
عوامی دانش گاہیں معدوم کیوں؟
بدھ 30 اکتوبر 2019

مراد علی شاہد
(جاری ہے)
سماجی رشتوں اور رابطوں کو مضبوط رسی میں پرونے کے لئے مختلف تہذیبوں میں مختلف انداز اپناتے جاتے رہے ہیں جیسے کہ گاؤں کا تکیہ،ترنجن،بارہ دری،تندور،بزرگوں کا برگد کے نیچے بیٹھ کر تاش کھیلنا،محلہ میں چائے والا کھوکھا،شہروں میں حمام اور مسجد،یہ سب وہ سماجی دانش گاہیں تھیں جو عصر حاضر میں معدوم ہو چکی ہیں یا ہوتی جارہی ہیں۔جب یہ دانش گاہیں موجود تھیں رشتوں میں ادب واحترام اور جڑت تھی،جیسے جیسے یہ عوامی دانش گاہیں معدوم ہونا شروع ہوئیں انسانوں کا قرب دوری میں بدلنا شروع ہو گیا،اب عالم یہ ہے کہ ایک ہی گھر میں ایک چھت تلے ماں بچوں کو وٹس ایپ پر ریکوئسٹ بھیج رہی ہوتی ہے کہ کھانا تیار ہے،سب آکر تناول فرمالیں۔اس ضمن میں دوتہذیبوں کا اپنے صمیم روائتی،تہذیبی وثقافتی محاسن وشمائل کا تذکرہ خاص اس لئے ضروری ہے کہ یہ دونوں تمدنی لحاظ سے سرخیل خیال کی جاتی ہیں یعنی قدیم رومی تہذیب اور قدیم الایام عرب۔
اگر قدیم الایام عرب کی بات کی جائے تو عرب میں تسویدی کام پر اتنا اعتبار نہیں کیا جاتا تھا جتنا کہ حافظے پر بھروسہ کیا جاتا تھا،اسی حافظے کی بنا پر عرب دیگر اقوام کو عجم کہا کرتے تھے اور اسی حافظے کی برکت کی بنا پر ہی عرب روایات،حکایات اور ایک ہزار ایک داستان(الف لیلیٰ)کی وجہ سے عالم کل میں شہرت وتشہیر آج تک رکھے ہوئے ہیں۔سینہ بہ سینہ روایات جو عرب لوگ سالانہ میلوں،خاندانی تقاریب اور مجالس میں بیٹھ کر ایک دوسرے کے ساتھ تبادلہ کیا کرتے تھے عربوں کی مضبوط حافظے کی علامت سمجھی جاتی تھی،عرب میں سب سے مستحکم عوامی دانش گاہ مجلس کو سمجھا جاتا ہے جو ہر گھر کے باہر ایک چبوترہ پر خوبصورت خیمہ ایستادہ کئے نظر آئے گی۔ہر کسی کو مجلس میں آمد پر قہوہ اور کھجور سے شرف ِ میزبانی بخشا جاتا ہے اور پھر اہل علاقہ کے بزرگ اور نوجوان موتیوں کی تلاش سے سامان ِ حرب کی داستانوں سے خیمہ کے ماحول کو چار چاند لگاتے ۔علاقے کے اہم فیصلے انہیں مجالس میں بیٹھ کر کئے جاتے ہیں گویا عرب ممالک میں مجلس اپنے تئیں مکمل عوامی دانش گاہ ہوتی ہے۔
قدیم یونان دانش،فلسفہ،منطق،فکر،علم اور سقراط کی وجہ سے ہمیشہ سے ہی منفرد پہچان کا حامل ملک رہا ہے۔یونانی علم و حکمت اور فلسفہ کو دنیا میں اگر جانا جاتا ہے تو اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ سقراط کی سرزمین ہے۔سقراط جہاں بھی بیٹھ جاتا وہیں ایک دانش گاہ قائم ہو جاتی۔یہ بات اکثر کتابوں کی زینت بنی ملے گی کہ سقراط گلیوں،چوراہوں،پہلوانوں کے اکھاڑوں اور حمام پر بیٹھے لوگوں کو اپنے فلسفہ فکر کے بارے میں آگاہی دینا شروع ہو جاتا۔سقراط کی بائیوگرافی میں سائمن اور ماؤس کو اس لئے مرکزی حیثیت حاصل ہے کہ ان کی زندگی کا بیشتر حصہ ان دوستوں کے ہاں محفل سجانے میں گزرا،سائمن پیشہ کے اعتبار سے ایک موچی تھا لیکن وہ لکھنا پڑھنا جانتا تھا اسی لئے سقراط اس کے پاس گھنٹوں بیٹھ کر اپنے خیالات کا پرچار نوجوان نسل کے سامنے کرتا اور سائمن اسے لکھ لیا کرتا تھا۔آج فلسفہ سقراط کے ہم تک پہنچنے میں سائمن کا بہت بڑا کردار ہے۔جب بھی سقراط سائمن کے پاس جا کر بیٹھتا لوگوں کا جم غفیر جمع ہوکر اسے دادوتحسین سے نوازتا،آپ کہہ سکتے ہیں کہ سائمن کی بساط دراصل سقراط کی پہلی عوامی دانش گاہ تھی،جہاں یونانی اپنی علمی تشنگی کم کرنے آتے۔دوسرا کردار ماؤس کا ہے جو پیشہ کے لحاظ سے ایک کوزہ گر تھا،وہاں بھی سقراط وہی کام کرتا جو سائمن کے ہاں بیٹھ کر کیا کرتا تھا ۔گویا ماؤس کی دوکان سقراط کی دوسری دانش گاہ تھی۔
عصرِ حاضر میں متذکرہ تمام عوامی دانش گاہیں ایک ایک کرکے معدوم ہو چلی ہیں کیونکہ اب انسان کو جدید ٹیکنالوجی نے اس قدر مصروف کردیا ہے کہ ان کے پاس ایک دوسرے کے پاس بیٹھنے کے لئے وقت ہی نہیں۔جب وقت تھا تو رشتے بھی تھے اب انسانوں کے پاس نہ وقت ہے اور نہ رشتے۔اب سمجھ آتی ہے کہ حکایات وداستان گوئی محض ایک تفریح ہی نہیں تھی بلکہ ایک عوامی دانش گاہ اور یونیورسٹی تھی جس میں بچے حیا،اخلاق،ادب واحترام اور رشتوں کے تقدس کوپہچاننا سیکھتے تھے۔اب ،سب اساطیر ماضی کا ایک حصہ ہیں جسے جدید ٹیکنالوجی کبھی لوٹ کر آنے نہیں دے گی۔اگر آپ چاہتے ہیں کہ اس کا عشر عشیر بھی آپ کو مل جائے تو کم از کم اپنی موبائل کی دنیا سے نکل کر کچھ دیر والدین اور خاندان کے لوگوں میں بیٹھا کرو بہت کچھ سیکھنے کو ملے گا،کچھ اور نہیں تو رشتوں کے احساس کی حدت ضرور محسوس کرو گے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
مراد علی شاہد کے کالمز
-
برف کا کفن
بدھ 12 جنوری 2022
-
اوورسیز کی اوقات ایک موبائل فون بھی نہیں ؟
منگل 7 دسمبر 2021
-
لیڈر اور سیاستدان
جمعہ 26 نومبر 2021
-
ای و ایم اب کیوں حرام ہے؟
ہفتہ 20 نومبر 2021
-
ٹھپہ یا بٹن
جمعہ 19 نومبر 2021
-
زمانہ بدل رہا ہے مگر۔۔
منگل 9 نومبر 2021
-
لائن اورکھڈے لائن
جمعہ 5 نومبر 2021
-
شاہین شہ پر ہو گئے ہیں
جمعہ 29 اکتوبر 2021
مراد علی شاہد کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.