ہود بھائی کے نام

منگل 21 ستمبر 2021

Murad Ali Shahid

مراد علی شاہد

پروفیسرہود بھائی ایک ریٹایرڈ پروفیسراور سماجی کارکن ہیں جنہیں اکثر سوشل میڈیا اور ٹی وی ٹاک شوز میں لبرل طبقہ کی ترجمانی کے لئے بلا لیا جاتا ہے۔میڈیا کی تاریخ شاہد ہے کہ جب بھی انہیں کسی پروگرام میں بلایا گیا ہے کوئی نہ کوئی تنازع ضرور اٹھا ہے۔کچھ روز قبل بھی انہیں ایک پروگرام میں یکساں نصاب تعلیم پر بحث کے لئے غریدہ فاروقی کے ایک پروگرام میں بلایا گیا تو ان کے دو ایسے متنازع بیانات سوشل میڈیا پر وائرل ہوئے کہ شائد پاکستان کی تنزلی کا باعث یہی ہیں۔

پہلا بیان جس نے بلاشبہ اسلام سے عقیدت رکھنے والے ہر اس شخص کی غیرت ایمانی کو چیلنج تھا کہ اب تعلیمی اداروں میں قرآن،احادیث اور اسلامی اقدار پڑھایا جائے گا جو بچے کو کند ذہن بنا دیں گے اور دوسرا یہ کہ ،میں 1973 سے پڑھا رہا ہوں اس وقت آپ کو بمشکل ایک لڑکی برقعے میں دکھائی دیتی تھی،اب تو حجاب،برقعہ عام ہو گیا ہے ۔

(جاری ہے)

آپ کو نارمل لڑکی تو شاذو نادر ہی نظر آتیہے۔

جب وہ کلاس میں بیٹھتی ہیں برقعے میں حجاب میں لپٹی ہوئیں تو ان کی کلاس میں شمولیت بہت گھٹ جاتی ہے یہاں تک کہ ان کا پتہ بھی نہیں چلتا کہ وہ کلاس میں ہیں کہ نہیں۔
ہود بھا ئی کو کوئی بتائے کہ اب 2021 ہے جس زمانہ کی وہ بات کر رہے ہیں اس زمانے کی تو گاڑیاں بھی اب بند ہو چکی ہیں۔زمانہ بدل گیا ہے۔جس رفتار سے زمانہ ترقی کر رہا ہے خاص کر آئی ٹی کے میدان میں مجھے تو محسوس ہوتا ہے کہ اب جنریشن گیپ بھی سال دو سال کا رہ گیاہے۔

اورحجاب اور برقعہ بھی ایک فیشن بنتا جا رہا ہے۔خیر یہ ایک الگ موضوع ہے۔میں عرصہ بیس سال سے قطر کے ایک تعلیمی ادارے میں تدریسی فرائض سر انجام دے رہا ہوں۔حجاب و برقعہ یہاں کے کلچر میں ہے۔اور میری کلاس میں کتنی ہی ایسی سٹوڈنٹس ہر کلاس میں ایسی ہوتی ہیں جو حجاب بھی پہنتی ہیں اور برقعہ بھی۔لیکن میں نے کبھی محسوس نہیں کیا کہ حجاب ان کی تعلیمی ترقی میں کہیں بھی حائل یا رکاوٹ ہے۔

اسی حجاب و برقعہ میں لپٹی میری بہت سے طالبات آج ڈاکٹر،انجینئر،نرسز،معلمہ اور ڈینٹسٹ بن کر اپنے اپنے اداروں میں فرائض منصبی ادا کر رہی ہیں۔بلکہ مجھے یہ لکھتے ہوئے فخر محسوس ہو رہا ہے کہ میری ایک طالبہ جو حجاب کرتی تھی اس نے فیڈرل بورڈ گلف میں پوزیشن بھی لے رکھی ہے۔یہ سب میری ذات سے جڑی ہوئی مثالیں ہیں۔
اگر ہم تعلیمی اداروں سے ہٹ کر مختلف شعبہ ہائے زندگی کا مطالعہ کریں تو ہم دیکھتے ہیں( بلکہ آپ کو بھی دعوت ہے آپ بھی تحقیق کریں )کہ ایسی کتنی خواتین ہیں جو حجاب کرتی ہیں لیکن ان کی اپنے اداروں میں کارکردگی بے مثال ہے۔

جیسے کہ مس لغاری جو کہ پہلی خاتون پائلٹ ہیں،برقعہ پہنتی ہے،حافظہ عائشہ جس نے میڈیکل کے میدان میں فیصل آباد میں ایک میڈیکل ادارے سے انیس گولڈ میڈل لے رکھے ہیں۔یہاں قطر میں مریم فرید بین الاقوامی ایتھلیٹ ہیں جو حجاب کرتی ہے،بحرین سے بھی ایک خاتون ایتھلیٹ جنہیں مجھے خود ملنے کا موقع بھی دستیاب ہوا،مکمل حجاب میں ہوتی ہیں اور اس نے کئی گولڈ میڈل جیت رکھے ہیں۔

ترکی کی ایک مشہور خاتون ایتھلیٹ MERVE AYDIN حجاب کے ساتھ کئی میڈلز جیت رکھے ہیں۔الغرض سپورٹس کا وہ کون سا شعبہ ہے جس میں خواتین کو حجاب کے ساتھ رکاوٹ کا سامنا کرنا پڑا ہو۔وہ فٹ بال ہو،کرکٹ ہو،سرفنگ،فینسنگ،والی بال،ایتھلیٹکس یا ویٹ لفٹنگ ہو۔بلکہ شائد یہ ہود بھائی کے علم میں بھی نہ ہو کہ باسکٹ بال کی بین الاقوامی تنظیم FIBA کو حجاب کردہ خواتین کے احتجاج کے سامنے اپنا یہ فیصلہ لینا پڑا کہ خواتین حجاب کے ساتھ کھیل میں حصہ نہیں لے سکتیں۔

اور یہ بھی شائد انہیں علم نہ ہو کہ دنیائے سپورٹس میں کھیلوں کا سامان مہیا کرنے والی معروف کمپنی NIKE کو حجاب کی بڑھتی طلب کے لئے اپنے برانڈ کے ساتھ باقاعدہ حجاب متعارف کروانا پڑا۔اور اب وہ کمپنی اس حجاب سے کروڑوں کما رہی ہے۔
ابھی حال ہی کی بات ہے کہ افغان طالبان کے حکومت میں آتے ہی ایک انگریز رپورٹر کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی جس میں وہ حجاب و برقعہ پہنے اپنے چینل کے لئے رپورٹنگ کر رہی ہے۔

اور افغان طالبان انہیں ہاتھ ہلاتے ہوئے خوش آمدید کہہ رہے ہیں۔لہذا ہود بھائی اپنی سوچ کو بدلیں کیونکہ زمانہ اب بدل چکا ہے۔حجاب،برقعہ نہیں ہمیں ایسی سوچ کو بدلنا ہے۔جو حجاب سے بھی زیادہ خطرناک طریقے سے ایسی خواتین کے راستے میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں جو کچھ کرنا چاہتی ہیں۔جب حجاب اوڑھنے والوں کو کائی مسئلہ نہیں تو پھر ایسے نام نہاد دانشوروں کو کیا تکلیف ہے،وہ پنجابی کا اکھان ہے کہ توں کون میں کوامخواہ۔


ویسے بھی نیشنل ٹی وی پر بیٹھ کر اس طرح سے صنفی ومذہبی تعصب کو ہو انہیں دینی چائیے،آپ اپنے مذہبی عقائدکو اپنے پاس رکھیں اور ایسیبے سروپا گفتگو سے پرہیز ہی کریں تو بہتر ہے کیونکہ ایسے بیانات سے ماسوا ملکی امن برباد کرنے کے فائدہ مند تو ہوتے نہیں۔ویسے بھی ایک طرف آپ یہ کہتے ہیں کہ ہر کوئی اپنے عقائد میں آزاد ہے ریاست کا عمل دخل نہیں ہونا چاہئے،تو پھر کوئی خاتون اگر پردہ کرنا چاہتی ہے تو آپ کون ہوتے ہیں انہیں اس کے عقائد سے منع کرنے والے یا تنقید کرنے والے۔وہ بھی اس دور میں جب با حجاب خواتین اپنی تعلیم ،تحقیق اور تسوید کے ذریعے سے دنیا کے ہر شعبے میں اپنی قابلیت کا لوہا منوا رہی ہیں۔لہذا خواتین کے حجاب کو نہیں اپنی سوچ کو بدلنے کی ضرورت ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :