فیمنسم ، اسلام اور عورت مارچ

ہفتہ 20 مارچ 2021

Muzamil Imtiaz

مزمل امتیاز

فیمنسم فرانسیسی زبان کے لفظ " فیمنسمی " سے لیا گیا ہے جس کے معنی "عورت" ہے ۔ فیمنسم تحریک کا آغاز فرانس سے ہوا ، اس تحریک کے آغاز کی بنیادی وجوہات کا تذکرہ کیا جائے تو یہ تحریک اس لیے شروع ہوئی کہ فرانسیسی خواتین کو معاشرے اور اداروں میں شمولیت کی اجازت نہیں تھی، معاشرے کے کسی فیصلے میں ان کی رائے کو مدِنظر نہیں رکھا جاتا تھا۔

لہذا اس صورتحال کو بلنے کیلئے فرانسیسی خواتین نے " فیمنسم " تحریک کا آغاز کیا۔ اٹھارہویں صدی میں فرانسیسی خواتین معاشرے میں خواتین کے برابر حقوق کیلئے لڑی۔ اس کے بعد یہ تحریک فرانس سے امریکہ منتقل ہوئی جہاں امریکی خواتین اپنے حقِ خودارادیت(ووٹ) کیلئے آواز اٹھائی ۔ اسکے بعد 1960 سے 1970 کے درمیان وومن لیبریشن موومنٹ Women Liberation Movement)) کا آغاز ہوا، جس کا بنیادی مقصد عورتوں کے رہن سہن کے طریقے کو بدلنا، انہیں تعلیم کیلئے اجاگر کرنا اور نوکری کے مواقع فراہم کرنا تھا۔

(جاری ہے)

  1966 میں این او ڈیبلیو National Organization for Women)) کے نام سے خواتین کے حقوق کیلئے اداراہ قائم  کیا گیا۔ فیمنسم کو تین لہروں میں تقسیم کیا گیا ہے:
پہلی لہر:
 پہلی لہر کا آغاز انیسویں صدی میں ہوا جس میں خواتین نے اپنے سیاسی حقوق ( حق خودارادیت، آئین ساز اسمبلیوں میں شمولیت) کیلئے آواز اٹھائی۔
دوسری لہر:
 1960 سے 1970 کے درمیان اس دور کی خواتین نے معاشرے میں برابری کیلئے آواز اٹھائی تا کہ وہ اپنے اور معاشرے کے فیصلے کرنے کا حق حاصل کر سکے۔

اور معاشرے کے فیصلے کرتے وقت ان کی شمولیت کو یقینی بنایا جائے۔
تیسری لہر:
  1990 سے شروع ہونے والی تیسری لہر میں خواتین اپنے موجودہ مسائل کے حل کیلئے آواز اٹھا رہی ہیں
اسلام میں خواتین کے حقوق:
اسلام نے عورت کو ذلت اور غلامی کی زندگی سے آزاد کرایا اور ظلم و استحصال سے نجات دلائی۔

اسلام نے ان تمام قبیح رسوم کا قلع قمع کر دیا جو عورت کے انسانی وقار کے منافی تھیں اور اسے بے شمار حقوق عطا کئے جن میں سے چند درج ذیل ہیں :
تعلیم کا حق:
مغرب کی خواتین کو تعلیمی حق کیلئے لڑنا پڑا جب کہ اسلام نے عورتوں کو تعلیم کا حق صدیوں پہلے ہی دے دیا تھا ۔ حدیث مبارکہ ہے: " علم حاصل کرنا ہر مرد اور عورت پر فرض ہے"
دور نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں حضور اک صلی اللہ علیہ وسلم نے خواتین کی تعلیم کیلئے ایک دن مقرر کیا تھا ، جس دن خواتین نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کرتی تھیں۔


ہمسفر کے انتخاب کا حق:
اسلام نے عورت کو اپنی پسند کی شادی کرنے کا حق دیا اور والدیں کو حکم دیا کہ شادی کہ فیصلے پر اولاد سے اجازت لی جائے ۔ دورِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں ایک عورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کہ پاس آئی اور کہنے لگی کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے باپ نے صرف اپنی عزت کی خاطر اپنے بھتیجے سے میری اجازت کے بغیر میری شادی کروا دی ۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس کے باپ اور شوہر کو بلایا اور اس عورت کو کہا کہ اب تمہاری مرضی ہے کہ تم یہ شادی توڑ سکتی ہو تو اس عورت نے کہا نہیں اب میں اپنی رضامندی سے یہ شادی نبھانا چاہتی ہوں
مختلف صلاحیت:
 اللہ تعالی نے مرد اور عورت کو مختلف صلاحیتوں سے نوازا ہے
 " اور مرد عورتوں کی طرح نہیں" (القران 3:36)
خاندان کی سرپرستی:
 خاندان کے مالی معاملات مرد کے ذمہ ہیں جبکہ خاندان کی تربیت خواتین کے ذمے ہے۔


’’وہ تمہارے لیے لباس ہیں اور تم ان کے لیے لباس ہو" (القران 2:187)
تخلیق کا برابر درجہ:
 اللہ تعالیٰ نے تخلیق کے درجے میں عورت اور مرد کو برابر رکھا ہے۔ انسان ہونے کے ناطے عورت کا وہی رتبہ ہے جو مرد کو حاصل ہے، ارشاد باری تعالی ہے:
’’اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو، جس نے تمہاری پیدائش (کی ابتداء) ایک جان سے کی پھر اسی سے اس کا جوڑ پیدا فرمایا پھر ان دونوں میں بکثرت مردوں اور عورتوں (کی تخلیق) کو پھیلا دیا۔

‘‘
حقِ ملکیت:
 اسلام نے مردوں کی طرح عورتوں کو بھی حقِ ملکیت عطا کیا ہے۔ وہ نہ صرف خود کما سکتی ہے بلکہ وراثت کے تحت حاصل ہونے والی املاک کی مالک بھی بن سکتی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
’’مردوں کے لئے اس (مال) میں سے حصہ ہے جو ماں باپ اور قریبی رشتہ داروں نے چھوڑا ہو اور عورتوں کے لئے (بھی) ماں باپ اور قریبی رشتہ داروں کے ترکہ میں سے حصہ ہے۔

وہ ترکہ تھوڑا ہو یا زیادہ (اللہ کا) مقرر کردہ حصہ ہےo‘‘
برابر اجر:
 ﷲ تعالیٰ کے اجر کے استحقاق میں دونوں برابر قرار پائے۔ مرد اور عورت دونوں میں سے جو کوئی عمل کرے گا اسے پوری اور برابر جزا ملے گی۔ ارشادِ ربانی ہے :
’پھر ان کے رب نے ان کی دعا قبول فرما لی (اور فرمایا) یقیناً میں تم میں سے کسی محنت والے کی مزدوری ضائع نہیں کرتا خواہ مرد ہو یا عورت، تم سب ایک دوسرے میں سے (ہی) ہو‘‘
ذندہ دفن کی رسم کا خاتمہ:
 اسلام سے قبل بچی کے پیدا ہوتے ہی اسے ذندہ دفن کر دیا جاتا، اسلام نے نہ صرف اس ذمانہ جاہلیت کو ختم کیا بللکہ بیٹی کو باعث رحمت قرار دیا۔


عورت بحثیت ماں:
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عورت کو بحیثیت ماں سب سے زیادہ حسنِ سلوک کا مستحق قرار دیا۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : ایک آدمی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوا یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! میرے حسنِ سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تمہاری والدہ، عرض کیا پھر کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تمہاری والدہ، عرض کی پھر کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر فرمایا تمہاری والدہ، عرض کی پھر کون ہے؟ فرمایا تمہارا والد۔


ایک اور جگہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : " جنت ماؤں کے قدموں تلے ہے "
عورت بحثیت بیٹی: وہ معاشرہ جہاں بیٹی کی پیدائش کو ذلت اور رسوائی کا سبب قرار دیا جاتا تھا۔ اسلام نے بیٹی کو نہ صرف احترام و عزت کا مقام عطا کیا بلکہ اسے وراثت کا حقدار بھی ٹھہرایا۔ ارشاد ربانی ہے :
’’اللہ تمہیں تمہاری اولاد (کی وراثت) کے بارے میں حکم دیتا ہے کہ لڑکے کے لئے دو لڑکیوں کے برابر حصہ ہے، پھر اگر صرف لڑکیاں ہی ہوں (دو یا) دو سے زائد تو ان کے لئے اس ترکہ کا دو تہائی حصہ ہے، اور اگر وہ اکیلی ہو تو اس کے لئے آدھا ہے۔

‘‘
بیٹی کی اچھی تربیت پر جنت کی بشارت: حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس شخص کی تین بیٹیاں ہوں یا تین بہنیں ہوں اور وہ ان کے ساتھ احسان اور سلوک کا معاملہ کرے، ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے، تو اس کی بدولت وہ جنت میں داخل ہوگا‘‘
عورت مارچ:
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں عورت مارچ کا مقصد کیا ہے؟ یا عورت مارچ کو فیمنسم کا نام دیا جا سکتا ہے ؟ تو جواب بہت آسان ہے کہ اگر عورت مارچ کو فیمنسم کے ساتھ جوڑا جائے تو فیمنسم مغرب کی وہ تحریک ہے جو خواتین کے ان حقوق کیلئے شروع ہوئی تھی جو کہ اسلام نے آج سے 1400 سال پہلے خواتین کو دے دیے تھے۔

تو پھر اس مارچ کا ہمارے معاشرے میں کیا مقصد؟ حال ہی میں ہونے والے مارچ میں ہم جنس پرستی کہ حق میں جو نعرے لگے اور گفتگو ہوئی وہ ہمارے معاشرے میں نا قابل قبول ہے کیونکہ اسلام نے ہم جنس پرستی کو حرام قرار دیا ہے اور عورت مارچ کو فیمنسم کا نام دے کر چند خواتین ہمارے معاشرے کی ان عظیم بیٹیوں کی توہین کر رہی ہیں جنہوں نے اپنی تمام عمریں خواتین کی فلاح و بہبود کیلئے کام کیا جن میں سر فہرست بلقیس ایدھی ، ثنا اعوان، فرزانہ شعیب اور دیگر ہیں ۔

اگرعورت مارچ کرنا ہی ہے تو اس میں آپ تعلیم پر بات کریں ، عورت کے وراثت میں حق پر بات کریں ، ہمارے دیہات میں جو بچیوں کی کم عمری میں شادی کی جاتی ہے اس کے خلاف بات کریں ، ذیادتی اور تشدد کا شکار بننے والی خواتین کے حق میں بات کریں، عورتوں کی ہر شعبہ میں نوکریوں پر بات کریں۔ ہمارے معاشرے میں خواتین کو بہت سے مسائل درپیش ہیں جن پر بات ہونی چاہیے اور جن مسائل کو حل کرنے کی ضرورت ہے ان حالات میں ہم جنس پرستی اور "میرا جسم میری مرضی" جیسے نعرے لگانے کا کوئی مقصد نہیں اور نہ ہی اسے ہمارا معاشرہ کبھی قبول کرے گا، مرد تو دور کی بات ہمارے معاشرے کی 99 فیصد خواتین ہی اس کو قبول نہیں کریں گی اور اس ک سب سے بڑا نقصان ان خواتین کو ہوگا جو اصل میں خواتین کے حقوق کیلئے لڑ رہی ہیں۔

باقی میرا جسم میری مرضی اور آذادی کا نعرہ لگا کر مغرب کی خواتین سے ان کا پردہ چھینا جا چکا ہے آذادی کا دھوکہ دے کر مغربی خواتین کا استحصال کیا گیا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ برطانیہ  میں ہونے والے ایک سرووے میں 98 فیصد عورتوں نے بڑے دکھ کے ساتھ کہا تھا کہ ہم اپنی خاندانی ذندگی کی طرف واپس لوٹنا لچاہتی ہیں مگر نہ ہی ہمیں ہمارے باپ قبول کرنے کیلئے تیار ہیں اور نہ ہی شوہر۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :