حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی

ہفتہ 19 ستمبر 2020

Pir Mohammad Farooq Bahawal Haq Shah

پیر محمد فاروق بہاوٴالحق شاہ

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمة اللہ تعالی علیہ کا تعلق برصغیر کے قدیم علمی اور روحانی خاندان سے تھا۔آپ کے والد حضرت شاہ عبدالرحیم رحمة اللہ علیہ ایک عظیم علمی شخصیت تھے۔آپ 4شوال 1114ھ کو دہلی میں پیدا ہوئے۔حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے دور میں مسلمانوں کا سیاسی زوال تیزی سے شروع ہو چکا تھا۔آپ سے تقریبا ایک صدی قبل حضرت مجدد الف ثانی رحمة اللہ تعالی نے برصغیر کے مسلمانوں میں اصلاح کا عمل شروع کیا تھا اور شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے اپنے انداز میں اصلاح کے عمل کو جاری رکھا۔

بعض روایات کے مطابق آپ کی ولادت حضرت مجدد الف ثانی کے انتقال کے تقریبا 80 سال بعد ہوئی۔آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد گرامی سے حاصل کی۔تقریبا 7 سال کی عمر میں قرآن کریم حفظ کر لیا۔

(جاری ہے)

۔آپ نے جب شعور کی آنکھ کھولی تو اس وقت برصغیر میں سیاسی افراتفری عروج پر تھی۔شہنشاہ اورنگ زیب عالمگیر کا انتقال ہو چکا تھا اور اس کے بعد مغلوں کی عظیم سلطنت ٹکڑے ٹکڑے ہونا شروع ہوگئی تھی۔

سارے ملک میں بدامنی کی کیفیت تھی اور مرہٹے ملک کے سب سے بڑے حصے پر قابض ہونے کے بعد مسلمانوں کے پایہ تخت دہلی پر قبضہ کرنے کے خواب دیکھ رہے تھے۔حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے دور میں ایک طرف تو مسلمان سیاسی زوال کا شکار تھے تو دوسری طرف اخلاقی طور پر بھی زوال کی کیفیت تھی۔آرام طلبی، عیش و عشرت،دولت سے محبت، خود غرضی،بے ایمانی، اور اس طرح کی بے شمار بیماریاں مسلمان معاشرے میں سرایت کر چکی تھیں۔

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی بچپن میں ہی یہ محسوس کرنے لگے تھے کہ مسلمانوں کی عظمت رفتہ بحال کرنے کے لئے انقلابی اقدامات کی ضرورت ہے۔حضرت شاہ ولی اللہ کے دور کے حالات پر تبصہ کرتے ہوے علامہ سید سلمان ندوی تحریر کرتے ہیں۔ہندوستان کی یہ کیفیت تھی تب اسلام کا وہ اختر تاباں نمودار ہوا جس کو دنیا شاہ ولی اللہ دہلوی کے نام سے جانتی ہے۔

مغلیہ سلطنت کا آفتاب لب بام پر تھا۔مسلمانوں میں رسومات و بدعات کا زور تھا۔جھوٹے فقرا اور مشائخ جابجا اپنے بزرگوں کی خانقاہ میں مسند بچھائے اپنے بزرگوں کے مزاروں پر چراغ جلائے بیٹھے تھے۔مدرسوں کا گوشہ گوشہ منطق و حکمت کے ہنگاموں سے پر شور تھا۔فقہ اور فتاوی کی لفظی پرستش ہر مفتی کے پیش نظر تھی۔مسائل فقہ میں تحقیق و تدقیق سب سے بڑا جرم تھا۔

عوام تو عوام، خواص تک قرآن کریم کے معانی ومطالب اور احادیث کے احکام و ارشادات، اور فقہ کے اسرار و مصالح سے بے خبر تھے۔شاہ صاحب کا وجود اس عہد میں اہل ہند کے لئے موہبت عظمی اور عطیہ کبری تھا۔(مقالات سلیمان۔جلد دوم)جید اساتذہ سے علم کی تکمیل کے بعد، آپ اصلاح کے کام کی طرف متوجہ ہوئے۔آپ کی پوری حیات طیبہ حدیث کی تعلیم و تدریس و تعلیم تعلیم،اور قرآن کریم کی خدمت میں بسر ہوئی۔

آپ نے ایک طرف تو حدیث کی خدمت کے لئے مسند بچھائی تو دوسری طرف قرآن کریم کی تعلیم کے لئے بھی اپنی تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لائے۔آپ نے کوشش کی کہ مسلمانوں کو اسلام اور قرآن کی اصل روح سے آگاہ کیا جائے۔ان کو رسوم و رواج سے نکال کر صحیح اسلامی معاشرے کی تشکیل کی طرف راغب کیا جائے۔حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی یہ سمجھتے تھے کہ مسلمانوں کی معاشرتی اصلاح بھی ضروری ہے چنانچہ آپ نے سماجی اصلاح کے لئے بھی کام کرنا شروع کیا۔

ہندوؤں کے ساتھ معاشرت کی وجہ سے بے شمار ہندوانہ رسوم، مسلمان معاشرے کا حصہ بننے جا رہی تھی۔آپ نے ان رسوم و رواج کے سامنے بند باندھا تھا۔خصوصی طور پر بیوہ خاتون سے شادی کرنا ایک سنگین معاشرتی مسئلہ بن چکا تھا حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے علی الاعلان اس طرز عمل کی مخالفت فرمائی اور مسلمانوں کو اس حوالے سے قرآن و سنت کے احکامات سے آگاہ کیا۔

آپ نے ایک عظیم سماجی رہنما کی حیثیت سے خوشی غمی کے مواقع پر مسلمانوں کو فضول خرچی سے روکا اور ان کو اپنا مال حلال ان چیزوں پر خرچ کرنے کے بجائے علم کی تکمیل اور تحصیل پر خرچ کرنے کی ترغیب دلائی۔انہوں نے مسلمانوں کو فرقہ بندیوں میں بٹنے کے بجائے امت واحدہ بننے ضرورت پر زور دیا اور انتہاپسندی کے بجائے اعتدال کی راہ پر گامزن کرنے کی کوشش فرمائی۔

۔حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے تصوف کے نام پر ہونے والی غیر شرعی حرکات کے سدباب کے لیے اقدامات کیے اور مسلمانوں میں یہ شعور پیدا کیا کہ اصل تصوف وہی ہے جو قرآن و سنت کے مطابق ہو۔
حضرت شاہ ولی اللہ کا سب سے بڑا کارنامہ قرآن کریم کا فارسی زبان میں ترجمہ ہے۔برصغیر پاک و ہند میں چونکہ فارسی زبان مروج تھی، اور مسلمانوں کو قرآن کریم کی تفہیم میں مشکل ہوتی تھی تو شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے قرآن کریم کا اصل پیغام لوگوں تک پہنچانے کے لیے قرآن مجید کا عربی سے فارسی میں ترجمہ کیا۔

ترجمہ قرآن کی اس عظیم کارنامے کے بعد برصغیر کے مسلمان،اسلام کی اصل روح کی طرف متوجہ ہوئے۔۔قرآن کریم کی خدمت کے ساتھ ساتھ اپ نے حدیث مبارکہ کی خدمت پر بھی بھرپور زور دیا۔جب آپ حرمین شریفین حاضری کے بعد واپس ہندوستان تشریف لائے تو آپ نے اپنی ساری توجہ علم حدیث کی نشر و اشاعت پر صرف فرما دی۔۔فقہی مسائل کا کا فیصلہ آپ قرآن و سنت کی روشنی میں کرتے اور صرف انہیں اقوال کو قبول فرماتے جو کتاب وسنت کے موافق ہوتے۔

اور اگر کسی قول یا فتوی کا تعلق قرآن و سنت کے مطابق نہ ہوتا تو وہ فتوی دینے والی شخصیت کو نظر انداز کرتے ہوئے اس فتویٰ کو بھی مسترد فرما دیتے۔علم حدیث کی خدمت کے دوران اپنے حدیث شریف کی مشہور کتاب موطا امام مالک کی فارسی زبان میں تشریح فرمای۔۔المصفی کے نام سے فارسی زبان میں جبکہ المسوی کے نام سے عربی زبان میں موطا امام مالک کی شرح تحریر فرمائیں۔

آپ موطا امام مالک کو صحاح ستہ کی کتب میں سب سے پہلے درجے میں شمار کرتے تھے۔آپ حدیث مبارک اس مجموعے کے سب سے زیادہ قائل تھے اور درس حدیث میں اس کو اولیت دینے کے داعی تھے۔
یہاں تک کہ آپ نے اپنی اولاد کے نام وصیت میں تحریر فرمایا کہ جب عربی زبان پر قدرت حاصل ہو جائے تو موطا جس کو یحییٰ بن یحییٰ معموری کی روایت سے پڑھائی۔اس سے ہرگز پہلوتہی نہ کریں کیونکہ وہ علم حدیث کی اصل ہے اور اس کا پڑھنا بڑے فیض کا حامل ہے۔

اور ہم کو موطا امام مالک کی سماعت کا شرف، مسلسل طریقہ سے حاصل ہے۔(وصیت نامہ صفحہ 11 بحوالہ تاریخ دعوت و عزیمت جلد 5)
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی مجتہدانہ نشان کے حامل تھے اور آپ کی یہ شان آپ کی تمام کتب خصوصا موطا امام مالک کی دونوں شروع میں ملتی ہے۔آپ نے اپنی تمام کتب اس شان سے لکھیں کہ مروجہ تقلیدی بندھن سے خود کو آزاد رکھا اور اپنی مجتہدانہ رائے کا اظہار فرمایا۔

۔حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی ترجمہ قرآن کے بعد سب سے مشہور کتاب حجة البالغہ ہے۔جید علمائے کرام اس کو احیاء العلوم کے مرتبے کی کتاب قرار دیتے ہیں۔حجة البالغہ میں حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے اسلامی عقائد اور اسلامی تعلیمات کی خوب
وضاحت کی ہے اور مختلف دلائل سے اسلامی احکامات اور عقائد کی صداقت کو بیان کیا ہے۔آپ نے اسلامی ریاست اور اس کے نظام کو چلانے کے حوالے سے انتہائی قیمتی اور منفرد کتاب ازالتہ الخفاء عن خلافة الخلفاء فارسی زبان میں تھی لیکن بعد میں اردو ترجمہ ہو کر بھی قارئین کے ذوق کی تسکین کا باعث بنی۔

اس امر پر مولفین اور علماء متفق ہیں کہ شاہ ولی اللہ اپنی کوششوں کے باعث اپنے دور میں غزالی اور مجدد الف ثانی کی طرح مجدد کے منصب پر فائز تھے۔یہ حقیقت ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں میں زوال کے بعد بیداری کی لہر پیدا ہوئی اس میں حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے افکار کا بنیادی کردار ہے۔
علمی کام کے ساتھ ساتھ انھوں نے مسلمانوں کی سیاسی حیثیت کو مضبوط کرنے کے لئے بھی متعدد اقدامات کیے۔

آپ کی حیات طیبہ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ آپ صرف مسند ارشاد کے آدمی نہ تھے بلکہ مرد میدان بھی تھے۔آپ مسند علم پر بیٹھ کر ایک طرف تو آپ نے اپنی کتب اور تحریروں کے ذریعے مسلمانوں کے افکار و نظریات کو متاثر کیا۔تو دوسری طرف مسلمانوں کی سیاسی حالت کو بیدار کرنے اور بہتر کرنے کے لئے مختلف اوقات میں مختلف اقدامات کیے۔آپ نے مسلمانوں کی سیاسی عظمت رفتہ کو بحال کرنے کے لیے اپنے دور میں مختلف بادشاہوں اور امراء سے خط و کتابت بھی کی۔

مسلمانوں کے سیاسی زوال کو دیکھتے ہوئے آپ نے احمد شاہ ابدالی کو متعدد خطوط تحریر کیے۔اور احمد شاہ ابدالی نے نے پانی پت کے میدان میں مرہٹوں کو شکست فاش دی ان میں حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی فکری رہنمائی بھی شامل تھی۔احمد شاہ ابدالی کے علاوہ آپ ہمسایہ ممالک کے امراء مسلمان حکمران اور ہندوستان کے امراء کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہتے اور ان کو مسلمانوں کی سیاسی رہنمائی کے لئے رہنما اصول وضع کر کے بیان فرماتے رہتے۔

علمی کام کے ساتھ ساتھ عام مسلمانوں میں سیاسی شعور بیدار کرنے کی کوشش میں مصروف عمل رہے۔حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ان تمام رسوم و رواج کے سخت خلاف تھے جو اسلامی عقائد اور قرآن و سنت سے متصادم تھے۔آپ ایک مجدد،کامیاب مبلغ،بے مثال مصنف،اپنے دور کے عظیم محدث،اور قرآن کریم کے منفرد طرز کے شارح بھی تھے،آپ نے اپنے قول و عمل سے ہندوستان کے سیاسی اور علمی افق پر انمٹ نقوش ثبت کیے۔

غلامی کے گڑھے میں گرنے والی مسلمان قوم کو اس قعر مزلت سے نکالنے کے لیے آپ کی تجدیدی خدمات تاریخ کے صفحات پر ثبت ہیں۔ہندوستان میں جب بھی مسلمانوں کے عروج کی داستان لکھی جائے گی حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے علمی اور سیاسی افکار کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکے گا۔حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی 62 سال کی عمر میں محرم الحرام 1176 کو دہلی میں انتقال فرمایا۔

۔اپ نے اپنی اولاد کو بھی علم دین کی دولت سے مالا مال فرمایا اور آپ کی تمام اولاد اپنے اپنے دور کے ثقہ علماء ومحدثین میں شمار ہوتے تھے۔آپ کے بڑے صاحبزادے شاہ عبدالعزیز فارسی اور عربی زبان کے ماہر استاد تھے۔اور مسلسل ساٹھ سال علم حدیث حدیث تقسیم کرتے رہے۔آپ کے دوسرے صاحبزادے حضرت شاہ رفیع الدین نے سب سے پہلے قرآن مجید کا اردو میں ترجمہ کیا۔آپ کے تیسرے صاحبزادے شاہ عبدالقادر دہلوی کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے قرآن کریم کی پہلی اردو تفسیر تحریر فرمائی۔جب آپ کی آپ کے چوتھے صاحبزادے شاہ عبدالغنی بھی اپنے زمانے کے بہت بڑے عالم تھے۔
خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :