اتنی بے حرمتی ایک وزیر اعظم کی

پیر 16 جولائی 2018

Mumtaz Amir Ranjha

ممتاز امیر رانجھا

بہت پرانی کہاوت ہے کہ ایک دیہاتی شخص کسی شہر کی سیر کر کے واپس جانے لگا تو شہر کے چند آوارہ کتوں نے اسے گھیر لیا اس نے جلدی سے سڑ ک کنارے سے پتھر اٹھانے کی کوشش کی پتھر سیمنٹ کے ساتھ سڑک کنارے مضبوطی سے لگے ہوئے تھے لہٰذا پتھر اٹھائے نہ جا سکے۔اسے بہت غصہ آیا اور اس نے غصے میں برملا کہا،”کیسا شہر ہے کیسے لوگ ہیں پتھر باندھ رکھے ہیں لیکن کتے کھلے چھوڑ دیئے ہیں“۔


گزشتہ روز میاں نواز شریف کے حق میں لاہور میں نکلنے والی ریلی پر نگران حکومت کی رکاوٹیں دیکھ کر یہ واقعہ بہت یاد آیا۔اس نگران حکومت کو نیوٹرل رہنا چاہئے تھا لیکن موٹر وے، جی ٹی روڈ اور لاہور میں اتنی حکومتیں رکاوٹیں دیکھ کر ایسا لگا جیسے پی ٹی آئی کے کہنے پر ن لیگی افراد کو اتنی مزاحمتوں کا سامنا کرنا پڑا۔

(جاری ہے)

ملک میں ایسا شخص آ رہا تھا جس نے اس ملک پر بطور وزیر اعظم تین بار حکمرانی کی اور پاکستان میں ہونے والے تقریباً 80فی صد ترقیاتی کام اسی میاں نواز شریف نے مکمل کئے ہیں۔

یہ وقت کسی بھی عام شخص یا خاص آدمی پر آ سکتا ہے لیکن شاید احساس نام کی چیز کسی میں بھی نہیں ہے۔عدالتوں میں بیٹھے وکیل، جج،نگران حکمران،آرمی،پی پی پی ،پی ٹی آئی یا عام پاکستانی افراد ہوں یا کوئی بھی انسان ہو ،بے چارہ کبھی سازش کا شکار ہو کر میاں صاحب کی طرح عدالتی کاروائی میں پھنس سکتا ہے۔خود سوچیں پانامہ لیکس کدھر اور پاکستان کدھر۔

میاں صاحب کی طرف سے ایمانداری کہ انہوں نے خود کہا کہ ٹرائل کر لیا جائے ۔پھر آپ کردار دیکھیں ان کی مخالف پارٹی پی ٹی آئی کے لوگوں نے کس طرح جھوٹے سچے قصے کہانیاں بنا کر واقعی ایک شریف شخص کو گناہگار ثابت کر کے اپنے گھن چکر میں پھنسا لیا۔
ائر پورٹ پر ایمانداری سے پاکستان واپس آنے کوالے کو پاکستانی تاریخ کا سب سے بڑا مجرم دکھایا گیا اور ایک بہت بڑے کرمنل شخص کی طرح اڈیالہ جیل منتقل کر دیا گیا۔

ویری بیڈ۔۔۔۔پاکستان میں اس طرح کی روایات کا آغا ز بہت بری بات ہے۔اگر میاں صاحب مشرف کی طرح پاکستان نہ آتے تو بھی ہم سارے نواز شریف کو مجرم بنا ٹی وی چینلز پر ان کا ٹرائل کر رہے ہوتے۔شیخ رشید اور عمران خان اپنی جوانی کے دور میں انتہا درجے کے عیاش رہے ہیں اس کی یا تو کسی کو بھول نہیں یا کسی کو یاد نہیں۔شیخ صاحب تو پی آئی اے میں ائرہوسٹس بھرتی کر نے کے لئے تنہائی میں ملاقات کرتے تھے اور کسی سکول کالجز کی ٹیچرکوبھرتی کرنے اور تبدیل کرنے کے لئے بلیک میل کرتے تھے۔

وزیر فلم و سیاحت بھی رہے۔اس وقت تندور پر نہ تو نان لگاتے تھے اور نہ ہی ریسی بائیک پر سیلفی بنواتے تھے۔ان کی تصاویر ریما اور میرا کے ساتھ بنتی تھیں۔عمران خان یورپ میں فلیٹ لے کر حج عمرے نہیں کرتے تھے بلکہ وہاں بھونڈی کرتے تھے اور جمائما جیسی امیر گھر کی خواتین کو گھیرا کرتے تھے۔ویسے خان جی شلوار ریحام خان کتاب لکھ کر پھاڑچکی ہیں۔

قانون قدرت ہے ایسے دو افرا د عدالتوں کی نظر میں منظور نظر ہو گئے ،ان دونوں کو عدالتوں نے صادق اور امین بنا دیا اور پوری ن لیگ کو چور ڈاکو اور مجرم بنا دیا۔
اب جلسوں میں عمران خان کو ہیرو بنانے کے لئے کوئی کسر باقی نہیں رکھی جا رہی۔ہم تو یہی عرض کرتے ہیں کہ احترام آدمیت بھی ہوتا ہے اور پھر ملک کا پرائم منسٹر بننے والا شخص زیادہ معتبر ہوتا ہے۔

سی پیک کا پروجیکٹ لینے والا چور ڈاکو بنایا گیااور پوری دنیا میں پاکستانی قوم کی جگ ہنسائی کرائی گئی۔وقت کا بدلنا دیکھو خان صاحب اور شیخ رشید اس دور کے بڑے بھکاری لیکن قانون کی نظر میں درویش اور پارسا۔میاں نواز شریف اپنے والدین اور بچوں کے کاروبار کی وجہ سے چورڈاکو۔مریم نواز بیٹی ہونے اور کیپٹن صفدر داماد ہونے کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔

احقر کو کالم لکھتے بیس سال ہونے کو ہیں یقین کریں پاکستانی تاریخ میں اتنی بے توقیر ی وہ بھی ایک مہذب، شائستہ اور پاکستان میں ترقی لانے والے شخص کی دیکھی نہیں جاتی۔ہمارے ہاتھ میں ہو تو ہم میاں صاحب کی جیل میں اس کے مشقتی بن کر ہی جینا پسند کر لیں۔کہتے ہیں کہ وقت بدلتے دیر نہی لگتی ہو سکتا ہے کچھ عرصے بعد سین بدل جائے اور اللہ کی قدرت چاہے تو ان کے دشمنوں کے ساتھ اس سے بھی برا عبرت ناک منظر دیکھنے کو ملے۔

کہنے والے تو کہتے ہیں کہ چوہدری نثا ر کو دیکھیں میاں نواز شریف کی وجہ سے کتنی عزت ملی لیکن بطور وزیر داخلہ اس نے ہی بے وفائی کی ،غداری کی اور آج میاں صاحب کو یہ نوبت دیکھنے کو ملی۔
ہم نے پاکستان دیکھا ہے جہاں پڑھے لکھے رُل جاتے ہیں اور جعلی ڈگری والے جعلی افسر بن جاتے ہیں۔ہم نے پاکستان دیکھا ہے جہاں وزیر اعظم کو نائب قاصد کی طرح نکال دیا جاتا ہے یا جیل بدر کر دیا جاتا ہے۔

ہم نے پاکستان واحد وہ اسلامی ملک دیکھا ہے جہاں عمران خان اور شیخ رشید جیسے بھکاری،شرابی اور زانی لوگ صادق اور امین ہیں۔
مجھے آج ایسا ہی لگ رہا ہے کہ جیسے میں کسی ایسے شہر سے گزر رہا ہوں جہاں خان جی کے” شیرو“ کھلے پھر رہے ہیں اور میاں نواز شریف جیسے عظیم آدمی کو بچانے کے لئے کوئی پتھر نہیں مل رہا۔ ایک سابقہ وزیر اعظم کی اتنی بے حرمتی ہم سے دیکھی نہیں جاتی۔

ن لیگ کے سارے اہم ممبر نا اہل اور باقیوں کے ناہل بھی اہل۔الیکشن میں ن لیگ اپنے ترقیاتی کاموں کی وجہ سے ونر ہے لیکن ایمپائر پی ٹی آئی کے ہاتھوں یا تو بک چکے ہیں یا یرغمال ہیں کچھ ایسا دکھائی دے رہا ہے۔ہم کیسے دیس میں رہتے ہیں جہاں جوتے شوکیس میں رکھے جاتے ہیں اور کتابیں فٹ پاتھوں پر پڑی ہوتی ہیں۔آخر میں پاکستان کے لئے دعا یہ کہ اسے اللہ تعالیٰ بم دھماکوں اوردہشت گردوں سے بچائے۔آمین۔کے پی کے اور بلوچستان میں اے این پی اور رئیسانی صاحبان کے لیڈران اور عوام کی شہادت پر دل افسردہ ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :