سائنس کا مذہب

جمعہ 4 مئی 2018

Muhammad Wajid Tahir

محمد واجد طاہر

دنیا میں لوگوں کا مذہب تو ہوتا ہے لیکن کیا سائنس کا بھی کوئی مذہب ہوتا ہے؟ سائنس کہتی ہے کہ میرا کوئی مذہب نہیں کیونکہ مختلف مذاہب سے منسلک افراد نے مجھے اس دنیا میں روشناس کرایا ہے۔ اورمیری روشنی سے سارے مذاہب کے پیروکارفائدہ اٹھاتے رہے ہیں۔ اس لیے سائنس کو کسی خاص مذہب کا لیبل نہیں دیا جا سکتا۔ سائنسدان کسی بھی مذہب سے وابستہ ہوا، اسکاسائنسی کام اسکی پہچان ہوتاہے ناکہ اسکا مذہب۔

دنیا میں بہت سے ایسے سائنسدان ہیں جنہوں نے اپنے کام کی مقبولیت سے اپنی مذہبی پہچان کروائی لیکن جن کا کام ابھی اس مقام تک نہیں پہچ سکا جوکہ سائنس کی دنیامیں کارنامہ تصورہوتاہے انکی مذہبی پہچان صرف انکی کمیونٹی تک محدود رہی ہے، مگرسائنس کی دنیاابھی ان سے اچھی طرح واقف نہیں۔

(جاری ہے)


مثال کے طورپرسائنس ابن سیناکواس لیے نہیں جانتی کہ وہ مسلمان ہے بلکہ انکی طب میں کی گئی خدمات کو سراہتی ہے۔

اسی طرح الیگزینڈر فلیمنگ یا لوئیس پاسچریا ماری کیوری کے عیسائی یا یہودی ہونے کی وجہ سے سائنس انکو عزت سے نہیں نوازتی بلکہ انکی وہ خدمات ہیں جو انہوں نے اپنی فلیلڈزمیں دیں۔ سائنسدان چاہے مسلمان ہوں یا عیسائی، ہندو ہوں یا بدھسٹ، سکھ ہوں یا لادین، انکے عقائید کا انکے سائنٹفیک کام سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ ہرفیلڈمیں سائنس نے کام کرنے کے مخصوص طریقہ کارکئی مراحل میں وضع کیے ہیں، جوکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتے رہتے ہیں، ختم بھی ہوسکتےہیں اورنت نئے طریقہ کارجنم بھی لے سکتے ہیں۔

یہ سارے مراحل سائنس کے کام اورآخری پراڈکٹ کوسنوارنےاورنکھارنے کے کام آتےہیں۔ جبکہ مذہب کی بنیادی تعلیمات تبدیل نہیں ہوسکتیں۔اس لیے کسی بھی طرح کی تبدیلی معاشرتی انتشار کا سبب بن سکتی ہے۔
اب چونکہ سائنس ایک تبدیل ہوتی کیفیت ہے اس لیے اسکا کوئی ایک مذہب نہیں ہو سکتا۔
مثال کے طورپرمیرے ایک دوست جرمنی سے پی ای ڈی کر رہے تھے انکے تجربات چوہوں سے متعلق تھے۔

انہوں نےچوہوں پرایک میڈیسن کو ٹیسٹ کرنا تھا جن سے انکی کی عمر بڑھ سکتی تھی۔ ایک دن ایک دوست نے ان سے سوال کیا کہ کیاآپ کا یقین ہے کہ زندگی اورموت خدا کے ہاتھ میں ہے؟ وہ بولے ہاں بلکل۔ میرا دوست بولا اچھا تو پھرآپ چوہوں کوایک دوائی کھلا کرانکی عمر بڑھانے کی کوشش کیوں کر رہے ہیں؟ کیا یہ خدا کے کاموں میں دخل اندازی نہیں؟ اب چونکہ وہ سائنس اورمذہب دونوں کے ابتدائی لیول کے طالب علم تھے اس لیے ان سے کوئی جواب نہیں بن پایا۔

ہالانکہ ہم سب جانتے تھے کہ وہ ایک ایسا سائنسی کام کررہے تھے جس سے ملتا جلتا ہزارہا لوگ پہلے بھی کرچکےتھے۔ ایسے تجربات کی وجہ سے ہی آج کئی ادویات مارکیٹ میں آ چکی ہیں جو کہ انسانوں کی ذندگی بچانے اور بڑھانے میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ آج کی دنیا نے یہ ثابت کیا ہے کہ جو معاشرے سائنسی بنیادوں پرتشکیل دیے گئے ان میں انسانوں کے رہن سہن اور سائنسی انقلاب کے اثرات کی وجہ سےانکی کی ایورج زندگیوں میں کئی سالوں کا اضافہ ہو چکا ہے۔

مجموعی طورپراگرسویڈن یا جاپان میں لوگ نوے سال تک ذندہ رہتے ہیں مگرجرمنی میں چورسی سال تک، پاکستان میں چوسٹھ سال تک اورافغانستان میں پچپن سال تک تو کیاان سب ممالک کے خدا مختلف ہیں؟ ظاہرہے جواب نفی میں ہے کیونکہ خدا توسب کا ایک ہی ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ انفرادی طورپربیماری یاموت کسی کے ساتھ کبھی بھی لاحق ہوسکتی ہیں۔ مگرسائنسی پیمانوں پراستوارمعاشروں اوران میں ہونے والی نت نئی سائنسی ایجادات نے انکے افراد معاشرہ کو لمبا عرصہ ذندہ رہنے کا موقع فراہم کررکھا ہے جبکہ روایتی معاشروں میں افرادغربت بیماری اورموت کے سائے میں ذندگی بسر کرتے ہیں جس کی وجہ سے لوگوں کی ایورج ذندگی نسبتا بہت کم ہے۔

اس فرق کا موجد نہ تو مذہب ہے اورنہ ہی مذہب اس فرق کو ختم کر سکا ہے۔ اس فرق کی بنیاد سائنسی رویہ ہے اوروہ سائنسدان ہیں جواپنی مذہبی وابستگیوں سے ہٹ کریا پھراپنی مذہبی سوچ کے تحت اپنی اپنی فیلڈزمیں کام کرتے ہیں۔ جس کا نتییجہ میں اوپروالی مثال میں دے چکا ہوں۔
آج سائنس کی اہمیت کا احساس اوراحترام صرف ان معاشروں میں ہے جوسائنسی خیالات اورایجادات کے بنیادی موجداورتقسیم کنندہ ہیں۔

یہ سائنسدانوں کی خدمات کو سراہنے کے لیے مختلف تعلیمی اداروں اور ریسرچ سینٹرز کے نام انکے نام سے منسوب کرتے ہیں تاکہ مستقبل میں آنے والے طالب علم اورسائنسدان انکواپنی فلیڈز میں مشعل راہ سمجھیں۔
مگرکل جب میں نے یہ سنا کہ قائدآعظم یونیورسٹی کے فزکس ڈیپارٹمینٹ کے نام کونوبل انعام یافتہ سائنسدان ڈاکٹرعبدالسلام کے نام سے الگ کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے تومجھے افسوس تو بہیت ہوا مگراس سوال کا جواب مل گیا جومیرے دوست کو دوسال قبل اس پی ایچ ڈی سکالرسے نہیں ملا تھا ۔

کیونکہ یقینا ہم کو ایسے ہی سائنسدان چاہیں جوہرسائنسی تجربہ کومذہب کی آنکھ سے دیکھیں اورتجربہ کے دوران یہ ضرورسوچیں کہ میری دی ہوئی دوائی کا پتا نہیں کچھ ہو گا کہ نہیں کیونکہ ذندگی اورموت تو خدا کے ہاتھ میں ہے، اوراس بات کو بلکل ہی بھول جائیں کہ ماضی میں خدا کے ہی دیے ہوئے دماٰغ اورعلم کا درست استعمال کرکے سائنسدانوں نے ایسی ادویات کے کامیاب تجربات سے لاکھوں انسانوں کی جان بھی بچائی ہے۔ خیراب چونکہ نہ توہم نےاپنی آنے والی سائنسی نسلوں کے سامنے ڈاکٹرعبدالسلام کو ایک سائنسی مشعل راہ کے طورپر پیش کرنا ہے اورنہ ہی انکی الیکٹرو ویو یونیفیکیشن تھیوری اپنے اداروں میں پڑھانی ہے۔ اس لیے ہم کو انکے نام کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ وہ مسلمان نہیں تھے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :