مذہب اور آبادی

جمعہ 1 فروری 2019

Muhammad Wajid Tahir

محمد واجد طاہر

محمد واجد طاہر
 2004 میں پہلی دفعہ پاکستان میں پاپولیشن سائنس کے ایم اے پروگرام کا انعقاد ہوا، کراچی یونیورسٹی اور پنجاب یونیورسٹی نے پہل کرتے ہوئے اپنے علمی نظام کو تیزی سے بڑتی ہوئی آبادی کی وجوہات اور اسکے نتائج سے آگاہ کرنے کے لیے طالب علموں اور اساتذہ کو ایک ایسا پلیٹ فارم مہیا کیا، جس پر ماضی اور موجودہ اوقات کی تھیوری اور ریسرچ کی کسوٹی سے پرکھے گئےعلم سے استفادہ کرنے کی کاوش کی جا سکے، تا کہ حد رفتار سے بڑھتی ہوئی آبادی کے ملکی معیشت کو درپیش چیلنجز کا حل تلاش کیا جا سکے،
2005 سے لیکر 2007 تک پنجاب یونیورسٹی سے ہم وہ پہلے خوش نصیب طالب علم رہے جن کو قدرت نے اس علم کے حصول کے لیے چنا، ہم سارے کلاس فیلوز علم کے لیے کم مگر ڈگری کے حصول کے ذیادہ متلاشی تھے، اس لیے سیکھنے سے ذیادہ نمبروں میں دلچسپی رہتی تھی، ہاں ہم ریسرچ ضرور کرتے تھے مگر ہماری دلچسپی صرف لڑکیوں تک محدود تھی، ہر کسی کو صرف ایک فکر لاحق تھی کہ ڈگری کے بعد نوکری اور بیوی ملے گی کہ نہیں، آبادی کے بڑھنے یا کم ہونے سے ہمیں کوئی سروکار نہیں تھا،
کل میرے ایک دوست نے اپنی فیس بک پر ایک ہوائی جہاز کے مجسمہ پر چڑھے بے شمار بچوں کی نشاندہی کرتے ہوئے آبادی کے بڑھتے ہوئے خطرے کی طرف توجہ دلائی مگر پھر بہیت سارے لوگوں نے انکو آڑھے ہاتھوں بھی لیا،اس دوران مجھے بھی اپنی کھوئی ہوئی تعلیم یاد آ گئی جسکا مقصد ہمیں پاپولیشن ایکسپرٹ بنانا تھا، چونکہ دوران تعلیم مجھے تھوڑی پڑھنے کی بیماری بھی لاحق تھی اس لیے مجھے اپنی ایک صحیح والی ریسرچ یا آ گئی جوکہ ہو سکتا ہے کچھ دوستوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کے متعلق اپنی سوچ کو بدلنے میں مدد کر سکے،
پاکستان میں عموما لوگ آبادی کے بڑھنے کو دین سے لنک کرتے ہیں اور یہ بیان کرنے میں ذرا نہیں ہچکچاتے کہ جس خدا نے پیدا کیا ہے وہ رزق بھی دے گا، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا انسان کے وجود کا مقصد صرف رزق کھانا ہے یا پھر ایک فائدہ مند انسان کے طور پر دنیا میں اپنا جصہ ڈالنا ہے تاکہ روز قیامت خدا کے سامنے سرخرو ہو سکے، خالی رزق تو پھر جانور بھی کھاتے ہیں، انسان کا رتبا پھر جانور سے کیونکر بہتر ہے،
جس دور میں اسلام دنیا میں آیا تھا تب مکہ اور مدینہ کی آبادی چند ہزار نفوس پر مشتمل تھی، اس دور میں عام ذریعہ معاش ذراعت یا تجارت تھے، دوسری جانب جنگوں میں بے شمار مرد مارے جاتے تھے، اور بیماریاں بھی بے شمار لوگوں کے جان لے لیتی تھیں، ان وجوہات کی بنا پر ذیادہ سے ذیادہ افراد کی ضرورت ہوتی تھی تاکہ معاشرے کا توازن قائم رہے،اسی لیے دین نے بھی اس ضرورت کو سمجھا اور ایسے احکامات کو فروٰٰغ دیا گیا جن سے آبادی سے متعلقہ معاشرے کی جملہ ضروریات پوری ہو سکیں، اس دور میں پیدائش کے وقت بہت سارے بچے مر جاتے تھے اورعمریں بہت لمبی نہیں ہوتی تھیں، جس وجہ سے آبادی کے بڑھنے کا تناسب بہت کم تھا، قدرتی وسائل لوگوں کی تعداد کے لحاظ سے بیش بہا تھے،
مگر آج ریسرچ یہ بتاتی ہے کہ دنیا کی آبادی اٹھارویں صدی تک صرف ایک ارب تھی جو کہ اب پونے آٹھ ارب کے پاس پہچ چکی ہے، جس میں مسلمانوں کی تعداد دو ارب کے آس پاس ہے، آبادی میں یہ اضافہ پچھلے دو سو سال میں ہوا ہے، جس نے قدرتی وسائل پر بہت بری طرح پریشر ڈالا ہے،
آج پاکستان میں تین کڑوڑ کے قریب بچے سکول نہیں جا پاتے، قریبا تین سے چار ہزار افراد کے لیے ایک ڈاکٹر ملتا ہے، ہسپتال میں ادویات نہیں ہیں، بے شمار بچے اور انکی مائیں پیدائش پراپنی جان دے دیتی ہیں، بہت سی بیویوں کو صرف بیٹی پیدا کرنے پر طلاق دے دی جاتی ہے، ایورج عمر 64 سال کے قریب ہے، نوکریوں کی قلعت ہے، غریب آدمی اپنا گھر نہیں بنا سکتا، دنیا کی ٹاپ کی پانچ سو جامعات میں کوئی جامعہ نہیں ہے، ان سب مسائل کی سب سے اہم وجہ آبادی کا بے ہنگم انداز سے بڑھنا ہے،
اب ہم کسی اور ملک کو ایک مثال کے طور پر لیتے ہیں، 2012 میں جرمنی کی آبادی 8 کڑوڑ تھی اور آج بھی 8 کڑوڑ ہی ہے، جبکہ پاکسان کی آبادی 18 کڑوڑ کے قریب تھی اور آج 22 کڑوڑ سے بھی تجاوز کر چکی ہے، جرمنی میں ہر بچہ سکول جاتا ہے، یہاں لوگوں کا فری علاج ہوتا ہے، بے روزگاری کی شرح پچھلے سالوں کے نسبت کم ہوتی ہے، بے ہنگم گھروں کی تعمیر سے ذراعت کا رقبہ خراب نہیں ہو رہا، اگر کسی کی جاب چلی جاَئے تو اسکو بے روزگاری الاونس ملتا ہے، بچوں اور ماوں کی پیدائش کے موقع پر موت کی شرح بہیت ہی کم ہے، ایورج عمر 88 سال کے قریب ہے، 370 کے قریب جامعات ہیں جو کہ ہر روز دنیا میں سائنسی انقلاب برپا کر رہی ہیں، معاشی اور معاشرتی اسودگی کے لحاظ سے یہ ملک دنیا میں چوتھے نمبر پر ہے، ان سب کامیابیوں کے پیچھے آبادی کے کنٹرو ل کا بہت بڑا ہاتھ ہے،
اس لیے ہمیں سوچنا پڑے گا، اپنے آنے والی نسلوں کے لیے ضرور سوچنا پڑے گا کہ کیا ہمیں دنیا میں جانورں کی طرح صرف رزق چاہیے یا پھر وہ مواقع جو کہ ہمیں خدا کے سامنے روزقیامت سرخرو کر سکیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :