نکاح اور نام نہاد فکر

منگل 8 جون 2021

Murad Ali Shahid

مراد علی شاہد

عصرِ حاضر میں چند نام نہاد لبرل سوچ کے متحمل افراد کا کہنا یہ ہے کہ نکاح کیوں ضروری ہے؟نکاح کے بنا بھی اچھے تعلقات قائم کر کے زندگی گزاری جا سکتی ہے؟اگر دو افراد کی سوچ آپس میں ملتی ہو تو وہ ایک چھت تلے اچھے تعلقات کی بنا پر کیوں نہیں رہ سکتے۔گویا یہ نکاح کی اہمیت وضرورت کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔اس سے قبل کہ میں نکاح کی اسلام میں اہمیت،ضرورت اور معاشرتی تحفظ کے بارے میں کچھ لکھوں مجھے اپنے مرحوم دوست جو کہ کرونا جیسے موذی مرض کا شکار ہو کر خفتگانِ کنج تنہائی ہو چکے ہیں ،ان کا مشہور زمانہ شعر یاد آگیا جنہیں بہت سے مشاعروں میں انتہائی پذیرائی سے نوازا گیا۔


بات ہوتی ہے دو دلوں کے بیچ
اور دو خاندان بولتے ہیں
یہ ایک مسلمہ حقیقت بھی ہے کہ ہم جس معاشرہ میں مسکن پذیر ہیں ان ککی روایات اور اقدار بھی یہی ہیں کہ شادی دو افراد کے درمیان ایک تعلق کا نام نہیں بلکہ دو خاندانوں کے بیچ تعلقات کی ایسی اساس ہے جسے کبھی کبھار نہ چاہتے ہوئے بھی توڑا نہیں جا سکتا۔

(جاری ہے)

گویا دو افراد کے درمیان نکاح ،دو خاندانوں کی یکجائی کا نام ہے۔

اب آتے ہیں نکاح کی ہمارے آفاقی ،عالمگیر اور لا فانی مذہب اسلام میں اہمیت کی طرف۔کہ اسلام اس سلسلہ میں کیا فرماتا ہے اور نکاح کے بارے میں آقا ﷺ کے ارشادات مقدسہ کیا ہیں؟یہ بھی یاد رکھئے گا کہ اسلام نے نکاح کا تصور پیش کر کے جس طرح سے نظریہ توازن کی بنیاد رکھی ہے اس سے قبل ایسی کوئی مثال نہیں ملتی ہے۔کیونکہ اکثر آج کے نام نہاد سیکولر خیالات کے متحمل دانشور نکاح کومحض انسانی خواہشات کی تکمیل اور فطری جذبات کی تسکین اور ضرورت سمجھتے ہیں۔

اسی لئے ایسے سوچ کے مالک افراد کا کہنا ہے کہ اگر نکاح کے بغیر بھی تعلقات قائم کر کے ایک ساتھ رہ لیا جائے تو کوئی حرج نہیں ہے۔اسلام میں بھی اسے انسانی خواہشات کی تکمیل اور فطری ضرورت سمجھا گیا ہے لیکن اس خواہش کی تکمیل اور فطری ضرورت کی تسکین کو جائز اور مہذب طریقے سے پورا کرنے کے لئے نکاح کو لازم قرار دیا ہے تاکہ انسانی بقا کا تحفظ جائز اور احسن طریقے سے کیا جا سکے۔

اسلام میں نکاح کو احساسِ بندگی اور شعور زندگی کے لئے عبادت سے تعبیر کیا گیا ہے۔اسی لئے پیارے آقا ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ
”النکاح من سنتی“یعنی نکاح میری سنت ہے
ایک اور جگہ پر آنحضور ﷺ نے نکاح کو آدھا ایمان بھی قرار دیا ہے۔
یعنی نکاح سے نصف ایمان کی تکمیل ہو گئی تو پھر بقیہ آدھا کیا کرنا ہوگا تو بقیہ نصف میں ہمیں چاہئے کہ اللہ سے ڈرتے رہا کریں کیونکہ تقوی کا تقاضا یہی ہے کہ اللہ سے ہمہ وقت خوف محسوس ہوتا رہے ۔

مراد اس سے یہ ہے کہ جب بھی انسان کسی گناہ کے ارتکاب کا ارادہ کرے تو دل میں یہ ڈر اور خوف محسوس کرے کہ اللہ ہر جگہ موجود ہے اور وہ اس کے اعمال کریہہ سے واقف ہے۔ایک حدیث میں نکاح کے بارے میں ارشاد ہے کہ
”اے جوانوں کی جماعت !تم میں سے جو شخص خانہ داری (نان و نفقہ) کا بار اٹھانے کی قدرت رکھتا ہواس کو نکاح کر لینا چاہئے کیونکہ نکاح کو نگاہ کے پست ہونے اور شرمگاہ کے محفوظ رہنے میں خاص دخل ہے“
نکاح کی اسلام میں اہمیت موضوع کو نوک قلم کرنے لے لئے ایک طویل نششت درکار ہے۔

وقت کی تنگی دامان کا خیال رکھتے ہوئے میں نے چند احادیث کا حوالہ ہی دیا ہے۔اس کی وجہ آج کل اخبارات میں ملالہ یو سف زئی کا ایک بیان ہے جس میں انہوں نے برطانوی فیشن میگزین کو ووگ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایک ساتھ رہنے کے لئے ضروری ہے کیا کہ نکاح ہی کیا جائے۔نکاح کے بنا بھی ایک ساتھ دوست بن کر رہا جا سکتا ہے۔اگرچہ ان کے والد گرامی نے اس بیان کی تردید بھی کی ہے کہ ملالہ نے ایسا کوئی بیان نہیں دیا ہے بلکہ اس کے بیان کو تغیر و تبدل کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے۔

کیا ہی اچھا ہوتا کہ اگر ملالہ کا والد اس کے بیان کو من و عن ٹویٹ کردیتا کہ میری بیٹی نے یہ نہیں بلکہ یہ بیان دیا ہے جو کسی طور خلاف اسلام اور مانع سماجی اعمال نہیں ہے۔لیکن وہ ایسا نہیں کر سکتا کیونکہ ملالہ کا انٹرویو ساری قوم بلکہ پوری دنیا نے سنا ہے۔
بات ملالہ کے بیان کی نہیں ہے کیونکہ ایسے بیانات اسلام کی روح کو داغ دار کرنے کے لئے پہلی بار نہیں دئے جا رہے اس سے قبل بھی ایسے ہی کئی نام نہاد آئے اور دنیا جہاں سے پیوند خاک ہو چکے۔

لیکن اسلام کی حرمت کو کوئی گزند نہ پہنچا سکا۔لیکن ایک بات کا نتھارا تو ہو گیا کہ جن لوگوں نے اس کی پرورش کی تھی اب اس سے کام لینے کا وقت آگیا ہے۔ایک طبقہ فکر کا خیال یہ بھی ہے کہ نکاح کرنا یا نا کرنا اس کا ذاتی مسئلہ ہے۔بالکل بجا ہے لیکن دیکھا یہ جائے گا کہ اس کے فالور کی تعداد کتنی ہے،اس کی وجہ سے ہماری نوجوان نسل پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں،کیا آنے والے دنوں میں کچھ تنظیمیں اسے حقوق نسواں سے نتھی نہیں کر دیں گے کیا؟
یہ وہ سارے تحفظات ہیں جن کی بنا پر بہت سے لوگ ملالہ کے اس بیان کی مخالفت،غیر اسلامی و غیر شرعی اور معاشرتی فساد وبگاڑ کا باعث قرار دے رہے ہیں۔

ہم تمام پاکستانیوں کو اس کے بیان کو محض ایک بیان کے زمرے میں نہیں بلکہ مستقبل میں اس کے آئندہ نسل پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں اس پہلو پر سوچتے ہوئے،بیان پر سنجیدگی سے غور کرنا پڑے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :