کلثوم نواز وزیر اعظم۔ آصف زرداری صدر۔ نیا فارمولہ

جمعہ 18 اگست 2017

Muzzamil Soharwardi

مزمل سہروردی

جاتی عمرا کی خبریں تو یہی ہیں کہ میاں نواز شریف کسی بھی قسم کا سرنڈر کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ایک اندازہ تو یہی تھا کہ جی ٹی روڈ یاترا کے بعد میاں نواز شریف کو اندازہ ہو گیا ہو گا کہ وہ بند گلی میں پھنس گئے ہیں۔ بلکہ خبریں تو یہ ہیں کہ جی ٹی روڈ مارچ کے بعد وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ جنہوں نے انہیں گھر بھیجا ہے وہ بند گلی میں پھنس گئے ہیں۔

اس لئے اب انہیں گھر بھیجنے والی قوتوں کے پاس نواز شریف کی شرائط ماننے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔ نواز شریف پوری قوت سے ٹکرانے کا فیصلہ کر رہے ہیں۔ وہ مشاورت بھی انہیں سے کر رہے ہیں جو ان کے ہم خیال ہیں۔ جن کو ان سے اختلاف ہے کو مشاورتی اجلاسوں میں بلایا بھی نہیں جا رہا۔ اسی لئے چودھری نثار علی خان سمیت کئی بڑے نام نظر نہیں آرہے۔

(جاری ہے)


اگر یہ مان لیا جائے کہ نواز شریف نے لڑنے کا فیصلہ کر لیا ہے تو سوال یہ ہے کہ ان کی حکمت عملی کیا ہے۔ ان کا روڈ میپ کیا ہے۔ منصوبہ کیا ہے۔ میاں نواز شریف ایک دوہری حکمت عملی تیار کر رہے ہیں۔ وہ ایک طرف سڑکوں پر رہنے کا پلان بنا رہے ہیں۔ دوسری طرف وہ پارلیمنٹ کے اندر لڑائی لڑنا چاہتے ہیں۔ جی ٹی روڈ کے سفر نے نواز شریف کو یہ حوصلہ دے دیا ہے کہ انہیں سڑکوں پر آنے کے لئے کسی کی مدد کی ضرورت نہیں ہے۔

یہ کام وہ اکیلے کر سکتے ہیں۔ لیکن آئینی ترامیم کے لئے انہیں کم از کم پیپلزپارٹی کی اشد ضرورت ہے۔ اس کے بغیر یہ کام مکمل نہیں ہے۔ یہ درست ہے کہ بلاول بار بار اعلان کر رہے ہیں کہ نواز شریف سے کوئی بات نہیں ہو سکتی۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ وہ نواز شریف سے ملاقات تو دور کی بات فون بھی نہیں سنیں گے۔ لیکن غور کرنے کی بات یہ ہے کہ آصف زرداری ایسا کوئی اعلان نہیں کر رہے ہیں۔

وہ لاہور پہنچ گئے ہیں۔ ذمہ دار ذرائع اس بات کی تصدیق کر رہے ہیں کہ بیک چینل پر بات طے بھی ہو رہی ہے۔ اور اس بات کے قوی امکان ہیں کہ پیپلزپارٹی اور نواز شریف کے درمیان ایک معاہدہ ہو جائے۔
نواز شریف پہلے مرحلہ میں چاہتے ہیں کہ وہ کلثوم نواز کو رکن قومی اسمبلی منتخب کروائیں۔ یہ نواز شریف کے نئے روڈ میپ کے لئے اشد ضروری ہے۔ یہ درست ہے کہ کلثوم نواز کے کاغذات پر اعتراضات کی بوچھاڑ ہو گئی ہے لیکن ن لیگ کے ذرائع یہی کہہ رہے کہ اللہ کی طرف سے سب خیر ہے اور الیکشن کمیشن سے کاغذات پاس ہو جائیں گے۔

مسئلہ عدالت میں ہو گا۔ لیکن میں اپنے پہلے کالم میں وہ منظر نامہ لکھ چکا ہوں جس میں کلثوم نواز کی نا اہلی پر بات کی گئی ہے۔لیکن اب وہ منظر نامہ دیکھ لیں جس میں کلثوم نواز کے کاغذات منظور ہو جاتے ہیں اور وہ رکن قومی اسمبلی منتخب ہو جاتی ہیں۔
میرے خیال میں اس بات میں کوئی ابہام نہیں کہ اگر کلثوم نواز رکن قومی اسمبلی منتخب ہو جاتی ہیں تو وہ فوری طور پر وزیر اعظم بن جائیں گی۔

ان کو رکن قومی اسمبلی صرف رکن رکھنے کے لئے نہیں منتخب کروایا جا رہا ہے۔ ان کی اگلی منزل وزارت عظمیٰ ہے۔ ان کے رکن قومی اسمبلی منتخب ہونے کے بعد پارٹی کے اندر سے یہ مطالبہ شروع ہو جائے گا کہ انہیں فوری طور پر وزیر اعظم بنایا جائے۔ ان کے وزارت عظمیٰ پر پہنچ جانے کو میاں نواز شریف کی ایک بڑی کامیابی سمجھا جائے گا۔ بلکہ ان قوتوں کی ہار سمجھی جائے گی جنہوں نے اتنی محنت سے میاں نواز شریف کو وزیر اعظم ہاؤس سے نکالا ہے۔

خود میاں نواز شریف کہہ رہے ہیں کہ وہ کچھ بھی کر لیتے انہوں نے نکلنا ہی تھا۔ اس لئے اب یہ بات سمجھ نہیں آرہی کہ وہ قوتیں کلثو م نواز کو بطور وزیر اعظم کیسے مان لیں گی۔ لیکن بہر حال اگر میاں نواز شریف محاذ آرائی کے اس ماحول میں بھی کلثوم نواز کووزیر اعظم بنوالیتے ہیں تو یہ ان کی ایک بڑی کامیابی ہو گی۔ جس کے لئے کوششیں جا ری ہیں۔ یہ ٹوئنٹی ٹوئنٹی میچ ہے ۔

اس لئے اس کا فیصلہ بھی چند روز میں ہو جائے گا۔
میاں نواز شریف کے آئینی ترامیم کے پیکج کا خواب پیپلزپارٹی کی مدد کے بغیر پورا نہیں ہو سکتا۔ کہتے ہیں سیاست میں ضرورت اور موقع کی قیمت ہوتی ہے ۔ اس لئے اس وقت پیپلزپارٹی کی بڑی قیمت ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ نواز شریف سابق صدرا ٓصف زرداری کو پاکستان کی صدارت کی پیش کش کر رہے ہیں۔ ممنون حسین کی جگہ آصف زرداری کو دوبارہ صدر بنانے کی پیشکش کی جا رہی ہے۔

ن لیگ آصف زرداری کو بتا رہی ہے کہ ان پر بھی حملہ ہونے والا ہے۔ اس حملہ سے بچنے کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ وہ دوبارہ ملک کے صدر بن جائیں۔ صدر بننے سے انہیں دوبارہ استثنیٰ مل جائے گا۔ ان پر کوئی مقدمہ قائم نہیں ہو سکے گا۔ اور وہ ہر قسم کے حملہ سے محفوظ ہو جائیں گے۔ اس کے ساتھ اسمبلیاں تو اپنی مدت پر ختم ہو جائیں گے۔ ان کے ساتھ وزیر اعظم بھی گھر چلے جائیں گے۔

لیکن اگر آصف زرداری اس وقت صدر منتخب ہوتے ہیں تو وہ پانچ سال کے لئے صدر منتخب ہوں گے۔ اس طرح وہ 2022 تک محفوظ ہو جائیں گے۔ معاملہ اتنا سنجیدہ ہے کہ بلاول بھی لاہور پہنچ گئے ہیں۔
یہ تاثر ہے کہ بلاول اس ڈیل کے خلاف ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ آصف زرداری کے صدر بننے کوبلاول اپنے سیاسی مستقبل کی راہ میں رکاوٹ دیکھتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ اگلے انتخاب کے بعد خود کو وزیر اعظم دیکھ رہے ہیں بلکہ وہ خود کو کم از کم قائد حزب اختلاف دیکھ رہے ہیں۔

ایسے میں شاید ان کو یہ بات سمجھ نہیں آرہی جب آصف زرداری صدر بن جائیں گے تو ان کے سیاسی مستقبل پر اس کا کیا سیاسی اثر ہو گا۔اس لئے اگر بلاول مان گئے تو ڈیل ہو سکتی ہے۔
مولانا فضل الرحمٰن تو پہلے ہی نواز شریف کے ساتھ ہیں۔ اسفند یار ولی خان کی تو سیٹیں کم ہیں لیکن وہ بھی ساتھ ہیں۔ شیر پاؤ بھی ساتھ ہیں۔ محمود اچکزئی بھی ساتھ ہیں۔ ایسے میں اگر پیپلزپارٹی مان جائے تو نواز شریف ایک آئینی پیکج کے لئے ایک بھر پور ماحول بنانے کے لئے تیار ہو جائیں گے۔

ایم کیو ایم کو بھی منانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کا وزیر اعظم بننے کے فوری بعد دورہ کراچی بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔ کراچی کے لئے 25 ارب کا پیکج بھی اسی لئے ہے۔ گورنر سندھ کی جانب سے ایم کیو ایم کا کراچی مینڈیٹ تسلیم کرنے کی پریس کانفرنس بھی ایم کیو ایم کو منانے کی کوشش ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ فاروق ستار سیاسی فیصلے کرنے میں کس حد تک آزاد ہیں ۔

یہ دیکھنے کی بات ہے۔ لیکن ن لیگ ان کو اس آئینی پیکج پر منانے کی کوشش کر رہی ہے۔
میاں نواز شریف نے سپریم کورٹ میں بھی دوبارہ درخواستیں دائر کر دی ہیں۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ میاں نواز شریف کو چاہے عدلیہ سے جتنے بھی گلے شکوے ہیں۔ لیکن وہ ملک کے عدالتی نظام کے کسی بھی قسم کے بائیکاٹ کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ بلکہ وہ عدالت سے ریلیف لینے کا ہر موقع پر استعمال کریں گے۔ ان کی ان درخواستوں کے مستقبل کے حوالہ سے قانونی ماہرین زیادہ پر امید نہیں ہیں ۔ لیکن پھر بھی ہر آپشن کو آخری حد تک استعمال کرنا چاہئے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :