتہائی مناسب ہیں ۔ مگر افسوس تو اِس بات کا ہے کہ ایک واقعہ رونما ہونے کے بعد دو چار دن کا شور پیداہوتا ہے پھر روایتی بے حسی غالب آجاتی ہے۔

آخر کیوں؟ جس بچی کے ساتھ جنسی زیادتی ہوئی ہے اُس کی زندگی تامرگ برباد ہو کر رہ گئی ہے۔ یہ ایک کیس ہے جو ظاہر ہوا ہے ورنہ نجانے کتنے ایسے ظلم ہیں جو پوشیدہ رہتے ہیں۔ 
موجودہ سیکٹریری صحت پنجاب ثاقب ظفر ایک ایماندار اور شریف النفس انسان ہیں میری اُن سے دو تین ملاتیں ہوئی ہیں وہ انتہائی نفیس انسان اور ماہر منتظم ہیں ۔ اِ س وقت محکمہ صحت کے ہسپتالوں میں مریضوں کو درپیش مسائل تو سب کے سامنے موجود ہیں مگر محکمہ صحت میں ایک مافیا ایسا بھی موجو دہے جو ماتحت فی میل سٹاف بشمول سٹوڈنٹس کی عزتوں سے کھلواڑ کر تا ہے۔

کردار کی بد کرداری مالی کریشن سے زیادہ مہلک ہے۔ ہر ہسپتال میں ایسی ہزاروں داستانیں موجو دہیں ۔
 سربراہ ادار ہ کا با کردارہونا بہت ضروری ہے۔ کیونکہ باکردار سربراہ ہی ماتحت عملہ کی عزتوں کی رکھوالی کر سکتا ہے۔ ہیلتھ سیکٹریریٹ تا بنیادی مراکز ہسپتال تک کردار کے کرپٹ افسران موجود ہیں جو ماتحت فی میل سٹاف کو اپنے مذموم عزائم کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

اور وہ ماتحت فی میل خواتین کو اپنا آسا ن ٹارگٹ تصور کرتے ہیں۔ کر دار کے کرپٹ افسران کی شناخت بہت آسان ہے کیونکہ اِس قبیلہ ابلیس کا طریقہ واردات بہت سادہ اور قابل فہم سا ہے۔ یہ بااختیار افسران فی میل سٹاف کو سروس کے امور میں بلیک میل کرتے ہیں۔ اُن کی کاموں کی درخواستوں پر تاخیری حربے استعمال کرتے ہیں۔ با ر بار اپنے دفاتر میں خواتین کو چکر لگواتے ہیں۔

انہیں اپنے ذاتی موبائل نمبر دیتے ہیں۔ ملازمت پیشہ خواتین سے اُن کے سرکاری کاموں کی آڑ میں اُن سے سود ا بازی کرتے ہیں۔کسی سے رشوت تو کسی سے عصمت کی سود ا گری کی جاتی ہے۔
 ہر مجاز افسر کی ڈیوٹی ہے کہ وہ فوری طور پر ہر سرکاری ملازم کی درخواست پر حسب قانون فیصلہ کرے اور متعلقہ آڈر فوری طور پر جا ری کرے۔ پوری قوم نئے پاکستان کے قیام کی آس میں ہے۔

محکمہ صحت کے حوالے سے حکومت پنجاب نے جو اختیار سیکٹریری صحت پنجاب ثاقب ظفرکو سونپا ہے وہ اُن کے لیے باعث عزت بھی ہے اور باعث امتحان بھی ہے کیونکہ وہ اِ س وقت پورے پنجاب کے سربراہ صحت ہیں اور ماتحت ملازمین کو اُن سے بہت سی توقعات وابستہ ہیں جنہیں اُنہیں اب پورا کرنا ہوگا۔ ہیلتھ سیکٹریریٹ میں بہت سے افسران پر کردار کے ضمن میں سوالیہ نشانات اُٹھ ر ہے ہیں جن کے متعلق اُنہیں بھی بخوبی علم ہوگا۔

کردار کی بدکرداری کے دستاویزی ثبوت نہیں ہوتے ہیں وہ خلقِ خدا کی آواز سے ثابت ہوتی ہیں۔ ہزاروں نرسوں اور لیڈی ڈاکٹرز کی عزت کی حفاظت کی ذمہ داری اب ثاقب ظفر پر عائد ہوتی ہے۔
پنجاب بھر کے کسی بھی ہسپتال میں اگر کوئی بھی اہلکار بد کردار ہے تو اُس کو نشانِ عبرت بنانا ہوگا۔پبلک ہیلتھ نرسنگ سکول ڈیرہ غازی خان اور بہاولپورمیں گذشتہ کئی سالوں سے فی میل ہیلتھ ایجوکیٹرز کی پوسٹوں پر نوجوان میل ہیلتھ ایجوکیٹر زتعینات ہیں جن کے متعلق بھی کچھ کردار کی سرگوشیاں زد ِعام ہیں حتی کہ سرکاری رپورٹ میں تحریر ہے کہ اُن کی نرسنگ سکولوں میں پوسٹنگ پا کستان نرسنگ کونسل کے قوانین کی خلاف وزری ہے مگر قبیلہ ابلیس اُن کا بھر پور ساتھ دے رہا ہے۔

اِ س سے قبل کہ عزیز بھٹی نرسنگ سکول جیسا کوئی ہولناک واقعہ ان سکولوں میں بھی رونما ہو ۔ ثاقب صاحب کو انہیں فوری طور کسی اور مناسب جگہ پر تعینا ت کرنا چاہیے۔
 ٹیچنگ ہسپتال ڈیرہ غازی خان کی موجودہ سکیورٹی کمپنی کے سیکیورٹی اہلکاروں پر بھی خواتین کو جنسی ہراساں کرنے کے الزامات عائد ہو چکے ہیں اور کچھ سنگین نوعیت کی شکایات بھی منظر عام پر آچکی ہیں۔ بااختیار اعلیٰ عہدو ں پر پوسٹنگ کے لیے متعلقہ اُمیدواران کی پیشہ وارانہ قابلیت کے ہمراہ کردار کی چھان بین کو بھی ضروری قرار ددیا جائے ۔خاص طورپر انتظامی عہدوں پر تعینات افسران کے اخلاق و کردار کے اوصاف پر بھی کڑی نظر رکھی جائے تاکہ آئندہ کسی فی میل اہلکار سے کوئی بھی مرد کسی قسم کی کوئی زیادتی نہ کر سکے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :