راحت اندوری کون تھے؟

ہفتہ 5 جون 2021

Munazzah Nazim Khan

منزہ ناظم خان

اردو زبان اور شاعری کا تعلق بہت قدیم اورعزیم ہے۔اردو زبان کے بہت سے عظیم شاعرگزرے ہیں جنہوں نے اپنی بہترین شاعری سے اردو زبان اور خود کو امر کر لیا۔جن میں علامہ اقبال،میر تقی میر،مرزا غالب،ناصر کاظمی،جوش ملیح آبادی اور جون ایلیاسمیت بہت سے عظیم اور مایاناز شاعر شامل ہیں۔ان تمام بہترین شاعروں میں ایک نام راحت اندوری کا ہے۔


راحت اندوری کا اصل نام راحت قریشی تھا اور تخلص’راحت‘لکھتے تھے۔راحت اندوری ۱ جنوری ۱۹۵۰ کو اندور میں پیدا ہوئے۔انکے والد رفعت اللہ ٹیکسٹائل مل کے ملازم تھے اوروالدہ کا نام مقبول النساء بیگم تھا۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم نوتن اسکول اندور سے حاصل کی،بھوپال سے اردو ادب میں ایم اے کیا اور پھر ۱۹۸۵ میں اردو ادب میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔

(جاری ہے)


راحت اندوری نے ۱۹ سال کی عمر میں پہلی بار شاعری کی ۔ ۔آپ ایک ممتازاورسنجیدہ شاعر تھے،مذہبی،سیاسی اور سماجی عنوان پر شاعری کرتے تھے۔ اپنی بہترین شاعری کی وجہ سے ایک الگ پہچان اورایک منفردمقام کےمالک تھے۔راحت اندوری کو اگرعوام کا شاعر کہیں تو کچھ غلط نہیں ہوگا کیونکہ آپ اپنی شاعری میں عوام کے جذبات کو ڈھالتے اور منفی سیاست کو لتھاڑتے تھے۔

راحت اندوری حالات حاضرہ پر بہترین اشعار پڑھا کرتے تھے۔راحت ہر طرح کی عدم مساوات کے خلاف تھے۔انہوں نے عالمگیریت ، معاشرے میں خواتین کی حیثیت جیسے حالات حاضرہ کے مسائل پر بڑے پیمانے پراشعار لکھے اور کہے ہیں۔
اسکے علاوہ ان کے اشعار میں عاشق مزاج اور عشق میں ٹوٹے دل والےافراد کے لئے تسکین کا سامان بھی ہوتا تھا۔شاعری کے ساتھ ساتھ راحت اندوری نے مختلف بالی وڈ فلموں کے لئے گیت بھی لکھے جو بہت پسند کئے گئے اور آج بھی بہت مشہور ہیں۔


ویسے توہمیشہ سےہی راحت اندوری کے اشعار بہت ہی مشہور و مقبول اور اہمیت کے حامل رہے ہیں گزشتہ کچھ عرصے سےآپ کے اشعارنوجوانوں میں بے حد مقبول ہوگئے ہیں اور نوجوان انہیں اپنے واٹس ایپ اسٹیٹس پہ بڑے شوق سے اپلوڈ کرتے نظرآتے ہیں اوریہ اشعار ٹوئٹر پر بھی ٹرینڈہوئے ہیں۔
راحت اندوری اپنےمنفرداشعار،لہجہ اور اندازکی وجہ سے بہت نمایاں رہے۔

آپ کو مشاعروں کی شان اور جان مانا جاتا تھا ۔آپ کی موجودگی کسی بھی مشاعرے کی کامیابی کی ضمانت سمجھی جاتی تھی۔راحت اندوری نے اپنی زندگی میں مختلف کتابیں بھی لکھیں جن میں رت،دھوپ بہت ہے،میرے بعد،چاند پاگل ہے،موجود اور ناراض شامل ہیں۔
راحت اندوری تقریبا ۷۰ سال کی عمر میں۱۱اگست۲۰۲۰ کو کروناوائرس کے ساتھ دل بند ہوجانے کی وجہ سے انتقال کر گئے،ااوراس دنیا اور اپنے لاکھوں مداحوں کو الوداع کہہ گئے۔

اآپ کے انتقال کی خبر ادب کے چاہنے والوں اور شاعری سے محبت کرنے والوں کے لئے کسی سانحہ سے کم نہ تھی۔
آپ کے انتقال کے موقع پرمولانا فیضی نے کہا کہ راحت صاحب نے برسوں تک اردو ادب کے گیسو سنوارنے کے ساتھ کئی نسلوں کی اس طرح تربیت کی کہ آج پوری اردو دنیا میں قدم قدم پر آپ کے ایسے پروردہ افراد نظر آتے ہیں جن کو آپ نے اردو ادب کے ساتھ چلنے کا ہنر سکھایا تھا، انہوں نے کہا کہ راحت صاحب نے تو دنیا کو الوداع کہہ دیا؛ مگر انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعہ انسانی برادری کے لئے جو پیغام چھوڑے ہیں وہ ہمیشہ ادب سے وابستہ افراد کو ان کی موجودگی کا احساس دلاتے رہیں گے۔


راحت اندوری تو اس دنیا سے رخصت ہوگئے لیکن آپکی شاعری آپکی پہچان بن کر اس دنیا میں اور لوگوں کے دلوں میں زندہ رہے گی۔
یہ سانحہ توکسی دن گزرنے والا تھا
میں بچ بھی جاتا تواک مرنے والا تھا

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :