رمضان اور ہم

ہفتہ 1 مئی 2021

Muzamil Imtiaz

مزمل امتیاز

مجھے مستنصر حسین تارڑ صاحب کی بات بہت اچھی لگی آپ کہتے ہیں کہ جو سوال انسان کے کرنے والے ہیں انسان کو وہی کرنے چاہیے مثلاً آپ کسی پریشانی یا تکلیف میں تو نہیں،  آپ بھوکے تو نہیں وغیرہ وغیرہ ، نا کہ جو انسان اور اس کے رب کا معاملہ ہے مثلاً نماز پڑھی،  روزہ رکھا وغیرہ وغیرہ ۔ جیسا کہ اب رمضان گزر رہا ہے تو ہر شخص دوسرے سے یہی سوال کر رہا ہے روزہ رکھا؟ کتنے روزے رکھے ؟ بھائی یہ انسان اور اس کے رب کا معاملہ ہے،  آپ کا اس بات سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے کہ کسی شخص نے کتنے روزے رکھے ، آپ کو اس بات سے غرض ہونی چاہیے کہ آپ کے آس پاس جو لوگ ہیں کیا ان کے پاس افطار اور سحر میں کھانے کیلئے کچھ ہے؟ اگر نہیں تو کیسے ان کی عزت نفس کو مجروح کیے بغیر آپ ان کی مدد کر سکتے ہیں۔

(جاری ہے)


رمضان میں ہمارا دوسروں سے سوال و جواب کے بعد دوسرا  پسندیدہ مشغلہ ہوتا ہے دوسروں کی عبادت کا حساب رکھنا کہ فلان آج نماز پڑھنے آیا اور پھر اس پر طنز کرنا کہ شروع کہ چار پانچ دن ہی آئے گا نماز پڑھنے بعد میں تو مسجد میں نہیں آئے گا پچھلے رمضان میں بھی ایسا ہی کیا تھا اس نے ۔ دراصل ہمارے لوگوں کو لگتا ہے کہ رمضان میں شیطان قید ہوا ہے تو شاید فرشتے بھی کندھوں سے اٹھا لیے گئے ہیں۔

اس لیے وہ خود کو فرشتہ سمجھتے ہوئے دوسروں کی عبادت اور نیکیوں کا حساب کتاب رکھنا شروع کر دیتے ہیں اور اس پر کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے
کیا فرشتے چلے گئیں ہیں کاندھوں سے
کہ اب لوگ، لوگوں کا حساب کرتے ہیں!
ہمارے کچھ نمازی یکم رمضان کو جب مسجد میں لوگ تراویح کیلئے آتے ہیں تو ان کو اس قدر گوڑھ کر دیکھتے ہیں کہ سامنے والا پریشان ہو جاتا ہے کہ شاید میں کوئی ایٹم بم ساتھ لے آیا ہوں اور ابھی خودکش حملہ کر دوں گا۔


یہ تو ہمارے کچھ لوگوں کے رمضان میں پسندیدہ مشغلے تھے اب بات کرتے ہیں رمضان کے سب سے اہم سبق کہ بارے میں کہ ہمیں ہر برے کام کی طرف شیطان راغب نہیں کرتا بلکہ کچھ کام ہم خود کرتے ہیں اور الزام شیطان پر لگاتے ہیں کہ اس نے ہمیں اس کام کو کرنے پر ورغلایا تھا ، رمضان میں ہمارے پاس یہ آپشن ختم ہو جاتا ہے اور پھر ہمیں احساس ہوتا ہے کہ:
ابلیس کو کوستا رہا میں تمام عمر
آج پتہ چلا نفس میرا ہی میرے قابو میں نہیں
رمضان میں ایک اور اہم کام جو ہم لوگ کرتے ہیں وہ ہے کہ سحری کے وقت ہاتھ میں گلاس پکڑے آذان کا انتظار کرنا کہ آذان ہو گی تو میں پانی پیوں گا ، مجھے یہ نہیں سمجھ آتی کہ اگر آپ پانچ منٹ پہلے پانی پی لیں گے تو کیا ہو جائے گا اور آذان کے آخری کلمات پر پانی پینے سے کیا افطار سے قبل آپ کو پیاس نہیں لگے گی۔

حالانکہ آذان طلوع صادق کے وقت ہوتی ہے اور سحری کا وقت طلوع صادق سے قبل ختم ہوتا ہے مگر ہمارے کچھ معصوم لوگ اس بات کا خیال نہیں رکھتے،  اور اسی طرح ہمارے یہی معصوم لوگ جنہوں نے سب سے آخری آذان کہ آخری کلمات پر پانی کا گلاس پی کر روزہ رکھا تھا، سارا دن فرقہ واریت پر بحث کرنے کے بعد افطار کے وقت سب سے پہلی آذان پر یا افطار کے اعلان پر سب سے پہلے روزہ افطار کرتے ہیں اور کہتے ہیں آذان تو آذان ہوتی ہے جس مسجد کی چاہے مرضی ہو۔


اس کالم کو پڑھنے والوں سے گزارش ہے کہ اب یہ نہ سمجھا جائے کہ میں دوسروں کو نیکی کی تلقین کرنے سے روک رہا ہوں ، دوسروں کو نیکی کی تلقین کریں بالضرور کریں مگر دوسروں کی نیکیوں کا حساب مت رکھیں۔ کالم کے دوسرے حصے میں کچھ لوگوں کا ذکر کیا گیا ہے، ان لوگوں سے مراد میں باذاتِ خود ہوں۔ لہذا اگر کہیں پر آپ کو غصہ آیا تھا تو یہ سوچ کر معاف کر دیجئے گا کہ وہ آپ کے بارے میں نہیں تھا بلکہ میرے بارے میں تھا ۔ اگر پھر بھی مجھ پر کوئی فتوی لگانے کو دل کرے یا پھر اس کالم کو دس واٹس ایپ گروپس میں بیجھ کر مجھ پر لعنت بیجھنے کو جی کرے تو آپ کر سکتے ہیں مجھے کوئی اعتراض نہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :