کرونا جنگ، انتظامیہ بمقابلہ طلباء

جمعہ 1 مئی 2020

Noman Ahmed

نعمان احمد

پاکستان کی موجودہ صورتحال یہ ہے کہ رات سونے سے فوراً پہلے اور صبح اٹھنے کے فوراً بعد کرونا وائرس کی“ڈوز”بڑے ہی حوصلے کے ساتھ لی جاتی ہے۔ جہاں اس وباء نے زندگی کے ہر شعبے کو بلاواسطہ یا بلواسطہ متاثر کیا ہے وہاں تعلیمی نظام کو بھی زور دار دھچکا دیا ہے جس کی زد میں پورا تعلیمی نظام ہل گیا ہے۔ وقت کا ستم ایسا کہ جب وباء نے سر اٹھایا تو ملک خدادا کے حکمران بھی بڑے کھلاڑی تھے خوب کھیل رہے تھے تو لگے ہاتھ انھیں طالبعلموں کے مستقبل سے کھیلنے کا موقع مل گیا۔

 
وزیر ِتعلیم صاحب ٹھہرے شریف آدمی، فوراً چھٹیوں کا اعلان کیا اور ساتھ ہی ساتھ حکم صادر کیا کہ“کرونا وکیشنز”کو“سمر وکیشن”کہا، سنا اور سمجھا جائے۔ ایچ ای سی کے جناب چیئرمین ڈاکٹر طارق بنوری بڑے شرارتی نکلے فوراً اعلان کیا کہ یونیورسٹیاں آن لائن کلاسسز کا انتظام کریں۔

(جاری ہے)

ادھر نکتہِ غور یہ ہے کہ آج تک ہمارے تعلیمی نظام نے یہ جسارت ہی نہیں کی کہ کوئی آن لائن سسٹم متعارف کروایا جائے جس میں یونیورسٹیاں اور ڈیجیٹل لائبریریاں کام کرسکیں اور طلبہ و اساتذہ آن لائن درس و تدریس سے آشنائی حاصل کرسکیں۔

ماسوائے ورچوئل یونیورسٹی میں پڑھائے جانے والے مضامین کے، ملک کے کسی بھی مضمون کے لیکچر آن لائن دستیاب نہیں ہیں جسکے باعث ہم طلباء غیر ملکی پروفیسرز کے لیکچرز سنتے اور سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کیونکہ ان اساتذہ نے اپنے یوٹیوب چینلز کھولیں ہیں اور ہمارے یہاں ٹیوشن سنٹرز۔ کرونا وائرس کے باعث پوری دنیا سمیت پاکستان میں بھی بہت سے شعبوں میں گھر سے کام کرنے کی ابتدا ہوگئی ہے مگر اب بھی کئی ایسے شعبے ہیں جن میں گھر میں بیٹھ کر کام نہیں کر سکتے جن میں سر فہرست پائیلٹ کا کام ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ تعلیم بھی کسی حد تک اس فہرست میں آتی ہے۔

 
یہاں ایک قابلِ ذکر بات یہ بھی ہے کہ آن لائن درس و تدریس اتنی مشکل نہیں ہے جتنا مشکل اسے انتظامیہ اور اساتذہ کرام کے رویوں نے بنا دیا ہے۔ مختلف یونیورسٹیوں کی انتظامیہ کی جانب سے دھمکی آمیز وائس نوٹس پر حکم صادر کیا جاتا ہے کہ آن لائن کلاسسز میں حاضری یقینی بنائی جائے۔ جب انھیں اپنے جائز مطالبات کے جوابات مانگے جاتے ہیں انکا کوئی جواب نہیں آتا مگر غیب سے ایک آواز آتی ہے“میں نہیں بتاؤں گا”۔

اور جب کہاں جاتا ہے کہ یہ سراسر زیادتی ہے تو پھر غیب سے آواز آتی ہے“یہ تو ہوگا”۔ اس موقع پر ہر طالبعلم کے دل سے یہی صدا نکلتی ہے“میرے حالات ایسے ہیں کہ میں انکے خلاف کچھ کر نہیں سکتا“۔ جہاں کرونا وائرس نے پہلے ہی طالبعلموں کی تدریسی سرگرمیوں پر بُرا اثر ڈالا ہے وہی انتظامیہ انکو نفسیاتی طور پر تکلیف پہنچا رہی ہے۔ 
آن لائن کلاسسز کیلئے انٹرنیٹ کی تیز ترین ترسیل ناگزیر ہے مگر بدقسمتی سے پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے جس کی %40 فیصد آبادی کے پاس انٹرنیٹ کی سہولت موجود ہے (بشمول 2G)۔

پاکستان کے مختلف علاقے فاٹا، بلوچستان، سندھ، گلگت اور پنجاب کے کچھ علاقوں میں بھی انٹرنیٹ کی سہولت کچھوے کی سے تیز ترین رفتار سے چلتا ہے وہاں پر رہنے والے طلبہ کس طرح گھنٹوں لمبی کالز سے ہر ایک پوائنٹ سمجھنے کا تصور کر سکتے ہیں۔ اگر بات کی جائے پبلک یونیورسٹیز کی تو انکے اکثر طلباء چھوٹے شہروں اور دور دراز علاقوں سے آتے ہیں، ہاسٹلز میں رہتے ہیں اور چھٹیوں کی وجہ سے ہاسٹلز بھی فوری طور پر بند کر دیے گئے ہیں، اب وہ اپنے آبائی علاقوں میں ہیں جہاں آن لائن کلاسسز لینے کے وسائل انکے پاس بھی بہت کم ہیں۔

 
اسکے بعد سب سے اہم مسئلہ آجاتا ہے فیس کا۔ چونکہ ملک میں تمام کاروبار بند ہوچکے ہیں بے روزگاری کی شرح بڑھ گئی ہے اور طلباء بھی تعلیمی اداروں میں نہیں جارہے مگر وہی فیسیں وصول کرنے کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں۔ 
اسکے بعد یک اہم مسئلہ سمسٹر سسٹم والوں کا بھی ہے اور خاص طور پر ان طلباء کا جنکا فائنل سمسٹر ہے فائینل سمسٹر میں انھوں نے یا تو فائنل پراجیکٹ بنانا ہوتا ہے یا پھر تھیسسز کرنا ہوتا ہے، اس کیلئیے انھیں یونیورسٹی کے ایک مستقل استاد کی رہنمائی ضروری ہے۔

یہ تمام ایسے کام ہیں جو آن لائن سرانجام نہیں دیے جاسکتے ہیں۔ 
اسلئیے حکومت پاکستان اور یونیورسٹی انتظامیہ کو ان تمام جائز اور مناسب مسائل کے حل کیلئے کوئی لائحہ عمل بنائیں تاکہ طلباء کا مستقبل بچ سکے۔
مہنگے ترین انٹر نیٹ بنڈلز کی جگہ خاص طور پہ طالبعلموں کیلئیے“سٹوڈنٹ بنڈلرز”بنائے جائیں، انٹرنیٹ کی ترسیل کو یقینی بنایا جائے، فیسیں مکمل معاف نہیں کرسکتے تو کم از کم اس میں واضع کمی کی جائے، فائینل ائیر اور سمسٹر کے طلباء کو تعلیمی ادارے کھلنے تک موسم گرما کی تعطیلات تصور کی جائیں اور ایچ ای سی آن لائن ایجوکیشن سسٹم کا قیام عمل میں لائے۔

اس میں میڈیا اور ماس کمیونیکیشن کے علاوہ کمپیوٹر سائنس کے شعبے کو یہ کام دیا جائے گا کہ وہ تمام مضامین کے لیکچرز ریکارڈ کریں۔ تاکہ بوقت ضرورت ان سے استفادہ حاصل کیا جاسکے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :