آپ ہی اپنی اداؤں پہ ذرا غور کریں

جمعہ 24 جولائی 2020

Murad Ali Shahid

مراد علی شاہد

فی زمانہ من حیث القوم ہمارا وطیرہ بن گیا ہے کہ ہم اپنی غلطیوں کے وکیل اور دوسروں کی کوتاہیوں کے جج بن جاتے ہیں۔ہمیں اپنی آنکھ کا شہتیر بھی نظر نہیں آتا جبکہ دوسروں کی آنکھ کا بال بھی ہمیں شہتیر دکھائی دیتا ہے۔گذشتہ سال جب میں تعطیلاتِ گرما میں پاکستان گیا تو سوچا کہ چلو اپنے سابقہ ہم عصروں سے بھی ملاقات کر لی جائے ،ملاقات کے لئے فون کیا تو انہوں نے کہا کہ ہم سب اس وقت فلاں جنگل میں ہیں لہذا آپ بھی وہیں تشریف لے آئیں۔

حسب ِ وعدہ وہاں پہنچا ،سلام دعا کے بعد وہی روائتی گپ شپ اور پھر گھوم پھر کر محکمانہ باتیں کہ فلاں آفیسر نے یہ کردیا فلاں نے یہ۔محکموں کی کرپشن سے بات حکومت وقت تک پہنچی تو ظاہر ہے کسی بھی جگہ ایک ہی پارٹی سے تعلق رکھنے والے لوگ کم ہی ہوتے ہیں ۔

(جاری ہے)

ہر محفل میں مختلف الخیال لوگوں کی طرح وہاں بھی ہر پارٹی کے لوگ تھے۔میرے ایک دوست نے بولتے ہی ہی کہا کہ یار میں تو اس ایک سال میں ہی حالیہ حکومت ست تنگ آگیا ہوں۔

کوئی کام ڈھنگ سے نہیں ہو رہا ہے۔خاص کر کرپشن پر تو کوئی کنٹرول نہیں ہو پا رہا۔بس ایک ہی خاندان کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں جو کسی طور جائز نہیں ہے۔ابھی اس کی بات مکمل نہیں ہو پائی تھی کہ میرے منہ سے نکل گیا کہ سنا ہے عمران خان کی حکومت نے ایک ارب پودے لگانے کا پروگرام بنایا ہے،تو وہی صاحب جو محض کچھ دیر قبل حکومت کی کرپشن کو کنٹرول نہ کرنے کا واویلا مچا رہے تھے اچانک سے بول اٹھے کہ ہاں یار ہم نے تو پورا پلان بھی بنا لیا ہے مجھے امید ہے کہ اس سال کچھ نہیں تو اس پراجیکٹ سے دس لاکھ تو بچا ہی لیں گے۔

یہ سنتے ہی میرے تو حواس اڑ گئے اوراس شعر کے ساتھ رخصت چاہی کہ
اپنے اپنے دائرے میں دیکھ لو
حسب ِ طاقت ہر کوئی فرعون ہے
ہمارا مسئلہ کیا ہے ؟ہم نے کبھی سوچا ہی نہیں ۔ہماری سوچ بس پیسہ کمانا اور اس سے دنیا وی عارضی خوشیاں خریدنا ہے۔اس کے سوا کچھ نہیں۔میں مانتا ہوں کہ پیسہ سب کچھ ہے لیکن پیسہ ہی سب کچھ نہیں ہے۔

ہمیں پیسہ کمانے سے کہیں منع نہیں فرمایا گیا اگر ایسا ہوتا تو کبھی حضرت عثمان  غنی نہ کہلواتے۔وہ غنی اس لئے کہلائے کہ ان کے پاس پیسہ تھا لیکن اس پیسہ کی ہوس اور لالچ نہیں تھی۔ان کے پاس پیسہ تھا تو بیئرہ روما اس وقت انہوں نے چالیس ہزار درہممیں خرید کر کے مسلمانوں کے لئے وقف کیا۔ابھی آنے والا ہمارا تہوار عید البقر کو ہی لے لیں۔مسلمانوں میں عید سے قبل ایک مقابلہ کا رجحان ہوتا ہے کہ عید کے لئے کتنے بکرے خریدیں جائیں۔

کتنے مہنگے ہوں اور خاص کر وہ بکرا خریدنا ہیں جو کسی اور رشتہ دار کے پاس نہ ہو۔اور پھر عید سے پہلے اپنے غریب رشتہ داروں کے ہاں تو ضرور بکرے کا چکر لگوایا جائے گا کہ میں نے سوچا کہ چلو خالہ کو بھی دکھا آتا ہوں کیونکہ آپ میں تو ہمت نہیں ایسا بکرے خریدنے کی۔اور جاتے جاتے دعوت بھی ایسے دے کر جائیں گے کہ ہاں خالہ کل وقت پہ ہی آجانا وگرنہ اوجڑی کام کرنے والی ماسی لے جائے گی،یعنی ان کی عزت نفس مجروح کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑنی۔

حالانکہ قربانی کا فلسفہ تو وہ گفتگو ہے جو باپ اور بیٹا میں ہوئی،کہ کیسے ایک باپ اپنے بیٹے سے اپنے خواب کاتذکرہ کرتے ہوئے مشفقانہ اندازمیں اس کی طرف دیکھتا ہے کہ اب بیٹا کیا جواب دیتا ہے۔انہوں نے تو جو جواب دیا سو دیا لیکن جو اسماعیل  کے جواب کا نقشہ حضرت علامہ اقبال نے کھینچ دیا وہ کسی اور شاعر ،فلاسفر یا دانشور نہیں پیش کر سکتا تھا کہ
یہ فیضانِ نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیل کو آدابِ فرزندی
العلم حجاب اکبر است،علم کا خزانہ جیسے جیسے ہمارے پاس آتا گیا،گنجینہ عمل سے ہمارا دامن خالی ہوتا چلا گیا۔

بڑوں کے ادب واحترام کو ہم ایسے بھول گئے جیسے یہ کبھی ہماری روائت رہی ہی نہیں۔مہمان آتا تو میزبان جانے نہیں دیتے تھے۔رشتہ داریاں آپس میں اس لئے کی جاتیں کہ اپنا مارے گا تے چھاویں ہی سٹے کا(اپنے مارے گا تو چھاؤں میں ہی پھینکے گا)،ناشتہ خاندان کے سب افراد مل کر چولھے کے گرداگرد بیٹھ کر کئے کرتے تھے۔ایک گاؤں کا جمائی پورے گاؤں کا جمائی راجہ ہوا کرتا تھا۔

کسی کسی گھر میں ٹی وی ہوا کرتا تھا اور پورا محلہ اسی گھر میں جا کر ڈرامہ یا فلم دیکھا کرتے تھے۔علم اور پختہ گھروں نے ہم سے ہمارا بچپن،پیار،رشتے اور احساس سب چھین لیا اور ہمارے ہاتھ میں ایک ایسی مشین پکڑا دی جس کے بارے میں میرا اپنا کہنا ہے کہ آج کے بچوں کے پاس اگر چوائس ہو کہ موبائل چھوڑ دو یا پاپا تو وہ بلا سوچے سمجھے پاپا کو چھوڑ دے گا۔

اب تو مہمان آتے ہی کم ہیں اور اگر آجائیں تو گھر والے پوچھنا شروع کر دیتے ہیں کہ جانا کب ہے۔بچے اپنے اپنے کمروں میں مہمان دیکھ کر یوں چھپ جاتے ہیں جیسے ماموں نہیں کوئی ممی دیکھ لی ہو۔چولہے کا تو تصور ہی نئی نسل میں ناپید ہو کر رہ گیا ہے۔انہیں تو ڈائننگ ٹیبل ،پیزا،برگر اور شوارما کا ہی پتہ ہے۔جب ایک ساتھ بچے اور بڑے بیٹھیں گے نہیں تو انسیت،پیار ،محبت کہاں سے پیدا ہوگا۔

والدین اپنے ہی بچوں کو رشتے داروں سے بچاتے بچاتے اپنے آپ سے بھی دور کر لیتے ہیں۔
اس ساری خرابی کا ذمہ دار کوئی ادارہ،معاشرہ یا میڈیا نہیں،سب سے پہلے ہم خود والدین ہیں جو اپنے ہی بچوں کو اپنوں سے ہی ملنے نہیں دیتے۔جب بچہ اپنے تایا،چچا،ماما مامی اور کزنز سے میل ملاپ نہیں بڑھائے گا تو وہ رشتوں کی قدر کیسے سیکھے گا اور رشتوں کو کلاسیفائیڈ کرتے ہوئے ہم یہ بات بھول جاتے ہیں کہ سب سے پہلے تو بچہ سے رشتہ ہمارا اپنا ہی ہوتا ہے۔

دھیرے دھیرے بچہ اس قدر شقی القلب ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے ہی ماں باپ کو اسی نظر سے دیکھنا شروع کردیتا ہے جس نظر سے دیکھنے کے لئے ماں باپ دیگر رشتہ داروں کے لئے تلقین کر رہے ہوتے ہیں۔گویا رشتوں نے ہی رشتوں سے دور کردیا ہے۔لہذا ہمیں کسی کو دوش دینے سے پہلے اپنی اداؤں پہ بھی غور کرنا ہوگا کہ ہم کیا کر رہے ہیں۔جب تک ہم میں خود احتسابی کا عمل پیدا نہیں ہوگا اس وقت تک ہم اپنی غلطیوں کے وکیل اور دوسروں کی کمی کوتاہیوں کے جج ہی رہیں گے۔اس لئے
آپ ہی اپنی اداؤں پہ ذرا غور کریں
ہم عرض کریں گے تو شکایت ہوگی

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :