عورتوں کی اعلی تعلیم اور پرائیویٹ سکول

بدھ 28 فروری 2018

Muhammad Wajid Tahir

محمد واجد طاہر

پی ایچ ڈی کی ریسرچ کے دوران مجھے پتا چلا کہ ہمارے ملک میں ذیادہ ترخواتین یونیورسٹی سے فارغ تحصیل ہو کرپرائیویٹ سکولوں میں نوکریاں کرتی ہیں۔ ان سکولوں میں کام کرنے والی خواتین تقریبا تعلیم کے ہر شعبہ سے تعلق رکھتیں ہیں۔ ان سکولوں کا کوئی جاب سٹرکچر نہیں ہوتا۔ حتی کہ بہت سی خواتین کو تقرری نامہ ہی نہیں ملتا جس پر نوکری کے اوقات، ذمہ داریاں، تنخواہ، اور چھٹی کے متعلق تفاصیل درج ہوتی ہیں۔

بڑھاپے میں یہ خواتین نہ تو پینشن کی حقدار ہوتی ہیں اور نہ ہی کسی اورمعاشی فائدے کی۔ سب سے اہم بات کہ یہ خواتین زچگی کے حوالے سے ہر طرح کی سہولت سے محروم رہتی ہیں، نہ تو انکو مناسب چھٹی ملتی ہے اور نہ ہی اس دوران تنخواہ۔ بلکہ کئی مواقع پرتوانکو نوکری سے بھی محروم ہونا پڑتا ہے۔

(جاری ہے)


دوسری طرف جرمنی اورسویڈن میں خواتین کو جہاں باقی سارے حقوق کا تحفظ حاصل ہے وہاں انکو سکول کی نوکری کرتے ہوئے ایسی کسی بھی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔

ان ممالک میں سکول ٹیچر کی اتنی ہی تنخواہ ہوتی ہے جتنی کہ یونیورسٹی کے اساتذہ کی۔ ان خواتین کو اپنے کام کے اوقات کو اپنی سہولت کے مطابق طہ کرنے کی اجازت ہے۔ مثال کے طور پر اگر ایک خاتون اپنی گھریلو ذمہ داریوں کی وجہ سے پارٹ ٹایم کام کرنا چاہتی ہے تو اسکو بخوشی اجازت مل جاتی ہے۔ بعد میں وہ اضافی کام کرکے اپنے طہ شدہ اوقات پورے کرسکتی ہے جس سے اسکی تنخواہ پر کوئی منفی اثرات مرتب نہیں ہوتے۔

زچگی کی صورت میں وہ خاتون اگر چاہے تو ایک سال کی مدت تک بچے کی دیکھ بھال کے لیے چھٹی لے سکتی ہے جس میں اسکو تنخواہ کا ستر فیصر حصہ ملتا ہے۔ اور اگر وہ پارٹ ٹائم نوکری کرتی رہے تو وہ اپنی آمدن اور چھٹی کا دورانیہ دوگنا کر سکتی ہے۔ اسکی صحت کی دیکھ بھال انشورنس کمپنی کے ذمہ ہوتی ہے کسی بھی ناگہانی صورت میں سارے اخراجات وہ کمپنی ہی ادا کرتی ہے۔

بڑھاپے میں پینشن بھی ملتی ہے اور باقی معاشی فائدے بھی حاصل ہوتے ہیں۔
ہمارے ملک میں یہ عقیدہ بہت تقویت پا چکا ہے کہ پڑھانا اور دیکھ بھال کرنا ہی عورت کے لیے بہترین معاش ہیں۔ چلیں اگراس بات کو مان بھی لیا جائے تو ہم عورت کو پڑھانے کے بدلے کیا دے رہے ہیں۔ گھرمیں صرف شاباش اور باہرتواسکو تقرری نامہ ہی نہیں دیا جاتا جو کہ اس کا بنیادی حق ہے۔

نوکری سے منسلک حقوق کی بات تو تب ہو جب اس عورت کی سروسز کو کاغذ پر لکھا جائے تا کہ اسکو پتا چل سکے کہ وہ اپنی سروسز کن شرائط پردے رہی ہے۔ لیکن ہمیں اس عدم مساوات پر کیا تکلیف ہے ہم تو بس اپنی عورتوں کو ٹائم پاس کرنے کے لیے یا پھر گھر کی آمدن میں غیر تسلیم شدہ اضافہ کرنے نوکری کرنے کا حق دیتے ہیں۔ اسی لیے ہم انکی اعلاء تعلیم کو کوڑیوں کے عوض بیچ رہے ہیں۔ ہم انکو سکھاتے ہی نہیں کہ وہ سکول میں اپنا بنیادی حق مانگیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شاید اس لیے کہ اگر انہوں نے سکولوں میں اپنا حق مانگنا سیکھ لیا تو کہیں وہ گھر پر بھی طوفان نہ کھڑا کردیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :