حلوہ پکاؤ اور ر یچھ کو ڈالو۔۔۔۔

ہفتہ 1 مارچ 2014

Mumtaz Malik

ممتاز ملک

ہمارے وزیراعظم صاحب کا حال بھی اس بادشاہ جیسا ہے جو کسی زمانے میں ایک ملک پر حکومت کرتا تھا ایک دن بادشاہ کی طبیت اچانک خراب ہوگئی شاہی حکیموں اور طبیبوں نے بڑی کوشش کی کہ کسی بھی صورت میں بادشاہ کی جان بچ جائے لیکن زندگی نے وفا نہ کی اور بادشاہ کی موت واقع ہو گئی۔اس ملک کا قانون تھا کہ جب بادشاہ مرتا تھا توشہر میں داخل ہونے والے سب سے پہلے شخص کو اس ملک کا بادشاہ بنا دیا جاتا تھا۔

سب سے پہلا شخص جو شہر میں داخل ہوا وہ ایک ریچھ والا تھا اسے فاخرہ لباس پہنا کر تاج پوشی کے ساتھ ملک کا بادشاہ بنا دیا گیا اس نے جو پہلا فرمان جاری کیا وہ یہ تھا کہ حلوہ پکاؤ او ر میرے ر یچھ کوڈالو یہ سلسلہ جاری رہا ملک کوجب بھی کوئی مسئلہ پیش آتا اور اسے بتایا جاتا وہ یہی کہتا کہ حلوہ پکاؤ اور ریچھ کو ڈالو اچانک پڑوسی ملک کی افواج نے ملک پر حملہ کر دیااس کو جب بتایا گیا تو وہی حکم صادر کیا کہ حلوہ پکاؤ اور ریچھ کو ڈالو آخر کار جب دشمن کی فوج سارے ملک کو فتح کرتے ہوئے شہر میں داخل ہوئی تو اس نے وہی حلوے والا حکم جاری کیا جس کی تعمیل کی گئی اور جب دشمن کی فوج دربار میں داخل ہوئی تو بادشاہ سلامت نے تاج ان کے حوالے کرتے ہوئے کہا کہ یہ لیں آپ کو حکومت مبارک ہو ہم نے تو اپنا ریچھ پالنا تھا جو خوب پال لیا۔

(جاری ہے)


ملک جن حالات سے بھی گزررہا ہے ہمارے وزیراعظم موج میں ہیں ان کے غیر ملکی دورے ہیں کہ ختم ہی نہیں ہوتے اور ساتھ ہی ان کی ساری فیملی نے بھی وزارت خارجہ کو سنبھال رکھا ہے۔حکومت کو بنے دس ماہ ہو چکے ہیں لیکن ملک کا وزیرخارجہ ابھی تک نہیں بنایا گیا ہمارے وزیرخزانہ اسحاق ڈار اور پنجاب کے وزیراعلٰی شہباز شریف ملکی خارجہ امور کو آگے بڑھا رہے ہیں لگتا توایسے ہے جیسے دیگر ممالک سے ملک و ملت کے کم اور خاندانی تعلقات زیادہ استوار کیئے جا رہے ہیں حالات جیسے بھی ہوں حکومت ہو یا نہ ہو ذاتی کاروبارچلتا رہے۔

۱۹۳۹ء میں بننے والی اتفاق فیکٹری جو ۱۹۷۲ء میں پی پی پی حکومت کی طرف سے قومی دھارے میں لے لی گئی تھی ضیا ء الحق نے حکومت میں آتے ہی شریف خاندان کو واپس لوٹا دی اور آج یہ اپنا حجم بڑھا کر اتفاق گروپ آف انڈسٹریز بن چکا ہے جس میں اسٹیل ملز،ٹیکسٹائل ملز،شوگر اینڈپیپرز انڈسٹریز شامل ہیں۔
شاہی حلوہ چلتا رہے ریچھ پلتا رہے
نہیں پرواہ ملک چاہے، جلتا رہے
پروفیسر نوم چومسکی کے مطابق نجکاری کا مطلب ہے عوام کی دولت کو سرمایہ داروں کے حوالے کرنا مطلب یہ کہ قومی ادارے جتنا بھی بری حالت میں چل رہے ہوں ان کو ٹھیک کرنے کی کوشش کی جائے نہ کہ انہیں فروخت کر دیا جائے نجکاری کمیشن کے چیئرمین محمد زبیر کہتے ہیں نجکاری کا مقصد صرف قومی اداروں کو بیچنا ہی نہیں ہے بلکہ ملکی معاشی سرگرمیوں کو تیز کرنا ہے کیونکہ اسٹیل ملز،پاکستان ریلوے اور پی آئی اے ایسے ادارے ہیں جو کہ ملک کے لیئے۵کھرب روپئے کے نقصان کا باعث بن رہے ہیں جبکہ و فاقی وزیرتیل وگیس شاہد خاقان عباسی کی نجی فضائی کمپنی ائیر بلیو تو خسارے سے پاک ہے یہ آخر قومی ادارے ہی کیوں گھاٹے میں رہتے ہیں۔

۔۔؟ حالانکہ ایک سوزوکی پک اپ کا مالک جو اپنی گاڑی کوکرائے پر سواریوں کے لیے چلاتا ہے وہ بھی شام کو اپنے اور گھر والوں کے لیے روزی کما لیتا ہے۔
۱۹۹۱ء میں بے نظیر بھٹو نے بھی کہا تھا کہ نوازشریف نے ملک کو لوٹ مار کا مال بنا رکھا ہے اس وقت بھی نواز شریف گورنمنٹ نے اپنے زیرسایہ ایک نجی فضائی کمپنی کی تشکیل کے ساتھ ساتھ MCB کو فروخت کر کے نجی شعبہ میں شامل کر دیا جو لاہور میں پیدا ہونے والے میاں محمد منشاء کی ملکیت ٹھہری جو نوازشریف کے والد مرحوم کے دوست تھے آج یہ چنیوٹی منشاء گروپ آدم جی انشورنس کمپنی،MCB،ڈی جی خاں سیمنٹ اور نشاط ٹیکسٹائلز ملز پر مشتمل پاکستان کا امیر ترین گروپ بن چکا ہے۔

شاہی خرچوں اورقومی حلوے پر ذاتی وسیاسی تعلقات اور مفادات کو روزبروز پروان چڑھایا جا رہا ہے یہی صورتحال رہی تو اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے ٹھیک کہا ہے کہ حکومت کہیں پاکستان ہی کی نجکاری نہ کر دے اور حکمران اپنے ریچھ کو فربہ کر کے ملک کو دہشت گردوں کے حوالے کر کے چلتے بنیں گے۔۔۔۔۔!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :