سیاسی بدمعاش

جمعرات 18 جون 2015

Naveed Sadiq

نوید صادق

ہمارا کراچی سیاست کی نذر ہو گیا۔ ہم آج تک یہی سمجھتے رہے لیکن ہمارے فرشتوں کو بھی خبر نہیں تھی کہ کراچی سیاست کی نہیں سیاسی بدمعاشی اور بے غیرتی کی نذر ہو رہا ہے۔بلند و بانگ دعوے تو ہر دور میں ہوتے رہے کہ یوں کر دیں گے، ووں کر دیں گے لیکن عملی سطح پر کوئی اقدام سامنے نہ آیا۔ ہمارے ہاں عجیب رواج ہے کہ جب کوئی بڑا مسئلہ سامنے آتا ہے، فوراً اس جیسا کوئی اور مسئلہ پیدا کر دیا جاتا ہے تا کہ عوام کی توجہ اس طرف سے ہٹ جائے۔

یوں ہم مسائل در مسائل ایک دلدل میں دھنستے چلے جاتے ہیں۔ لیکن اب کچھ نیا یوں ہو رہا ہے کہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف نے ہر معاملہ کو خود دیکھنا شروع کر دیا ہے۔ یوں بہت سے گورکھ دھندے سامنے آنے لگے ہیں۔ ہر گورکھ دھندے کے پیچھے کسی بڑے سیاست دان کا نام نظر آتا ہے۔

(جاری ہے)

معاملہ دہشت گردی کا ہو، بھتہ خوری کا کہ دیگر جرائم پیشہ افراد کی سرپرستی کا، ہر جگہ کوئی بڑا نام جگمگاتا نظر آتا ہے۔


ڈائریکٹر جنرل رینجرز کے کراچی کے حوالہ سے انکشافات کے بعد سے معاملہ خاصا گرم نظر آ رہا ہے۔ ایک دوسرے کے بچاوٴ کے لیے کاوشیں سامنے آ رہی ہیں۔ جناب اعتزاز احسن، کل تک جن کی اصول پسندی کے چرچے تھے، آج جرائم پیشہ افراد کی پشت پناہی کرتے نظر آ رہے ہیں۔ جناب اعتزاز احسن کو انتظار کرنا چاہیے کہ اگر ڈی جی رینجرز نے الزامات لگائے ہیں، تو ان کے پیچھے کچھ وجوہات یقیناً ہوں گی، یقیناً ڈی جی رینجرز کے پاس ان سب معاملات میں ٹھوس شواہد بھی ہوں گے۔

کیوں کہ ہم سمجھتے ہیں کہ فوج سے متعلقہ ادارے غیر ذمہ داری کا ثبوت نہیں دیتے۔ پھر یہ بھی ہم سب جانتے ہیں کہ کراچی میں شدید ابتری کے بعد جب جنرل راحیل شریف نے آپریشن کی کمان خود سنبھالی تو ایک ایک کر کے پردے چاک ہونا شروع ہوئے۔ نائن زیرو پر ریڈ ہوا تو وہاں سے کیا کیا کچھ نکلا، ہم سب جانتے ہیں۔ نائن زیرو سے کیسے کیسے نامی گرامی مجرم برآمد ہوئے، اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت یوں نہیں بنتی کہ عوام اس سارے معاملے سے بخوبی آگاہ ہے۔

لیکن وہ جو کچھ دانش ور کہتے تھے کہ ایم کیو ایم کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کی باری ہے تو وہ بات اب کچھ کچھ سچ ہوتی نظر آ رہی ہے۔ لیکن جو ہم سمجھے ہیں وہ یہ ہے کہ مسئلہ ایم کیو ایم یا پاکستان پیپلز پارٹی کا نہیں، مسئلہ مختلف جرائم میں مطلوب افراد کا ہے۔قربانی کی کھالوں کے حوالے سے جو اعداد و شمار ڈی جی رینجرز نے پیش کیے ہیں، ان سے بھی لوگ واقف تھے، کبھی کبھی میڈیا میں اس پر خبریں بھی چل جاتی تھیں لیکن کیا ہے کہ کوئی کھل کر بات کرنے کی جرات نہیں کر پا رہا تھا۔

قربانی کی کھالیں اکٹھی کرنے والی مذہبی جماعتیں ہوں کہ لسانی گروہ… ایک بات طے ہے کہ ان کھالوں سے کمایا جانے والا روپیہ نیک مقاصد کے لیے ہرگز خرچ نہیں ہوتا۔ بس دکھاوے کے لیے چند لاکھ روپے بلکہ بعض جگہوں پر تو بات ہزاروں تک ہی محدود رہتی ہے، فلاحی مقاصد کے لیے استعمال کر دیے جاتے ہیں کہ آئندہ کے لیے ساکھ بنی رہے اور باقی کا پیسہ اپنے ذاتی مفادات کے لیے… اور یہ ذاتی مقاصد بھی عموماً اس طور کے ہوتے ہیں کہ ان کے حصول کے دوران قومی و ملی مقاصد کو نقصان پہنچتا ہے۔

اور دکھ کی بات یہ کہ ان تمام معاملات میں وہ لوگ پیش پیش نظر آتے ہیں جن کا تعلق یا تو سیاسی جماعتوں سے ہوتا ہے یا پھر مذہبی جماعتوں سے۔ مذہب کی بھی خوب رہی کہ مذہب کے نام پر عام آدمی کو جس قدر بے وقوف بنایا جاتا ہے شاید ہی کسی اور معاملے میں نظر آئے۔ پوری انسانی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں، مذہب…کوئی بھی ہو… عام آدمی کو سب سے زیادہ اسی حوالے سے بیوقوف بنایا گیا اور لوٹا گیا ہے۔

ایک نعرہ لگتا ہے اور ہم اٹھ کر چل پڑتے ہیں جیسے ہماری زندگی کا پہلا اور آخری مقصد یہی ہو۔ حالاں کہ ٹھنڈے دل سے غور کیا جائے اور بنظر تحقیق دیکھا جائے تو بہت سے معاملات ایسے نکلیں گے جن کا متعلقہ مذہب سے کچھ لینا دینا نہیں ہوتا۔اپنے ہاں ہی دیکھ لیجئے، پوری دنیا میں کہیں بھی کچھ ہو، ہم اپنے ملک کی سڑکوں پر اپنے ہی ملک کی املاک کو نقصان پہنچانا شروع کر دیتے ہیں۔

بات دراصل یہ ہے کہ مذہب انتہائی حساس معاملہ ہے اور اسی حساسیت کا فائدہ اٹھایا جا رہا ہے۔ ہم نے دوستوں کی ایک مجلس میں مابعدالطبیعات کے حوالے سے گفتگو کرنا چاہی تو ایک صاحب نے فوراً ٹوک دیا کہ توبہ توبہ کریں، ایسے معاملات میں سوچنا بھی گناہ ہے۔ ہمارے ہاں غالب رویہ کچھ ایسا ہی ملتا ہے۔اور دوسری طرف قرآن پاک میں دیکھیں تو اللہ تعالیٰ نے صاف صاف کہہ دیا ہے: اور یہ لوگ زمین پر گھوم پھر کر نہیں دیکھتے، کیا ان کی موت آ گئی ہے۔

ہم لوگ گھوم پھر کر دیکھنے کے معانی ہی نہیں سمجھ پائے، کچھ مولویوں نے اس گھومنے پھرنے کو رزق کی تلاش سے تعبیر کیا اور کچھ نے …خیر۔
رہ گئیں سیاسی جماعتیں، تو ان کا تو باوا آدم ہی نرالا ہے۔ کہنے کو ہر بڑی سیاسی جماعت میں نظریاتی لوگ بھی ملیں گے، ہم یہ نہیں کہتے کہ تمام جماعتیں فضول اور جرائم کی سرپرستی کرنے والے لوگوں پر مشتمل ہیں، لیکن اتنا ضرور کہیں گے کہ چند دہائیوں سے تمام بڑی سیاسی جماعتوں میں کالی بھیڑوں کی تعداد خاصی بڑھ گئی ہے۔

ایک گندی مچھلی پورے تالاب کو گندا کر دیتی ہے ۔ اور جہاں تالاب میں ننانوے فیصد گندی مچھلیاں ہوں وہاں وہ ایک فیصد جو بچ گئی ہیں یا تو انھی کے رنگ میں رنگ جائیں گی یا پھر… لیکن بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔یہ جو ہماری سیاسی جماعتوں میں نظریاتی قسم کے لوگ ہیں، یہ جن میں ابھی شرافت کی ایک آدھ رمق باقی ہے، اب تو وہ بھی محض ساتھ ساتھ چلنے کے لیے گندی مچھلیوں کی وکالت کرنے لگے ہیں۔ بہرحال خدا کرے، اور افواج پاکستان کو اپنے جملہ مقاصد میں کامیاب کرے کہ ہمیں تو اب اور کوئی راستہ نظر نہیں آتا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :