
ڈنڈا پیر
پیر 18 جنوری 2021

مراد علی شاہد
(جاری ہے)
اس نے سارا ماجرا فقیر کو سنادیا۔فقیر تھوڑی دیر کے لئے خاموش ہوا اور پھر اس نے اپنے ہاتھ والا ڈنڈا شہری کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہا کہ
”جاؤ بیٹا اب تمہیں گلی کے پالتو اور آوارہ کتے کچھ نہیں کہیں گے“
اس کہانی لکھنے کے پیچھے کا مقصد کیا ہے امید ہے کہ اہل فکرودانش اور پاکستانی سیاست کو سمجھنے والے ضرور سمجھ چکے ہوں گے کہ پاکستانی نظام کو چلانے کے لئے کس چیز کی ضرورت ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمیں ڈنڈے کی ضرورت کیوں ہے؟کیا ہم باشعور قوم نہیں،ہم اپنا بھلا اور برا خود نہیں سوچ سکتے،ہم اچھے اور برے میں از خود تمیز نہیں کر سکتے کیا؟۔میرا خیال ہے کہ نہیں،اگر ہم عوام میں یہ استطاعت ہوتی تو پھر اور بھلا کیا چاہئے تھا۔ہم تو غلام ہیں اپنی خواہشات اور مجبوریوں کے۔ہم تو مقید ہیں روٹی ،کپڑا اور مکان کے دائرے میں،ہمارے پاؤں میں تو بیڑیاں ہیں اپنی اغراض کی۔تو پھر ہمیں کیا،کہ کسی کے ہاتھ میں ڈنڈا ہے کہ بغل میں چھری۔ہمارا کام تو کوزہ گر کے حمار کی طرح بس سر جھکائے ،گلے میں باندھی گھنٹی کی صدا کی فریکوئنسی کے ساتھ قدم اٹھاتے جانا ہے بنا سوچے اور دیکھے کہ کیا مالک بھی ساتھ ہے کہ نہیں۔ہم عوام کو ہمارے سیاستدانوں نے اس قابل ہی نہیں چھوڑا کہ ہم کوئی سوال اٹھا سکیں بلکہ ہمارے اذہان میں تو اب سوال پیا ہی نہیں ہوتے۔سٹیفن کنگ نے ٹھیک ہی کہا تھا کہ جن ذہنوں میں سوال پیدا ہی نہیں ہوتے وہ ذہنی غلام ہوتے ہیں۔اور اگر کسی کے ذہن میں سوال پیدا ہو بھی جائے تو انہیں دال روٹی کے چکر میں ایسے پھنساتے ہیں کہ اس چکر سے نکلتے نکلتے انہیں عرصہ لگ جاتا ہے۔
آج کی سیاسی صورت حال میں بھی کچھ ایسا ہی ہے کہ لوگوں کو بس ایک کال دے دی جاتی ہے کہ پی ڈی ایم کا جلسہ فلاں شہر میں ہے۔لہذا نکلو اپنی زندگیاں بچانے کے لئے۔نکلو کہ مہنگائی بہت ہے،نکلو کہ لوگ بھوکوں مر رہے ہیں،نکلو کہ وزیر اعظم ملک کھا گیا وغیرہ وغیرہ۔بالکل ملک میں مہنگائی ہے،ملک بیرونی قرضوں تلے دبا ہوا ہے،سابقہ قرضوں کی ادائیگی کے لئے نئے قرضے لئے جا رہے ہیں۔حقیقت میں دادا نے لئے اور اب پوتا اتار رہا ہے۔بالفرض عوام کا ٹھاٹھے مارتا ہوا سمندر اسلام آباد جا کر پارلیمنٹ کا گھیراؤ کر لیتا ہے۔وزیر اعظم کو استعفیٰ دینے پر مجبور کردیا جاتا ہے،چلئے وہ مستعفی ہو بھی جاتے ہیں تو کیا ملکی سیاسی و معاشی صورت حال ٹھیک ہو جائے گی۔
اگر نہیں تو پھر اس کا حل کیا ہے؟ہم نے کبھی سوچا؟نہیں ،ایسا کبھی بھی کسی بھی دور حکومت میں نہیں ہوا۔اور نہ ہی اسمبلی یا پارلیمنٹ کے گھیراؤ سے وزیر اعظم مستعفی ہوا ہے۔اس لئے ہمارے سیاستدانوں کو وہ کسی بھی جماعت سے تعلق رکھتے ہوں،انہیں مل کر ایسا کلچر پروموٹ دینا چاہئے کہ حکومت کسی بھی جماعت کی ہو ملکی معاملات خواہ وہ سیاسی ہوں کہ معاشی باہمی تعاون سے سرانجام دئے جائیں۔کیوں کہ ملک تو ہر پارٹی کا ہے اور اگر ملک ہر پارٹی کا ہے تو پھر حزب مخالفت میں سب جماعتوں کو ایک وزیراعظم کو گرانے کی بجائے اسے ملکی بقا کی خاطر سپورٹ کی ضرورت پر زور دیا جائے تو ملکی معاملات بہتری کی جانب چلائے جا سکتے ہیں۔لیکن یہاں کا تو باوا آدم ہی نرالا ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ میرا کتا ہی ٹومی ہے باقی سب آوارہ ہیں۔جب ایسے خیالات پرورش پائیں گے تو پھر ڈنڈے والا بابا ہی آئے گا ،جو انہیں سیاستدانوں کو ساتھ ملا کر پھر سے ملکی معاملات کو سدھارنے کی کوشش میں لگ جائے گا۔میری ان سیاستدانوں سے عرض ہے کہ ایسا ماحول پیدا نہ کریں کہ ڈنڈے والی سرکار پھر سے ملک میں حکومت سنبھال لے بلکہ باہمی معاونت سے ملکی سیاسی فضا کو ملکی ترقی کی طرف گامزن کریں۔ایسی فضا جس میں پاکستانی عوام کی زندگی اجیرن نہیں بلکہ خوش حال ہو۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
مراد علی شاہد کے کالمز
-
برف کا کفن
بدھ 12 جنوری 2022
-
اوورسیز کی اوقات ایک موبائل فون بھی نہیں ؟
منگل 7 دسمبر 2021
-
لیڈر اور سیاستدان
جمعہ 26 نومبر 2021
-
ای و ایم اب کیوں حرام ہے؟
ہفتہ 20 نومبر 2021
-
ٹھپہ یا بٹن
جمعہ 19 نومبر 2021
-
زمانہ بدل رہا ہے مگر۔۔
منگل 9 نومبر 2021
-
لائن اورکھڈے لائن
جمعہ 5 نومبر 2021
-
شاہین شہ پر ہو گئے ہیں
جمعہ 29 اکتوبر 2021
مراد علی شاہد کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.