لاک ڈاؤن اور عدم برداشت کا بڑھتا ہوا رحجان‎

ہفتہ 20 جون 2020

Mujahid Khan Tarangzai

مجاہد خان ترنگزئی

 کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے پیش نظر دنیا کے کئی ممالک میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے گھروں میں لڑائی جھگڑے اور عدم برداشت کی رحجان میں خوفناک اضافہ ہوا ہے۔حالیہ ہفتوں میں چین، برطانیہ، فرانس، اٹلی،سپین اور لاطینی امریکہ کے کئی ممالک میں گھریلو تشددکے واقعات اوراس کے نتیجے میں علحیدگی اور طلاق کی شرح میں ہوشر بااضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

لاک ڈاؤن کی وجہ سے پاکستان اور ہمسایہ ملک بھارت میں بھی صورتحال خاصی پریشان کن ہے جہاں خواتین اور بچوں پر جسمانی تشدد کے واقعات میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا اور ساتھ طلاق کی شرح میں اضافہ ہورہاہے۔
کرونا وائرس جیسی عالمی وباء سے نمٹنے کے لیے اگر چہ دنیا کے درجنوں ممالک نے مکمل یا جزوی لاک ڈاؤن نافذ کررکھا ہے اوراس عمل سے عوام کے کرونا وائرس میں مبتلا ہونے کے امکانات واضح طور پر کم ہوئے ہیں۔

(جاری ہے)

تاہم لاک ڈاؤن کی وجہ سے دنیا بھر میں عدم برداشت کی شرح میں بھی اضافہ ہوا ہے ادر لوگ نہ گھر میں بچوں کے شور برداشت کرسکتے ہیں ادر نہ دوسروں کی بات سُننے کو تیار ہیں۔ آئے روز گھریلو تشدد اور قتل کے واقعات سامنے آرہے ہیں۔
عدم برداشت ہمارے معاشرے کا ناسور بن کر اپنی جڑیں مضبوط کر چکا ہے۔اس مرض میں تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل ہیں۔

امیر ہے یا غریب،ڈاکٹر ہے یا وکیل،راہ چلتا ہے یا سوار،مالک ہے یا غلام،بچہ ہے یا جوان،دنیا دار ہے یا دین دار، عالم ہے یا جاہل،استاد ہے یا شاگرد،باپ ہے یا اولاد غرض یہ کہ تمام لوگ اس مرض میں مبتلا نظر آتے ہیں۔معمولی معمولی باتوں پر دوسرے کا خون بہانا اور انتقام کے جذبے کا جوش ہر کسی کے خون میں شامل چکاہے۔اس مرض نے محبتوں کو نفرت میں بدل دیا ہے۔

ہر کوئی انسانی شکل میں حیوان بن کر پھرتا ہے۔کسی کو صحیح بات اور نصیحت کرنے کی گنجائش نہ رہی۔حالانکہ ہمارا دین اسلام برداشت اور صبر کا دین ہے اور تعلیمات نبویﷺ بھی صبرو برداشت کا درس دیتی ہے۔  اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ رواں برس لاک ڈاؤن کے باعث دنیا بھر میں گھریلو تشدد کے 15 ملین یعنی ڈ یڑھ کڑور مزید کینسر کے سامنے آنے کا امکان ہے۔

لاک ڈاؤن ایک طرف توفیملی کو متحد ہونے کا سبب بنالیکن دوسری طرف خواتین کا یک بڑا طبقہ اسی دوران گھریلو تشدد میں بری طرح پھنس گیا ہے۔ گھریلو تشدد سے بوجھ رہی یہ خواتین اب نہ تو عام دنوں کی طرح اپنے ماں باپ کے پاس جاسکتی ہیں اور نہ ہی کسی دوست کو مدد کے لئے بلاسکتی ہیں۔ماہر نفسیات کے مطابق کورونا جیسی وباکے دوران انسانی فطرت میں تبدیلی آنا عام بات ہے۔

عدم برداشت کا بڑھتا ہو ارحجان اسلیئے بھی ہے کہ عام لوگوں کو صرف جسمانی بندش نہیں،اقتصادی دقتوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔اس کے لئے ہر ملک میں سسٹم کاایک حصہ لوگوں کے ذہنی توازن اور متاثر ین کے تحفظ کے لیئے تیار کرنا ہوگا۔
میڈیا پرہاتھ دھونے، احتیاطی تدابیر پر عمل اور گھر میں بند رہنے کی ہدایات تو ہر 5منٹ بعد دکھائے جاتے ہیں لیکن گھریلو تشدد اور عدم برداشت کے بیداری والا پیغام ندارد ہے۔

آئے  روز واقعات میں اضافہ ہورہاہے۔پشاور کے علاقہ تہکال میں ایک شخص نے کھیل کے دوران شور مچانے پر غصے میں اپنی بھتیجی کو گولی مار کر قتل کردیا۔ قاتل پولیس کی حراست میں ہے۔درج(FIR)کے مطابق ملزم نے پہلے گالی گلوچ کی اور پھر اپنا پستول نکال کر بچوں پر فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں اس کی بھتیجی ایشال زخمی ہوگئی 7سالہ بچی کو فوری طور پر ہسپتال منتقل کیا گیا لیکن راستے میں ہی دم توڑ گئی۔


ہائے کتنی افسوس کی بات ہے کہ معاملہ اب یہاں تک پہنچاکہ کوئی اپنے بچوں کے کھیل کود کے شور سُننے کو بھی تیار نہیں۔یہ ہمارے قانون کی کمزوری بھی ہے کہ ملزم کو تو ہتھکڑیاں پہنادی جاتی ہے لیکن بعد مین مظلوم کو انصاف ملے بغیر ظالم کو رہاکیا جاتا ہے۔ تو وہ اگلے جرائم کے لئے حوصلہ مند ہوجاتا ہے۔ایک واقعہ نظر سے گزار جو انہتائی متاثر کن ہے آپ بھی پڑھے۔


والدین کے اکلوتے بیٹے اور دو بہنوں کے اکلوتے پڑھے لکھے بھائی جنید کا اپنے محلے کے ایک نوجوان سے جھگڑا ہوگیا۔ہاتھاپائی ہوئی اور کچھ گالیوں کا تبادلہ بھی ہوا۔جنید گھر آیا اور اپنے کمرے میں بیٹھ گیا۔اس نے اپنے دشمن کو مارنے کا فیصلہ کرلیا اور الماری سے پستول نکال لیا۔اچانک اسے اپنے ایک دوست کی نصیحت یاد آگئی۔دوست نے اسے اپنے ایسا کوئی بھی انہتائی قدم اٹھانے سے پہلے 30منٹ کے لئے واردات کے بعد کی صورتحال تصوراتی طور پر دیکھنے کا کہا تھا۔


جنید نے تصور میں اپنے دشمن کے سر میں تین گولیاں فائر کرکے اسے ابدی نیند سلادیا۔ایک گھنٹے بعد وہ گرفتار ہوگیا،گرفتاری کے وقت اس کے والدین اور دو بہنیں پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھیں۔اس کی ماں بے ہوش ہوگئی۔مقدمہ شروع ہو اتو گھر خالی ہونا شروع ہوگیا۔ایک کے بعد ایک چیز بکتی گئی۔بہنوں کے پاس تعلیم جاری رکھنا ناممکن ہوگیا اوران کے ڈاکٹر بننے کے خواب مقدمے کی فائل میں خرچ ہوگئے۔

بہنوں کے رشتے آنا بند ہوگئے اور ان کے سروں میں چاندی اترنے لگی۔جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہر ہفتے والدین اور بہنیں ملاقات کے لئے جاتے۔ بہنوں کا ایک ہی سوال ہوتا کہ بھیا اب ہمارا کیا ہوگا؟ہم اپنے بھائی کے بستر پر کسے سلائیں گی؟ ہم بھائی کو ناز کیسے اٹھائیں گی؟ بھائی کے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا۔فیصلے کا دن آیا اور جنید کو سزائے موت ہوگئی۔

سزائے موت کی تاریخ مقرر ہوگئی۔25منٹ گزر چکے تھے اور جنید کے جسم پر لرزہ طاری ہوچکا تھا۔ جیل میں وہ اپنی موت کے قدم گن رہا تھا اور گھر میں والدین اور بہنیں اپنے کرب اور اذیت کی جہنم میں جھلس رہے تھے۔جنید کی آنکھوں پر کالی پٹی باندھ دی گئیں اور اسے پھانسی گھاٹ کی طرف لے جایا گیا۔29منٹ ہوچکے تھے۔پھانسی گھاٹ پر پیر رکھتے ہی 30منٹ پورے ہوگئے۔

جنید پسینہ پسینہ ہوچکا تھا۔ اس کے جسم میں کپکپی طاری تھی۔اس نے پستول واپس الماری میں رکھ دیا۔اس نے میز سے اپنی بہنوں کی دو کتابیں اٹھائیں اور بہنوں کے پاس گیا۔بہنوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میری پیاری بہنو تمہارے پڑھنے کاوقت ہوگیاہے۔ خوب دل لگاکر پڑھو کیونکہ تمہیں ڈاکٹربنناہے۔
چند ماہ بعد جنید ایک بینک میں اچھی پوسٹ پر ملازم ہوگیا۔جنیدکی دونوں بہنیں ڈاکٹر بن گئیں۔وہ ایک کامیاب اور بھرپور زندگی گزاررہے ہیں۔ان 30منٹ کی تصوراتی واردات اور 30منٹ کے مقدمے کی کارروائی نے ایک پورے گھر کو اجڑنے سے بچالیا۔ آپ اپنی زندگی میں یہ 30منٹ اپنے لئے ضرور بچاکے رکھیئے گا۔یہ 30منٹ کی تصوراتی اذیت آپ کو زندگی بھر کی اذیت سے بچالے گی!۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :