سوچ وفکر کا تضاد

ہفتہ 1 جولائی 2017

Muhammad Wajid Tahir

محمد واجد طاہر

فرانسیسی انقلاب نے ایک عام انسان کو اسکے بنیادی حقوق سے نہ صرف آشناکیا بلکہ انکے لیے آواز اٹھانے کا حوصلہ بھی مہیا کیا۔انقلاب سے پہلے ملک کا سیاسی اور معاشرتی نظام لالچی کرپٹ اور ظالم اشرافیہ کے ہاتھوں میں تھا جس میں عام آدمی کو اسکی سوچ اور فکر اور عمل پر آزادی حاصل نہیں تھی۔ حکومت وقت کی پالیسیوں اور قوانین پر اعتراض کی صورت میں احتجاج کرنے والوں عبرتناک سزا دی جاتی تھی۔

انکو اپنی ہی جائیداد سے محروم کر دیا جاتا تھا۔ایسے افراد کو معاشرے کے دوسرے افراد کیلے عبرت کا نشان بنا دیا جاتا تھا تاکہ حکومت وقت کی گرفت معاشرے پر مظبوط رہے۔
حکومت وقت کے پاس لوگوں کی سوچ اور فکر کو اپنی ڈگرکے مطابق چلانے کے لیے دوکامیاب ہتھیار تھے۔ایک چرچ اور دوسرا درمیانی سطح کی اشرافیہ۔

(جاری ہے)

چرچ اس فرسودہ معاشرتی نظام سے بھرپورسیاسی اور معاشی فائدہ اٹھاتا تھا اور لوگوں کی سیاسی اور معاشرتی فکر کو دینی تناظر میں کنٹرول کرتا تھا۔

چرچ کی معاش کا دارومدارعموما ان فتاوہ پر ہوتا تھا جو حکومت وقت کے ہر فیصلہ پر درستگی کی مہر ثبت کرتے تھے اور دوسرا ذریعہ کم علم اور توہم پرست لوگوں کو ڈرا دھمکا کر لوٹی ہوئی دولت تھی۔ دوسری طرف وہ درمیانی طبقہ کی اشرافیہ تھی جو مقامی لوگوں کا مختلف طریقوں سے استحصال کرتی تھی۔ حکومتی مفادات کا تحفظ اور حکومت مخالف عناصر کی نشاندہی کرنا اور انکا مناسب طریقہ سے صدباب کرنا انکی بنیادی ذمہ داری تھی۔

ایک طرف چرچ لوگوں کی سوچ اور فکرکو دینی تناظر میں حکومت کے مفادات میں کنٹرول کرتاتھا اور دوسری طرف یہ درمیانی اشرافیہ فرسودہ کلچر کی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے لوگوں کو محدود سوچ کے دائرے میں مقید رہنے پر مجبور کرتی تھی۔ چرچ احتجاج کرنے والوں کو گناہ میں مبتلا ہونے کے خوف میں مبتلا کرتا تھا اور اشرافیہ انکو کلچرل باغیوں کے خطاب سے نوازتی تھی۔

یہ دونوں طبقے اتنے بااثر تھے کہ انقلاب فرانس کے معوقع پر چرچ سے منسلک بااثر افراد اور اشرافیہ نے انقلاب کی پارلیمنٹ میں دائیں طرف نشست سنھبالی۔ جبکہ انقلابیوں کو بائیں نشتوں پر جگہ فراہم کی گئی۔
اس طرح دنیا سوچ اور عمل کے لحاظ سے دائیں اور بائیں بازوں میں بٹ کر رہ گئی۔ اس تقسیم نے آگے چل کر جدید دنیا کے نئے سیاسی اور معاشرتی نظام کی داغ بیل ڈالی۔

انقلاب فرانس اور آنے والے وقت نے یہ ثابت کیا کہ دائیں بازوں سے منسلک افراد معاشرے اور حکمران معاشی اور معاشرتی لحاظ سے اس طرح ترقی نہیں کر پائے جو کہ بائیں بازوں سے جڑے ہوئے افراد یا پھر معاشروں کے حصے میں آئی۔
تعجب کی بات یہ ہے کہ آج کے دور میں ایک ہی معاشرے اور ایک ہی دین سے تعلق رکھنے والے افراد کے درمیان بھی دائیں اور بائیں سوچ نے ترقی کا بہت گہرا خلا پیدا کیے رکھا ہے۔

اس کی بنیادی وجہ دائیں بازوں کی قدیم رسم و رواج اور روایات سے پاسداری ہے جبکہ بائیں بازوں سے منسلک افراد کی ایسی پرانی روایات سے لا تعلقی ہے۔وقت نے یہ ثابت کیا ہے کہ اگر افراد معاشرہ اپنی سوچ اور عمل کو وقت کی ضروریات سے ہم آہنگ نہیں کرتے تو جلد ہی تاریخ ان افراد یا معاشروں کو ترقی کی دوڑسے نکال باہر پھینکتی ہے۔ اگر ہم تاریخ کا بخوبی جائزہ لیں تو یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ فلسفہ اور الہامی ادیان جنہوں نے انسانی فکر و عمل پر اپنے گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔

ان علوم کے مراکز نے بھی قدیم روایات اور رسوم ورواج سے افراد معاشرہ کو دور رہنے کی تنبہ کی ہے ۔قدیم یونانی فلاسفرز نے یونان کے قدیم نظام حکومت اور معاشرتی اقدار کو چیلنج کیا۔ جس کے نتیجہ میں یونان دنیا میں علم و دانش کا رہنما بنکر ابھرا ۔اسی طرح اسلام جو کہ باقی الہامی مذاہب کے مقابلہ میں نسبت نیا مذہب ہے اس نے بھی عرب کے فرسودہ معاشرتی معاشی اور سیاسی نظام کو بدل ڈالا جس کے نتیجہ میں عرب اقوام نے ماضی میں خاطر خواہ ترقی کی۔

اگر ماضی کی عرب فتوحات کا جائزہ لیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ اسلام کے جدید نظریات معاشرت اورنت نئے علوم نے ڈارک ایجز کی اقوام کوزندگی کے روشن پہلوں سے روشناس کروایا تھا۔ یونان نے فلسفہ کی اور عرب نے اسلام کی بدولت دائیں سوچ اور فکر سے چھٹکارا پا لیا اور اپنے ادوار میں رونماہ ہونے والی معاشرتی معاشی اور سیاسی تبدیلیوں کا اس وقت کے عصری تقاضوں کے مطابق نہ صرف حل نکالا بلکہ باقی دنیا کے لیے ترقی کی کئی امثال بھی قائم کیں۔


لیکن دونوں اقوام بدلتے ہوئے وقت کی ضروریات کے مطابق افراد معاشرہ کی سوچ اور فکر کو متوازن طریقہ سے پروان نہیں چڑھا پائیں جسکی وجہ سے دوسری اقوام نے دنیا کے نقشہ پر اپنی اجارادی قائم کر ڈالی۔ نئی اقوام نے محدود مذہبی فکر اور دقیانوسی کلچر سے آہستہ آہستہ چھٹکارہ حاصل کر لیا اور افراد معاشرہ کی سوچ اور فکر کوسوچ کے بائیں پہلو سے روشناس کروایا۔

جس کے نتیجہ میں لوگوں کی فہم و فراست اور رہن سہن میں نمایاں تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ انفرادیت پروان چڑھی۔جدید تعلیم کے حصول اور نت نئے روزگار کے مواقع پیدا ہوئے۔غربت میں خاطر خواہ کمی واقع ہوئی۔ مذہبی توہم پرستی کو سائنس کے پیمانہ پر پرکھا جانے لگا۔خاندان سے لیکر ملکی سطح پر تحقیق کی بنیادوں پر قوانین مرتب کیے گے۔ افراد میں فرائض کی ادائیگی اور اپنے حقوق کے تحفظ کا احساس پیدا ہوا۔

اور لوگوں میں آزادی رائے اور اظہار کی خصوصیات پیدا ہوئیں۔ لیکن اس عمل میں بائیں بازوں سے منسلک افراد اور معاشروں کو سوچ فکر اور عمل کے تضادات کی ایک لمبی جنگ کرنا پڑی ہے۔
اس کے باوجودآج بھی ترقی یافتہ ممالک میں دائیں بازوں سے منسلک افراد مذہب اور رنگ اور نسل کی بنیاد پر تعصب کو پروان چڑھاتے ہیں اورترقی پزیر معاشروں میں اسی سوچ سے وابستہ افراد دین اور مسلک کو بنیاد بنا کر نفرت اور تشدد کو پروان چڑھاتے ہیں۔

دونوں معاشروں میں مذہبی رہنما اشرافیہ اور حکومتیں وہی کردار ادا کرتے ہیں جو کہ فرانسیسی انقلاب سے پہلے کرتے تھے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دائیں سوچ میں تبدیلی کیونکر اور کیسے ممکن ہو۔ ایک تھیوری یہ ہے کہ تعلیم کو عام کر کے ایسے افراد کی درست سمت میں رہنمائی کی جا سکتی ہے۔ مگر ترقی یافتہ ممالک میں تو پہلے ہی تقریبا تمام افراد کو تعلیم تک رسائی حاصل ہے۔

پھر وہاں کیونکر مذہب اور رنگ اور نسل کی بنیاد پر تعصب کی فضا قائم ہے۔ اگر تعلیم ان معاشروں ایسے افراد میں تبدیلی نہیں لا سکی تو پھر ترقی پزیر معاشروں میں تبدیلی کیسے ممکن ہے جہاں لاکھوں کی تعداد میں افرادکو تعلیم کی سہولیات ہی میسر نہیں۔
لیکن اس سے یہ بات نہیں اخذ کی جا سکتی ہے کہ تعلیم اور سوچ وفکر میں کوئی مناسبت نہیں ہے۔ اگر آپ کسی بھی مذہب کے پھیلاو کا بخوبی جائزہ لیں یا پھر معاشروں کی ترقی کے اسباب کا مطالعہ کریں یا معاشرتی انقلابات کے مختلف پہلوں پر غور کریں تو آپ کو سب میں ایک بات مشترک ملے گی اور وہ ہے موجودہ علم پر سوال اور نئے علم سے وابستگی۔

یہ بالکل بھی ضروری نہیں کہ علم کا حصول صرف تعلیمی اداروں سے ہی ممکن ہے ۔ معاشرے کے اور بہت سے ادارے بھی انسان کو کافی کچھ سکھاتے ہیں۔ تعلیمی اسناد تو صرف مخصوص شعبہ میں ہی انسان کا علمی قد بلند کرتی ہیں۔ والدین فیملی محلہ معاشرہ اور مذہبی ادارے انسان کی سوچ کو دائیں یا بائیں پہلو پر تعمیر کرتے ہیں۔ اب اگر یہ سارے ادارے دائیں سوچ پر تعمیر ہوئے ہوں تو پھر آپ چاہے جس مرضی تعلیمی ادارے سے فارغ تحصیل ہوں آپ کے بائیں جانب جھکاوء کے چانسز بہت کم ہوں گے ۔

یہی وجہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں بھی آپکو پڑھے لکھے افراد سوچ و فکر کے لحاظ سے دائیں بازوں سے جڑے ہوئے نظر آتے ہیں۔ مگر حالت زار ترقی پزیر ممالک میں ذیادہ حساس ہے کیونکہ وہاں نئے علم کو اپنانا نسبت کافی مشکل ہوتا ہے۔پہلے اسے تنقیدکا نشانہ بنایا جاتا ہے پھر اس کی تذلیل کی جاتی ہے اور آخر میں اسے اختیار کر لیا جاتا ہے۔
آج کی دنیا سیاسی اور مذہبی اور ترقی کے لحاظ سے بہت سے گروہوں میں بٹی ہوئی ہے ۔

امن اور ترقی کی راہ میں کہیں تو سیاست حائل ہے کہیں نسلی تضادات اور کہیں مذہبی اختلافات۔ اگر دنیا میں دائیں بازوں کی سوچ پروان چڑھے گی تو یہ دنیا کے امن کے لیے بہت خطرناک ثابت ہو گا۔ جو افراد یا پھر معاشرے اپنے اردگرد امن اور ترقی کے متلاشی ہیں انکو بائیں سوچ کا اپنانا ہو گا۔ دائیں سے بائیں طرف کا سفر کھٹن ضرور ہے مگر اس کے لیے معاشرے کلچر اور مذہب کو جدید دنیا کے تقاضوں کے مطابق سیکھنا پڑے گا۔

اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ لوگ اپنے عقائد اور سوچ کو تشدد سے پاک کریں۔کسی بھی ذریعہ سے حاصل شدہ علم کو دوسرے ذراعع سے بھی پرکھیں ۔ اپنے نظریات کا بخوبی جائزہ لیں اور دوسروں کے عقائد کا احترام بھی کریں۔ ہر کسی کے اندر اپنی بات کہنے کا حوصلہ تو ہوتا ہے لیکن دوسرں کی بات کو بھی سننے کا حوصلہ پیدا کریں۔ سب سے اہم یہ کہ معاشرے کے وہ ادارے جوکہ تعلیمی اداروں کے شانہ بشانہ افراد کی عقائد اور سوچ کی تعمیر کرتے ہیں انکا بنیادی مقصد انسانیت کو فلاح اور ترقی ہو نہ کہ جغرافیائی نسلی یا پھر مذہبی انتشار ہو۔


آج انڈیا امریکہ فرانس اور ترکی میں دائیں بازوں کی حکو متوں کا قیام اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ دائیں سوچ کس تیزی سے پروان چڑھ رہی ہے۔مگر کینڈا کی حکومت کا قیام اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ابھی بھی دنیا میں بائیں سوچ رکھنے والے افراد اور معاشرے پائے جاتے ہیں جو کہ انسانیت کو سب سے بڑھ کر اہمیت دیتے ہیں۔ مگر افسوس اس بات کا ہے کہ بہت سے افراد کو ترکی کو دائیں بازوں کی حکومت قائم ہونے سے تو بہت خوشی ہوتی ہے مگر اگر یہی حکومت امریکہ میں قائم ہو تو وہی افراد شکایات کا انبار لگا دیتے ہیں ۔

وہ خود تو کینڈا میں بائیں بازوں کی حکومتی جماعت کا خیر مقدم کرتے ہیں مگراپنے ممالک میں ایسی حکومت کا قیام بلکل بھی نہیں چاہتے کیونکہ انکے مطابق بائیں سوچ رکھنے والے معاشرے بھٹکے ہوئے ہوتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سوچ اور فکر میں یہ تضاد کیوں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :