عمران خان خود کے پی کے کی حکومت ختم کرنا چاہتے ہیں

اتوار 6 اگست 2017

Muzzamil Soharwardi

مزمل سہروردی

سیاست کے بدلتے منظر نامے میں ایک نئی خبر یہ ہے کہ عمران خان اب خیبر پختونخواہ کی حکومت سے جان چھڑانا چاہتے ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ کسی نہ کسی طرح ان کی حکومت ختم کر دی جائے اور وہ شہید بن کر میدان میں آجائیں۔ اسی حکمت عملی کے تحت انہوں نے دوسری بار شیر پاؤ کی جماعت کو حکومت سے نکال دیا ہے۔ ایک دفعہ پہلے بھی انہوں نے شیر پاؤ کے وزراء پر کرپشن کا الزام لگا کر انہیں نکال دیا تھا بعد میں تمام الزامات واپس لیکر انہیں پھر شامل کر لیا تھا۔

یہ کہا جاتا تھا تب بھی عمران خان کے پی کے کی اپنی حکومت ختم کرنا چاہتے تھے۔ لیکن ناکام ہو گئے تھے اور بعد میں دوبارہ حکومت چلانے کا فیصلہ ہوا تو شیر پاؤ کو دوبارہ شامل کر لیا گیا۔ اس لئے عمران خان جب بھی کے پی کے کی حکومت ختم کرنے کا سوچتے ہیں تو بیچارے شیر پاؤ کو نکال دیتے ہیں ۔

(جاری ہے)


ویسے تو عمران خان جماعت اسلامی سے بھی جان چھڑانا چاہتے ہیں لیکن جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے کے پی کے اتحاد میں کمبل والا معاملہ ہے۔

میں تو کمبل کو چھوڑتا ہوں کمبل مجھے نہین چھوڑتاکے مصداق عمران خان تو شاید جماعت اسلامی سے بھی جان چھڑانا چاہتے ہیں لیکن جماعت اسلامی جان نہیں چھوڑتی۔ اس حوالہ سے سراج الحق کے ہمت و حوصلہ کی داد دینی ہو گی۔ جو اس اتحاد کی گاڑی کو چلاتے رہے ہیں۔ حالانکہ ایک موقع پر عمران خان نے سراج الحق کے خلاف بھی بیان دے دیا تھا۔
بات صرف سراج الحق کے خلاف بیان تک محدود نہیں رہی بلکہ بنک سکینڈل میں بھی جماعت اسلامی کے وزیر کو بدنام کیا گیا۔

یہ تو جماعت اسلامی کا تحمل ہی تھا کہ وہ ا س کو برداشت کر گئی۔ ورنہ بنتا تو یہی تھا کہ اس کے بعد جماعت اسلامی اس اتحاد سے الگ ہو جاتی۔ لیکن جماعت اسلامی نے یہ فیصلہ نہیں کیا۔ کہا جاتا ہے کہ پرویز خٹک نے سراج الحق کو روک لیا۔ کیونکہ پرویز خٹک نہیں چاہتے تھے کہ جماعت اسلامی الگ ہو۔ وہ عمران خان کو تو نہیں روک سکتے تھے لیکن انہوں نے جماعت اسلامی کو روک لیا۔


کس کو نہیں پتہ کہ کے پی کے کی تحریک انصاف ھڑے بندی ا کا شکار ہے۔ شیر پاؤ کو دوبارہ اس لئے حکومت میں شامل کیا گیا تھا کہ تحریک انصاف کے اندر گروہ بندی بڑھ گئی تھی۔ تحریک انصاف کے لئے یہ ممکن نہیں تھا کہ صرف اپنے ارکان کے بل بوتے پر کوئی بل یا بجٹ منظور کروا سکتی۔ اسی لئے شیر پاؤ کو دوبارہ شامل کیا گیا تھا۔ شاید اب وقت آگیا ہے کہ شیر پاؤ کی مزید ضرورت نہیں۔

اب شاید تحریک انصاف خود چاہتی ہے کہ جس نے جانا ہے چلی جائے۔
یہ حقیقت ہے کہ تحریک انصاف کی کے پی کے حکومت میں وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کے خلاف دس سے زائد ارکان کا ایک ناراض گروپ موجود ہے۔ یہ ناراض گروپ آج تک صرف اس لئے فارورڈ گروپ نہ بن سکا کیونکہ انہیں نواز شریف کی آشیر بادنہیں مل سکی۔ گزشتہ چار سال میں نواز شریف جب چاہتے وہ کے پی کے کی حکومت ختم کر سکتے تھے لیکن انہوں نے ایسا نہیں کی۔

عمران خان ملک میں جلد از جلد انتخابات کی راہ میں اپنی کے پی کے کی حکومت کو رکاوٹ سمجھتے ہیں۔ اس لئے وہ اب اس سے جان چھڑانا چاہتے ہیں۔ اب کے پی کے کی حکومت عمران خان کے لئے بھی اس کمبل کی طرح ہے جس سے عمران خان تو جان چھڑاتے ہیں لیکن وہ عمران خان کی جان نہیں چھوڑتا۔
تحریک انصاف کے ذمہ دار ذرائع یہ اشارے دے رہے ہیں کہ شیر پاؤ کو نکالنا ایک حکمت عملی کا حصہ ہے۔

ویسے تو یہ خبریں عام تھیں کہ شیر پاؤ کی نواز شریف کے سیاسی ایڈ جسٹمنٹ ہو چکی تھی۔ اور اگلے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کے پی کے میں اے این پی اور شیر پاؤ کے ساتھ مل کر انتخاب لڑنے جا رہی تھی۔ اس لئے شیر پاؤ کو نکال دیا گیا ہے۔ کیونکہ ان کے نواز شریف کے ساتھ مستقبل کے معاملات طے ہو گئے ہیں۔
دوسری تھیوری یہ بھی ہے کہ تحریک انصا ف کی قیادت یہ سمجھتی ہے کہ اس موقع پر کے پی کے کی حکومت سے جان چھڑانے میں سیاسی فائدہ ہے۔

ایک تو کوئی خاص کارکردگی نہیں ہے۔ دوسرا شہید بننے کا بھی ایک فائدہ ہوگا۔ اگر آخر تک حکومت رہی تو لوگ کارکر د گی کو جانچنا شروع کر دیں گے۔ اور اگر پہلے ختم ہو گئی تو کارکردگی کا سوال ہی ختم ہو جائے گا۔ اس لئے عمران خان چاہتے ہیں کہ نواز شریف اس موقع پر ان کی کے پی کے کی حکومت ختم کر دیں۔
عمران خان کا خیال ہے کہ ایک تو نواز شریف اس وقت زخمی ہیں۔

غصہ میں ہیں۔ اپنے اتحادی مولانا فضل الرحمٰن کے دباؤ میں ہیں۔تحریک انصاف کا ناراض گروپ بھی ان سے رابطہ میں ہے۔ ایسے میں نواز شریف کے لئے ایک موقع ہو گا کہ وہ کے پی کے میں تحریک انصاف کی حکومت ختم کر دیں۔ مولانا فضل الرحمٰن تو پہلے ہی کئی بار نواز شریف کو قائل کرنے کی کوشش کر چکے ہیں کہ خیبر پختونخواہ میں حکومت بدل دی جائے۔ اب تو شیر پاؤ بھی تیار ہیں۔

اور اگر تحریک انصاف کے د س ناراض ارکان بھی ساتھ مل جاتے ہیں تو یہ کام نہایت آسان ہو جائے گا۔ نمبر گیم پوری ہو جائے گی۔پرویز خٹک کے خلاف عدم اعتماد آجائے گی۔جس کے کامیاب ہونے کے امکانات ہو نگے۔ اور ایک نئی وسیع اتحادی حکومت قائم ہو جائے گی۔ لیکن یہاں ایک اہم سوال ہے کہ اگلا وزیر اعلیٰ کون ہو گا۔ کیا ناراض گروپ کو وزارت اعلیٰ دی جائے گی۔

کیا مولانا فضل الرحمٰن وزارت اعلیٰ کی قربانی دینے کو تیار ہو نگے۔ کیا مسلم لیگ (ن) وزارت اعلیٰ اپنے پاس رکھ سکے گی۔ کیا شیر پاؤ صرف حکومت گرانے میں دلچسپی رکھیں گے یا اس سے آگے بھی کچھ ہو گا۔ یہ سب سوال ہی عمران خان کی حکومت گرانے کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ اسی لئے نواز شریف اور ان کی جماعت ہمیشہ سے یہ سمجھتی رہی ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کو گرانا ایک گناہ بے لذت سے زیادہ کچھ نہیں۔

اس میں بدنامی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ یہ بھی سوچ ہے کہ اس حکومت کو ختم کرنے سے عمران خان کو نقصان کم ہو گا بلکہ اگر اس حکومت کو آخری دن قائم رکھا جائے تو یہی عمران خان کے ساتھ بہترین انتقام ہو گا۔ کیونکہ بہر حال اگلے ا نتخابات میں عمران خان کو کے پی کے میں نیا پاکستان دکھانا ہو گا۔ اور اس کی تو کوئی جھلک ابھی تک نظر نہیں آرہی۔
میں اب بھی سمجھتا ہوں کہ جماعت اسلامی اس ساری صورتحال میں پھر تحریک انصاف کی حکومت کوگرنے سے روک لے گی۔

جیسے کے دھرنے کے دنوں میں انہوں نے عمران خان کی شدید خواہش کے باوجود حکومت کو گرنے سے روک لیا تھا۔شاید سراج الحق کا بھی عمران خان سے بہترین انتقام یہی ہے کہ وہ کے پی کے کی حکومت کو آخری دن تک گرنے نہ دیں۔ اور تحریک انصاف کو مجبور کریں کہ وہ کسی سیاسی نعرہ کی بجائے اپنی کارکردگی کی بنیاد پر انتخاب لڑے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :