
کیاا دب نوبیل انعام کے مستحق باادب ہیں؟
منگل 12 اکتوبر 2021

مراد علی شاہد
(جاری ہے)
اس سال ادب کا نوبیل انعام پہلی مرتبہ تنزانیہ کے مشہور ادیب عبدالرزاق قورنہ کو دیا جا رہا ہے۔جنہیں انعام کے طور پرگیارہ لاکھ امریکی ڈالر دئے جائیں گے۔اگر آپ نوبیل انعام کی فہرست کو جائزہ لیں گے تو آپ دیکھیں گے کہ ادب کے میدان میں زیادہ تر انعام کے حقدار یورپی ادیبوں کو ہی ٹھہرایا جاتا رہا ہے۔تقریبا 90 سے زائد تعداد یورپی ادبا کی بنتی ہے جنہیں اس انعام سے نوازا گیا ہے جبکہ موجودہ انعام 119 واں پرائز ہے۔اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ نوبیل انعام کی کمیٹی کو شائد یورپ سے باہر زیادہ ادب کی خدمت کرنے والے ادیب نظر آتے نہیں یا پھر دیگر علاقوں میں اس ادب کا فقدان ہے جو کمیٹی کی توقعات اور امیدوں کے مطابق نہیں ہوتا ہے۔عبدالرزاق قورنہ کو نو آبادیات کے تہذیبوں پر اثرات اور پناہ گزینوں کے ساتھ مختلف براعظموں میں پیش آنے والے مسائل اور مصائب کو آسان الفاظ میں بیان کرنے پر دیا گیا ہے۔اگرچہ عبدالرزاق قرنہ نے صرف دس ناول اور مختصر سٹوریز کی کتابیں ہی لکھیں ہیں تاہم ان میں سے دو کتابیں بہت مقبول ہوئیں۔ایک ان کا مشہور ناول ”پیراڈائیز“جو کہ 1994 میں شائع ہوا اور اس ناول نے عوام میں بے پناہ مقبولیت حاصل کی۔تاہم ”بائی سی سی“نے عبدالرزاق کو اس لئے مقبول عام کیا کہ اس ناول میں انہوں نے دنیا کی توجہ مہاجرین کے مصائب اور مسائل کی طرف مبذول کروائی۔کیونکہ وہ خود بھی 1960 کی دہائی میں تنزانیہ سے ہجرت کر کے بطور پناہ گزیں برطانیہ میں مقیم ہو گئے تھے۔اس لئے وہ خود بھی پناہ گزینوں کے مصائب کے عینی شاہد اور متاثرین میں سے ہیں۔یعنی
کبھی ہم نے اس بات پر غور کیا ہے کہ جب بھی ادب اور امن کا نوبیل انعام دیا جاتا ہے ان میں ایک تو یورپ کے صحافی،ماہرین اور سائنسدانوں کو ترجیح دی جاتی ہے،جبکہ دوسری بات یہ کہ آپ تحقیق کر لیجئے گا کہ ایسے افراد کو اس انعا م کا اہل قرار دیا جاتا ہے جنہوں نے مصائب،مسائل،جنگوں،پناہ گزینوں،بیماریوں وغیرہ کی بات کی ہوگی۔گویا مسائل کو اجاگر کرنے کی بات کی نہ مسائل کے حل کا حصہ بننے میں شمولیت اختیار کی ہو۔یہی وجہ ہے کہ بعض اوقات ایسے انعامات متنازعہ یا تنقیدکا باعث بن جاتے ہیں۔زیادہ تر تنقید بھی امن ادب اور معاشیات کے انعامات پر کی گئی ہے۔یہ بھی تاریخ کا ایک حصہ ہے۔اگر ہم غو ر کریں تو اندازہ ہو گا کہ یہ تینوں شعبیعوام کی نفسیات،ملکی ترقی و تنزلی اور قوموں کے عروج و زوال کا مظہر ہوتے ہیں۔کہیں ایسا تو نہیں کہ کہ انعامات کے متحملین کے لئے تعصب کا دامن پکڑ لیا جاتا ہو۔جیسے کہ ایک مشہور ہے کہ علامہ اقبال کو اس لئے انعام سے نہیں نوازا گیا کہ وہ قوم میں بیداری کا جذبہپیدا کر رہے تھے اور یورپ کے خلاف نظریات کے بھی وہ امین تھے۔اس لئے انہیں اس انعام سے محروم رکھا گیا۔خیر میرا خیال تویہ ہے کہ علامی جیسی شخصیت کسی انعام کی پرواہ کرنے والی نہیں تھی۔انہیں کسی انعام اور ایوارڈ کا کوئی لالچ نہیں تھا ان کی ذات ان سب باتوں سے مبرا تھیں۔
اسی لئے میں یہ سوچتا ہوں کہ ابھی تک جتنے بھی ایورڈز اس پلیٹ فارم سے ادب اور امن کے لئے دئے گئے ہیں کیا ان کی ذات اسم بامسمیٰ تھی کہ یا پھر اناں ونڈے شیرنی مُڑ مُڑ اپنیاں نوں۔کیا ادب کے نوبیل انعام کے حقدار خود با ادب تھے اور امن کے متحمل انعام یافتگان خود امن کے خواں تھے ؟۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
متعلقہ عنوان :
مراد علی شاہد کے کالمز
-
برف کا کفن
بدھ 12 جنوری 2022
-
اوورسیز کی اوقات ایک موبائل فون بھی نہیں ؟
منگل 7 دسمبر 2021
-
لیڈر اور سیاستدان
جمعہ 26 نومبر 2021
-
ای و ایم اب کیوں حرام ہے؟
ہفتہ 20 نومبر 2021
-
ٹھپہ یا بٹن
جمعہ 19 نومبر 2021
-
زمانہ بدل رہا ہے مگر۔۔
منگل 9 نومبر 2021
-
لائن اورکھڈے لائن
جمعہ 5 نومبر 2021
-
شاہین شہ پر ہو گئے ہیں
جمعہ 29 اکتوبر 2021
مراد علی شاہد کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.