ایف آئی آر ہماری مرضی کی

جمعرات 12 ستمبر 2019

Noorulamin Danish

نورالامین دانش

یہ اسی تھانے کے سامنے کی روڈ تھی جہاں آج سے چند ماہ قبل زیادتی کے بعد بے دردی سے قتل کی جانیوالی معصوم فرشتہ کے والدین کئی روز ایف آئی آر کی بھیک مانگتے رہے تھے اور ایس ایچ او صاحب انکی معصومیت و عزت کا مزید کھلواڑ کرتے رہے۔
اسی روڈ پر محمد علی جس نے قسطوں پر بائیک اس لئیے لیا تھا کیونکہ گھر میں آخری سانسیں لیتی ماں کی نجانے کب طبعیت بگڑ جائے کچھ معلوم نہیں تھا، غربت اس بات کی ہر گز اجازت نہیں دیتی تھی کہ گاڑی پر ماں کو ہسپتال لے جاتا لہذا بائیک ماں کی اٹکتی سانسوں کی جلد بحالی کے لئیے اسپتال پہنچانے کا واحد آسرا تھی ۔


محمد علی گھر کی جانب بڑھ ہی رہا تھا کہ تین نقاب پوش ون ٹو فائیو موٹر سائیکل پر اسکا راستہ روک کر گن پوائنٹ پر بائیک چھین لیتے ہیں ، زندگی کی مہنگی ترین چیز وہ جان کی امان پاتے ہوئے ڈکیتوں کے سپرد کر دیتا ہے۔

(جاری ہے)


بدقسمتی کہوں یا کچھ اور بندہ ناچیز کی اس نصیب کے مارے نوجوان سے جان پہچان تھی۔
ڈکیتی کے فوری بعد اس نے ون فائیو کو اطلاع کے ساتھ ہی ساتھ مجھے بھی فون کر دیا، پولیس موقع پر پہنچ گئی ، جائے وقوعہ کا معائنہ ہوا ، سیف سٹی کے کیمروں کی فٹیج بھی ڈکیتی کا سائرن بجا رہی تھی ۔


محمد علی اس تھانے پہنچ چکا تھا جسکا نام فرشتہ قتل کیس میں دنیا بھر کے میڈیا میں گونجا تھا، اس وقت کیونکہ رات کافی گزر چکی تھی لہذا اسے کل آنے کا حکم دیا گیا۔
وہ دبے دل اور نا چاہتے ہوئے بھی سرکاری بابوؤں کی حکم بجا آوری لاتے ہوئے گھر روانہ ہو جاتا ہے جہاں اسکی کل کائنات اپنی بیماری کو بھلا کر اسکا انتطار کر رہی ہوتی ہے، واقعہ بتانے پر وہ پریشان ہونے کی بجائے بیٹے کا ماتھا چومتی ہے کہ شکر ہے تم محفوظ رہے ورنہ میں کیا کرتی۔


خیر محمد علی جس سے پہلے ہی گھر کا خرچ بمشکل پورا ہوتا تھا اسے بائیک چھن جانے کا ان مٹ روگ لگ چکا تھا کیونکہ اب گھر کے اخراجات کیساتھ ساتھ اسکی اقساط بھی ادا کرنی تھیں۔
سورج کے طلوع ہوتے ہی محمد علی کے دل کی نا امیدی چھٹتی ہے اور وہ شہرہ آفاق تھانے کا رخ کرتا ئے۔ وہاں پہنچ کے گیٹ پر روکا جاتا ہے منت ترلے کرنے کیبعد اسے اندر جانے کی اجازت ملتی ہے۔

تھانے میں پہنچنے پر اسے اپنی بائیک ملنے سے زیادہ اس بات کی فکر لاحق ہوتی ہے کہ کہیں میں نے اپنی ہی بائیک تو ڈکیتی نہیں کر لی۔
صبح سے شام تک لوگ آ رہے جا رہے اور سب کی طرح اسے بھی انتطار کرو صاحب مصروف ہیں کا ٹوکن تھما دیا جاتا ہے ، شام کو اسے کل دوبارہ آنے کا حکم دیا جاتا ہے اور مختصر یہ کہ سلسلہ ایک ہفتہ تک جاری رہتا ہے۔
خواتین و حضرات یہ کوئی پنجاب یا بلوچستان کے دور دراز علاقے کی بات نہیں ہو رہی یہ قانون سازوں کے شہر کا تھانہ تھا ، ظاہر ہے اس لئیے انکے نخرے بھی شاید ہائی کلاس ہوں گے۔


آٹھ روز گزرنے کیبعد محمد علی کی کال آتی ہے کہ تھانے کے ایک بڑے بابو ایف آئی آر دینے پر تو راضی ہو گئے ہیں لیکن!!!!
اس لیکن نے میرا تجسس بڑھایا تو وہ سسکیاں لیتے ہوئے وہ بتانے لگا اور میرے دماغ میں حکمرانوں کی ریاست مدینہ کا نقشہ گھوم رہا تھا ،
خواتین و حضرات آپ کا غور طلب ہو گا مثالی پولیس کے اس مثالی کارنامے پر ، اس نے بتایا کہ پولیس کہہ رہی بائیک ہم تمیں ڈھونڈ دیں گے لیکن درخواست میں سے گن پوائنٹ پر چھیننا نکالنا ہو گا ، تم گمشدگی کی درخواست دے دو۔


کیونکہ اگر ہم نے گن پوائنٹ پر ڈکیتی کی ایف آئی آر دی تو یہ ہماری بد نامی ہو گی اور افسران سرزنش کرتے ہیں لہذا اسے گمشدگی ہی رکھو یہ تمارے لئیے بہتر ہے۔
قارئین کرام یہ قصہ یہی ختم نہیں ہوتا جب اعلی افسران سے دباو پڑنے پر ڈکیتی کی ایف آئی آر ہوتی ہے تو اس نوجوان کو ایس ایچ او صاحب دھمکی لگاتے ہیں کہ تم نے اپنے پتے کھیل لئیے ، اور جن سے فون کروانا ہے کروا لو اب ہم تمیں بتائیں گے کہ علاقہ پولیس کی بات نہ ماننے کا انجام کیا ہوتا ہے کیا تم نے صلاح الدین کا حال نہیں دیکھا اس سے بھی بد تر حال کریں گے تمارا اور کسی کو خبر بھی نہیں ہو گی۔


آخر وردی میں ملبوس یہ بابو تمام تر واقعات کے باوجود کیوں نہیں سدھر رہے؟؟؟ ریاست مدینہ کے دعویدار حکمرانوں کی آنکھوں کے سامنے یہ واقعات ناقابل معافی ہیں۔
غریب کی آہ سے ڈرنے کی بجائے اس پر قہقے لگانے والا یہ ہجوم قہر خداوندی کو دعوت دے رہا ہے۔اللہ ہم سب کو ہدایت دے (آمین)

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :