آن لائن احتجاجی تحریک

جمعرات 17 فروری 2022

Pir Mohammad Farooq Bahawal Haq Shah

پیر محمد فاروق بہاوٴالحق شاہ

ان دنوں پاکستانی سیاست کی باسی کڑی میں پھر سے ابال آیا ہوا ہے۔دن رات ملاقاتوں کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے بزرگ راہنماؤں نے قیادت بچوں سے لیکر اپنے ہاتھ میں لے لی ہے۔نواز شریف اور زرداری طرز سیاست کی باتیں پھر سے سناء دے رہی ہیں۔ایک دوسرے کو سڑکوں پر گھسیٹنے والے باہم شیر و شکر ہو رہے ہیں۔

جناب میاں شہباز شریف ظہور الٰہی پیلس کی یاترا کر چکے ہیں۔جبکہ چوہدری پرویز الٰہی سیاسی کھچڑی کیلے سامان اکٹھا کرنے کا مبہم سا اشارہ بھی دے چکے ہیں۔۔ایم کیوایم کا وفد بھی لاہور میں ڈیرے ڈالے ہوے ہے۔پی ڈی ایم کے تن مردہ میں بھی زندگی کے آثار دکھائی دئیے ہیں۔مسلم لیگ نون کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی نے بھی حسب سابق تمام فیصلوں کا اختیار ایک مرتبہ پھر میاں نواز شریف کو دے دیا۔

(جاری ہے)

لندن میں علاج کی غرض سے مقیم پاکستان مسلم لیگ نون کے قائد بھی احتجاجی تحریک کے بجائے عدم اعتماد کی طرف راغب ہوتے نظر آتے ہیں۔جبکہ پاکستان کے سب سے قدیم ور وضع دار سیاسی خاندان کے سربراہان چوہدری شجاعت حسین اور چودھری پرویز الٰہی انتہاء دانش مندی سے اس کھیل میں اپنا متوازن کردار نمایاں کیے ہوے ہیں
تاہم اپوزیشن کی بیدلی سے جاری سرگرمیاں دیکھ کر یہ محسوس ہوتا ہے کہ کرونا نے ان کی طبیعتوں پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔

کرونا کے دوران جس طرح ساری دنیا کا نظام برقی لہروں پر منتقل ہوا شاید اپوزیشن کا احتجاج بھی اب گلیوں اور سڑکوں کے بجائے انٹرنیٹ پر ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔خوشی کے جزبات کا اظہار بھی ٹویٹر پر ہوتا ہے۔اور مزاحمتی بیانیہ بھی ٹویٹر سے ہی جاری ہوتا ہے۔تمام تر سیاسی درجہ حرارت سوشل میڈیا کی مرہون منت ہے جبکہ حکومت کے لئے گلیاں سونی چھوڑ دی گئی ہیں جن میں مرزا یار پھر رہا ہے۔

نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ اپوزیشن کے بجائے حکومت جلسے کرنے پر اتر آئی ہے۔جس اپوزیشن نے میدان سیاست گرم کرنا تھا وہ ڈرائنگ روم میں بند ہے اور جس حکومت نے دفتر میں بیٹھ کر حکومت کرنی تھی وہ جلسوں کے میدان سجا رہی ہے۔
خداوندا یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں
کہ درویشی بھی عیّاری ہے، سُلطانی بھی عیّاری
یہاں درویشی کی جگہ اپوزیشن پڑھ لیں
جدید دنیا میں سوشل میڈیا کے ذریعے انقلاب کوئی انہونی بات نہیں۔

ہمارے سامنے مصر اور تیونس کی مثالیں موجود ہیں جہاں پر نوجوانوں نے سوشل میڈیا کے ذریعے وہ کر دکھایا جو ناممکن نظر آتا تھا لیکن ہماری سیاسی جماعتیں شاید سارا انحصار ہیں زبانی جمع خرچ پر کرنا چاہ رہی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ حکومت کو دور دور تک کوئی خطرہ نظر نہیں آتا۔اور میں ایک مرتبہ پھر یہ بات دہرانا چاہتا ہوں کہ حکومت اپوزیشن کے موجودہ اقدامات سے کسی خطرہ سے دوچار نہیں البتہ اپنی کارکردگی کے بوجھ تلے دب کر یہ دم توڑ جائے تو تجھے دوسری بات ہے۔


اگر اپوزیشن حکومت کو گرانے میں سنجیدہ ہو تو اعداد و شمار کا کھیل انتہائی سادہ ہے۔سینٹ کے 100 ارکان میں سے حکومت کے پاس 47 اراکین ہے جبکہ اپوزیشن کے پاس 53 دلچسپ بات یہ ہے کہ مسلم لیگ نون کے ٹکٹ پر منتخب ہونے والے دلاورخان گروپ کے چھ سینٹرز ہمیشہ اپنی مرضی کرتے ہیں اور مسلم لیگ نون کی قیادت ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔اگر اپوزیشن اپنے عمل میں سنجیدہ ہوتی تو چیئرمین سینیٹ ہٹانا ان کے دائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔

قومی اسمبلی کا جائزہ لیں تو 172 کے مقابلے حکومت کے پاس 182 اراکین ہیں۔محض 11 ارکان کی مدد سے وفاقی حکومت گراء جا سکتی ہے اور یہ کام ایم کیو ایم اور قاف لیگ کی مدد سے بخوبی کیا جا سکتا ہے۔پنجاب اسمبلی قاف کے لیگ کے 10 ارکان اور راہ حق پارٹی کا ایک رکن مل کر بزدار حکومت کا خاتمہ کر سکتا ہے لیکن اس کیلے جس یکسوئی،لگن اور صاف نیت کی ضرورت ہے موجودہ اپوزیشن اس سے محروم ہے۔

انکی سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ جب حکومت کو ٹف ٹائم دینے کا وقت آتا ہے تو قومی اسمبلی سے ن لیگ کے سربراہ قائد حزب اختلاف غائب ہوتے ہیں اور سینیٹ سے پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے قائد حزب اختلاف حکومت کو واک اوور دے دیتے ہیں۔اسکا صاف مطلب ہے کہ اپوزیشن حکومت کو گرانے میں سنجیدہ نہیں۔اگلے روز پی ڈی ایم کے اجلاس کے بعد میڈیا ٹاک نے اپوزیشن کی حکمت عملی کے غبارے سے ہوا نکال دی۔

ترجمانی کا سارا بوجھ مولانا فضل الرحمان کے کندھے پر ڈال دیا گیا۔سچ بات تو یہ ہے کہ پی ڈی ایم اتحاد مولانا کے مرہون منت ہے۔افرادی قوت کی فراہمی سے لیکر صحافیوں کے کڑوے کسیلے سوالات کے جوابات دینے تک مولانا نے ہی پی ڈی ایم کا بھرم رکھا ورنہ دیگر قائدین کا حال تو سبھی کے سامنے ہے۔مسلم لیگ ن کے سئینر رہنما سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی سے ایک ٹی وی انٹرویو کے دوران بار بار متبادل حکمت عملی کے متعلق سوال کیا گیا تو وہ ایں بائیں شائیں کرکے رہ گیے۔

دوسری طرف حکومت بھی اپنی جگ ہنسائی کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتی،عوام مہنگائی کے بوجھ تلے سسک رہے ہیں،بجلی کی قیمت میں 3 روپے فی یونٹ اضافہ کر دیا گیاہے۔کھاد کے بحران نے حکومتی دعوؤں کی قلعی کھول دی ہے،شوگر بحران ایک مرتبہ پھر سر اٹھا رہا ہے،کاروبار حکومت منجمد ہے،افسر شاہی ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھی ہے،ان حالات میں وزیراعظم کو کیا سوجھی کہ انہوں نے وزیروں میں اسناد تقسیم کرکے ایک نیا پنڈورا باکس کھول دیا۔

سیاسی راہنماؤں کی اس طرح کی ناپختہ حرکتوں سے یہ تاثر گہرا ہو رہا ہے کہ ملک قیادت کے بحران کا شکار ہے۔حکومت ویژن سے عاری جبکہ اپوزیشن حکمت سے خالی ہے۔حکومت نے تجربہ کار سیاسی راہنماؤں کو مشاورت کے دائرے سے خارج کر رکھا ہے تو اپوزیشن جماعتوں نے بھی مخلص،ازمودہ کار اور دلیر راہنماؤں سے فاصلہ اختیار کر رکھا ہے۔بلاول اور مریم اپنے اپنے بزرگوں کی پالیسیوں کے اسیر ہیں۔

جسکا منطقی نتیجہ یہ ہے کہ ملک ایک بے سمت گھوڑے کی طرح سرپٹ دوڑ رہا ہیاور حکومت کا نہ ہاتھ باگ پر ہے نہ پاؤں رکاب میں ہے۔ان حالات میں اول تو حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا پیش کیا جانا ہی مشکل ہے۔اور اگر پیش ہوبھی گء تو اسکی کامیابی ناممکن نظر آتی ہے۔لیکن اس ساری کشمکش سے بہت دور بیٹھے ہوے فیصلہ سازوں کے ہاں یہ سوال سرے سے موضوع بحث ہی نہیں ہے کہ اپوزیشن کا برقی احتجاج کیا رنگ لاے گا یا عمران حکومت کی بیڈ گورننس کا کیا انجام ہوگا،وہاں تو راوی چین لکھ رہا ہے اگر کوئی معاملہ زیر بحث ہے تو یہ کہ مسلح افواج کا آئندہ سربراہ کون ہوگا۔مستقبل کا سیاسی منظر نامہ اسی فیصلے سے جڑا ہواہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :