موجودہ نظام تعلیم میں ثقافتی بنیادکی اہمیت

ہفتہ 7 ستمبر 2019

Murad Ali Shahid

مراد علی شاہد

انسانی تمدن وثقافت کے صحت مند ارتقا اور معاشرہ کی ترقی واستحکام کا تقاضا یہ ہے کہ معاشرہ میں پرورش پانے والے بنی نوع انسان اپنے مشاہدات،تجربات،عقائد،اقدار،ادراک اور معلومات کو نسل آئندہ کے سپرد کر کے جائے۔معلومات کا نسل در نسل انتقال ہی دراصل تعلیم ہے ۔تعلیم ایک ایسی قوت ہے جو انسان کی طبعی میلان،صلاحیتوں،جوہر اور تخلیقی قوتوں کی عکاس ہوتی ہے۔

معاشرتی ارتقا و ترقی اور عمرانی نظریات سے ہی کسی ملک کے تعلیمی معیارات،احیا اور نشوونما کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔اس لئے کہ تعلیم معاشرہ کی سمت اور نصب العین متعین کرتی ہے۔تعلیم معاشرہ کو ایسی شاہراہ پر چلا تی ہے جس کے گردونواح میں معاشرتی فلاح وبہبود اور منزل مقصود معاشی ترقی ہو۔گویا تعلیم کو معاشرہ میں اہم مقام حاصل ہے۔

(جاری ہے)

اور معاشرہ کا بنیادی کردار انسان ہوتا ہے۔

تعلیم کو اگر اور نظر عمیق سے دیکھا جائے تو تعلیم انسانی رویوں،تمدن اور ثقافت کی ترقی کا دوسرا نام ہے۔آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ تعلیمی ترقی میں ثقافتی بنیادوں کا مضبوط ہونا از بس ضروری ہوتا ہے۔اور ثقافت انسانی تربیت کے بغیر کبھی بھی پنپ نہیں سکتی۔ثقافت کسی بھی قوم کا مستقبل اور اس کی پہچان ہوتی ہے۔اور اعلی تعلیمی معیار کی ضامن نصاب سازی اور اس کی بنیادیں ہوتی ہیں۔

اگرچہ نصاب سازی کرتے ہوئے مختلف بنیادوں جیسے کہ معاشرتی،عمرانی،نفسیاتی اور مذہبی کو مدنظر رکھا جاتا ہے لیکن جو اہمیت تعلیمی معیار میں ثقافتی بنیادوں کا ہے وہ کسی اور کا نہیں ہے۔اس لئے کہ کسی بھی معاشرہ کی پہچان اس کی ثقافت ہی ہوا کرتی ہے جتنی ثقافتی اقدار مضبوط بنیادوں پر استوار ہوں گے معاشرہ اتنا ہی مضبوط دکھائی دیتا ہے۔اسی طرح معاشرہ کی ترقی واستحکام کا اندازہ بھی اعلی تعلیمی معیارات سے ہی لگایا جاتا ہے۔

اسی ثقافتی بنیادوں کی استقامت کی وجہ سے ہی برطانیہ نے آدھی دنیا پر حکومت کی ہے۔حالانکہ ان کے پاس ماسوا میگنا کارٹا1215 کے اپنا کوئی تحریری آئین بھی نہیں ہے لیکن وہ اپنی رواجات اور روایات کے ساتھ اتنی مضبوطی سے بندھے ہوئے ہیں کہ وہ انہیں ہی اپنا قانون اور آئین خیال کرتے ہیں۔گویا ان کی رواجات واقدار ہی ان کا آئین ہے اور ہر برطانوی شہری اسے دل سے قبول بھی کرتا ہے۔


بہت سے دیگر نظاموں کی طرح پاکستان میں نظام تعلیم میں بھی اصلاحات اور تبدیلیوں کی ضرورت پڑتی رہتی ہے کیونکہ بہتر سال گزرنے کے باوجود ہم ابھی آدھا تیتر اور آدھا بٹیر کی چکر میں نہ مکمل طور پر انگلش میڈیم اور نہ ہی پوری طرح اردو میڈیم کو متعارف کروا سکے ہیں ۔سر سید احمد خان جب برصغیر میں مسلمانوں کے لئے سکول کی بنیاد رکھنے کی سعی کر رہے تھے انگریز لارنس کالج مری 1860 میں قائم کر چکا تھا اسی طرح جب سر سید احمد مسلم ایجوکیشنل کی بنیاد رکھ رہے تھے انگریز نے اسی سال ایچی سن کالج کی بھی بنیاد رکھ دی تھی۔

اسی سال بہاولپور میں ایجرٹن کالج کی بنیادیں بھی اٹھا دی گئیں تھی۔گویا جب جب ہم مسلمانوں کے لئے تعلیمی ادارے قائم کر رہے تھے تب تب انگریز اور اس کے حلیف جاگیردار،وڈیرے،نواب اور فیوڈل اعلی تعلیمی معیارات کے تعلیمی ادارے بھی قائم کر رہے تھے گویا برصغیر تعلیمی لحاظ سے واضح طور پر دو حصوں میں منقسم دکھائی دیتا ہے جو کہ اب تک قائم ہے کہ جو سر سید کے کے تعلیمی پیروکار ہیں وہ گورنمنٹ سکولز اور جو انگریزوں اور جاگیرداروں کی کلاس ہے وہ آج بھی انگریز کے بنائے ہوئے اداروں میں تعلیم حاصل کر کے اکثریت عوام پر حکمرانی کر رہے ہیں۔

دونوں تعلیمی اداروں میں فرق صرف ثقافتی بنیادوں کا ہے کہ انگریزی میڈیم آج بھی انہیں اصولوں پر قائم ودائم ہیں جو آج سے ایک صدی قبل تھیں جبکہ ہمارے دیگر اداروں نے اپنی ہی بنائی ہوئیں ثقافتی بنیادوں کو اپنے ہاتھوں دفن کر دیا ہے ہم آدھی چھوڑ کر پوری کے چکر میں اپنے حصے کی آدھی بھی گنوا چکے ہیں۔میری سفارش ہے کہ اگر ہم اپنے نظام تعلیم کو جدید بنیادوں پر استوار کے ساتھ ساتھ اپنی ثقافت کو بھی بنیاد بنا لیں اور مکمل مضبوطی کے ساتھ اس سے چمٹ جائیں تو آج بھی ہم تعلیمی میدان میں سب کو پیچھے چھوڑ سکتے ہیں۔انشا اللہ

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :