”آیا صوفیہ“ کی تاریخ

جمعہ 24 جولائی 2020

Noman Ahmed

نعمان احمد

ترکی میں قائم تاریخی اہمیت کی حامل عمارت کو عدالتی حکم پر ایک مرتبہ پھر سے “آیا صوفیہ مسجد” میں تبدیل کریا گیا۔ترکی کی اعلیٰ انتظامی عدالت کونسل آف سٹیٹ نے ماضی میں کیے گئے حکومتی فیصلے کو غیرقانونی قرار دے کر اسکو منسوخ کریا۔ عدالتی فیصلے کے آنے کے بعد ترکی کے صدر طیب اردگان نے صدارتی حکم نامہ جاری کرتے ہوئے مسجد میں جمعہ پڑھنے کا اعلان کیا۔


ترکی کے مشہور شہر استنبول میں واقع جامع مسجد سلطان احمد کے قریب واقع یہ شاندار شاہکار بادشاہ  قسطنطین کے بعد بادشاہ جسٹنین اول نے 532میں 5سال کے عرصہ میں تعمیر کروایا۔ جسکے بعد اس کو چرچ کا درجہ دے کر عبادت کیلئے کھول دیا گیا تھا۔ 1346ء میں اسکی تعمیر دوبارہ سے کی گئی اور بعد ازاں عثمانی دور خلافت میں اسکی ترمیم ہوتی رہی۔

(جاری ہے)

آیا صوفیہ کو 900سال تک عیسائی گرجا گھر کیلئے استعمال کیا گیا جس کے بعد سلطان محمد الفاتح نے 1453ء قسطنطنیہ فتح کرتے ہی اسکو مسجد میں تبدیل کروای اور اس پر شاندار مینار بنوایا۔

استنبول کی بلیو موسک (سلطان احمد مسجد) کی تعمیر سے پہلے تک آیا صوفیہ ہی شہر کی مرکزی مسجد سمجھی جاتی تھی۔ 1934 میں میں جدید ترک کے بانی مصطفٰی کمال پاشا نے مسجد کو ختم کر کہ اسکو میوزیم میں تبدیل کرنے کے بعد اسکو سیاحوں کیلئے کھول دیا گیا۔آیا صوفیا کا بڑا گنبد استنبول کے منظر کا لازمی حصہ ہے۔ سنہ 1985 میان یونیسکو کی عالمی تاریخی مقامات کی فہرست میں شامل کیا گیا تھا۔

آج بھی ایک اندازے کے مطابق  ہر سال 30 لاکھ سیاح تاریخ کے بہترین شاہکار کو دیکھنے آتے ہیں۔  اسکے بعد 2014میں اناطولین یوتھ ایسوسی ایشن نے آیا صوفیہ کو سابقہ حالت میں تبدیل کرنے کیلئے ایک تحریک چلائی جس میں 15ملین سے زائد لوگوں نے اس میں حصہ لیا جسکے بعد اس وقت کے ترک وزیراعظم احمد داؤد اوغلونے نے معاملے پر غور کرنے کی یقین دہانی کروائی۔

اسکے بعد الیکشن کمپین کے دوران بھی صدر طیب اردگان نے اسکو مسجد بنانے کا اعلان کیا تھا۔عمارت کی حیثیت تبدیل کروانے کیلئے اس ایسوسی ایشن نے تحریک کے ساتھ ساتھ ترکی کی سپریم کورٹ میں 16سال تک مقدمہ چلوایا اور سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں قرار دیا کہ اس جگہ کو مسجد کیلئے تعین کردیا گیا تھا اسلئے اس کو قانونی اور شرعی طور پر کسی اور مقصد کیلئے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔


اس مقدمہ کے فیصلہ پر بین القوامی سطح پر بھی ردعمل دیکھنے میں آیا۔ یونیسکو، امریکہ، روس اور یونان کی جانب سے فیصلے پر بیان بازی کے بعد صدر اردگان نے اس فیصلے کو ملکی خود مختاری قرار دیا۔ ایک اور بیان میں انھوں نے مقبوضہ بیت المقدس میں یہودیوں کیلئے بنائے ٹیمپل ماؤنٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہودی اورعیسائی بھی تو مسلسل مسجد الاقصیٰ کو نشانہ بنا رہے ہیں جو خاموش رہتے ہیں اور آیا صوفیہ مسجد پر تجویز کی جرات نہیں کرسکتے، انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ آیا صوفیہ کو مسجد میں تبدیل کرنا ترکی کا حق ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :