یوم یکجہتی کشمیر

ہفتہ 5 فروری 2022

Pir Mohammad Farooq Bahawal Haq Shah

پیر محمد فاروق بہاوٴالحق شاہ

تحریک آزادی کشمیر اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ زیر بحث رہنے والا موضوع ہے۔اقوام متحدہ کے ایوانوں سے لے کر دنیا کی ہر اہم پارلیمنٹ تک،ہر جگہ اسکے چرچے ہیں۔اگر میں یہ کہوں گا کہ مقبوضہ کشمیر دنیا کے سب سے بڑے انسانی المیہ سے دوچار ہیتو یہ غلط نہ ہوگا۔یہ ایک ایسی غیر علانیہ جیل ہے جس میں بلامبالغہ لاکھوں لوگ اپنی زندگی قیدی کی طرح گزار رہے ہیں۔

مقبوضہ کشمیر انسانی ضمیر پر ایسا بوجھ ہے جسے اتارے بغیر انسانیت کو بھی سکون نصیب نہیں ہو سکے گا۔ مقبوضہ کشمیر عالمی امن کے دعوے داروں کے منہ پر ایک ایسا سوالیہ نشان ہے جو ہمیشہ ان کے دوہرے معیار کی طرف اشارہ کرتا رہے گا۔مقبوضہ کشمیر امن کی آشا ر کے دعوے داروں کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ہے۔مقبوضہ کشمیر کی صبح کا آغاز بھی ظلم سے ہوتا ہے اور وہاں کا سورج ان مظالم کا گواہ بن کر غروب ہوتا ہے۔

(جاری ہے)

یہاں کی کء نسلیں بھارتی بربریت کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں۔مقبوضہ کشمیر کے قبرستان آزادی کے متوالوں سے بھرے پڑے ہیں۔وہاں کی جیلیں کشمیر بنے گا پاکستان کا نعرہ لگانے والوں سے بھر چکی ہیں۔بھارت اپنی تمام تر فوجی طاقت کے باوجود کشمیریوں کی آواز حریت کو نہیں دبا سکا۔5 فروری کا دن مقبول بٹ کو یاد کرنے کا دن ہے۔5 فروری کا دن شبیر شاہ کو یاد کرنے کا دن ہے۔

5فروی کا دن یاسین ملک کی قربانیوں کو سلام عقیدت پیش کرنے کا دن ہے۔پانچ فروری کا دن رضوان وانی کی شہادت کی یاد تازہ کرنے کا دن ہے۔مقبوضہ کشمیر کے ہر گاؤں میں کوئی نہ کوئی رضوان وانی موجود ہے۔یہاں کی گلی گلی میں یاسین ملک کا جذبہ جوان ہے۔سید علی گیلانی جنہوں نے اپنی ساری زندگی مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے لئے صرف کی یہ انہیں بھی یاد کرنے کا۔

جنہوں نے بستر مرگ پر بھی کشمیر کی آزادی کی بات کی۔
کشمیر کی ریاست برصغیر پاک و ہند کے شمال مغرب میں واقع ہے جس کا کل رقبہ 69547 مربع میل ہے۔ 1947 کے بعد ریاست جموں کشمیر کو تقسیم کردیا گیا اس وقت بھارت 39102 مربع میل پرجبری طور قابض ہے جو ”مقبوضہ کشمیر“ کہلاتا ہے۔ اس کا دارالحکومت سری نگر ہے ’بقیہ علاقہ آزاد کشمیر کہلاتا ہے جو 25 ہزار مربع میل رقبہ پر پھیلا ہوا ہے؛ اور اس کا دارالحکومت مظفر آباد ہے۔

ریاست کی کل آبادی ایک کروڑ کے قریب ہے جس میں سے 40 لاکھ آزاد کشمیر میں ہیں۔
ہندو راجاوٴں نے تقریباً 4 ہزار سال تک اس علاقے پر حکومت کی۔ 1846 ء میں انگریزوں نے ریاست جموں کشمیر کو 75 لاکھ روپوں کے عوض ڈوگرہ راجا غلام سندھ کے ہاتھوں فروخت کر دیا۔ کشمیر کی آبادی 80 فیصد مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ ہندو راجا نے بزور شمشیر مسلمانوں کو غلام بنا رکھا تھا۔

تقسیم ہند کے بعد ہندو مہاراجہ ہری سنگھ نے مسلمانوں کی مرضی کے خلاف 26 اکتوبر 1947 کو بھارت کے ساتھ الحاق کا اعلان کر دیا اس کے نتیجے میں پاکستان اور بھارت میں جنگ کا آغاز ہوا۔بر صغیر کے دو بڑے ملکوں پاکستان اور بھارت کے درمیان اب بھی یہی مسئلہ تنازعے کی صورت میں برقرار ہے اور دونوں ممالک اس سلسلے میں ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑے ہیں۔

اس تنازعہ کی وجہ دونوں ممالک کء جنگیں لڑ چکے ہیں۔کشمیر کا بچہ بچہ آج بھی اسے پاکستان کا حصہ ہی تسلیم کر تا ہے اور وہاں کشمیر کی آزادی کے نام پر شہادت پانے والوں کو آج بھی پاکستان پرچم میں لپیٹ کر سپرد خاک کیا جا تا ہے۔مقبوضہ کشمیر کے ہر گھر میں قربانیوں کی ایک الگ داستان ہے۔ ویسے تو کشمیری حریت پسند ’اپنی آزادی کی یہ جنگ گزشتہ 73 سال سے بدستور لڑرہے ہیں جس کی پاداش میں 40 لاکھ سے زائد کشمیری بے گھر ہو چکے ہیں جبکہ ڈیڑھ لاکھ سے زائد لوگ آزادی کی اس راہ میں جام شہادت نوش کرچکے ہیں۔

73 سال سے وہاں تعینات بھارتی فوجیوں‘ اسپیشل فورسز اور پولیس نے، جن کی تعداد آج 8 لاکھ سے زائد ہو چکی ہے ’مسلمان نہتے کشمیریوں پر عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے۔اس جنت نظیر وادی میں روز خون کی ہولی کھیلی جاتی ہے۔روزانہ خواتین کی عصمتیں تار تار کی جا رہی ہیں، ماوٴں کے بچے انکی گودوں سے چھینے جا رہے ہیں، بہنوں سے ان کے بھاء جدا کیے جارہے ہیں۔

سہاگنوں کے سہاگ چھینے جا رہے ہیں ’لاکھوں بچے یتیم ہو رہے ہیں، مگر آج بھی ان کشمیریوں کے لب پر ایک ہی صدا گونج رہی ہے: پاکستان زندہ باد۔اور کشمیر بنے گا پاکستان۔
جہاد کشمیر اور غازی اسلام حضرت پیر محمد شاہ
جہاد کشمیر کے حوالے سے غازی اسلام حضرت پیر محمد شاہ رحمتہ اللہ علیہ نے عملی طور پر جہاد میں حصہ لیا۔

کی کفار واصل جہنم کیے۔آپ کے ایک خادم نے اپنے بندوق کی گولیوں سے بھارت کا ایک ہوائی جہاز بھی مار گرایا جس کا اعتراف اس وقت کی حکومت اور افواج کے سربراہان نے تحریری طور پر کیا۔جہاد کشمیر کے ساتھ پاکستان کے مسلمانوں کی ایک جزباتی وابستگی ہے جو ہمیشہ برقرار رہے گی۔
دوسری طرف ہر گزرتے دن کے ساتھ
بھارتی افواج کے مظالم میں بے پناہ اضافہ ہو رہا ہے جس کے تحت نہ صرف مرد، خواتین اور بچوں کو شہید کیا جا رہا ہے بلکہ خواتین کی عصمتیں لوٹی جا رہی ہیں ’جبکہ کشمیر کے نونہال مستقبل سمیت نوجوانوں کی آنکھیں نکالی جا رہی ہیں اور ان پر ربڑ اور لوہے کی وہ گولیاں برسائی جا رہی ہیں جن کے نتیجے میں لاتعداد افراد بلاناغہ معذور ہو رہے ہیں۔

مگر ماسوائے اللہ کے، ان کا بھری دنیا میں کوئی ان کے حقیقی حال سے واقف نہیں۔عالمی امن کے ٹھیکدار،عالمی طاقت کے توازن برقرار رکھنے والے ادارے اور اقوام متحدہ بھی خاموش تماشائی بن کر رہ گیا ہے اور بھارتی ظلم و بربریت کا مشاہدہ کر رہا ہے جبکہ انسانی حقوق کا چیمپئن امریکا‘ بھارت سے تجارتی تعلقات بہتر بنانے کے لیے اس سے پینگیں بڑھارہا ہے اور شاید وہ مقبوضہ کشمیر کو بھارت ہی کا حصہ تسلیم کرچکا ہے، وہ کسی نہ کسی طریقے سے بھارت کی سرپرستی کرنے میں مصروف عمل ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :