سانحہ اے پی ایس۔ جس کے زخم آج بھی تازہ ہیں

جمعہ 17 دسمبر 2021

Pir Mohammad Farooq Bahawal Haq Shah

پیر محمد فاروق بہاوٴالحق شاہ

جوانوں کے کندھوں پر بزرگوں کے جنازے اٹھتے ہیں تو کسی کو عجیب نہیں لگتا کہ یہی دستور زمانہ ہے۔جب ملک حالت جنگ میں ہو تو بزرگوں کے کندھوں پر کڑیل جوانوں کے جنازے قبرستان کی طرف سفر کر رہے ہوتے ہیں۔تب بھی اسکوغیر معمولی خیال نہیں کیا جاتا کہ جنگوں میں ایسا ہی ہوا کرتا ہے لیکن جب بوڑھوں اور جوانوں کے کندھوں پر معصوم بچوں کے جنازے ہوں اس کیفیت کو کیا نام دیا جاتا ہے تاریخ اس پر خاموش ہے۔

معلوم تاریخ میں بہت کم ایسا ہوا ہے کہ بد ترین جنگی حالات میں بھی معصوم بچوں اور خواتین کو نشانہ بنایا جائے لیکن پاکستانی قوم نے وہ وقت بھی دیکھا جب معصوم پھولوں جیسے بچوں کے جنازے قطار اندر قطار پڑے تھے۔ یہ تمیز کرنا مشکل تھا کہ گلاب بچوں پر ڈالے گئے ہیں یا بچے گلوبوں کی زینت بنائے گئے ہیں۔

(جاری ہے)

سانحہ اے پی ایس نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا تھا اور اس درد کی ٹیسیں دنیا بھر میں محسوس کی گئی تھیں۔


16دسمبر2014کا دن معمول کے مطابق طلوع ہوا تھا۔ سینکڑوں بچے اپنی ماؤں سے مل کر، بستے اپنے کندھوں پر ڈالے خوشی خوشی سکول کی طرف رواں دواں تھے اور کسی کو یہ احساس تک بھی نہیں تھا کہ کتنا دلخراش سانحہ ان کا انتظار کر رہا ہے۔ ان بچوں میں خولہ نامی ایک معصوم بچی بھی شامل تھی جس کا آج سکو ل میں پہلا دن تھا۔ خولہ کئی دنوں سے والدین سے ضد کر رہی تھی کہ اس کو بھی اپنے بھائی کے ہمراہ سکول جانا ہے۔

آج اس کا پہلا دن ہی اس کی زندگی کا آخری دن ثابت ہوا۔یہ شائد پاکستان کی سب سے کم عمر شہید ہے جس نے دہشت گردوں کے ہاتھوں جام شہادت نوش کیا۔ شہدائےAPS میں فہدنام کا ایک دلیر بچہ بھی شامل تھا۔ دہشت گردوں کے حملہ کے وقت اس نے نہ صرف اپنے حواس بحال رکھے بلکہ کلاس روم کا عقبی دروازہ کھول کر اپنے ہم جماعتوں کی جان بچائی اور خود شہادت کے بلند مرتبہ پر فائز ہو گیا۔

ہم سکول کی پرنسپل طاہرہ قاضی کی شجاعت کو کیسے فراموش کر سکتے ہیں جنہوں نے خون کے پیاسوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا کہ بچوں کو کیوں مار تے ہو مجھ سے بات کرو میں ان کی ماں ہوں ان کے دلیرانہ اقدامات کو قوم کیسے بھلا سکتی ہے۔144شہادتوں میں سے محض ایک یا دو شہدا کا تذکرہ محض نمونہ کے طور پر کیا ہے ورنہ 144گھرانوں پر جو قیامت ٹوٹی اس قیامت کی الگ الگ کہانی ہے جو شائد ہی کبھی ذہنوں سے محو ہو سکے۔


16دسمبر کا دن ویسے بھی پاکستان کی تاریخ میں کوئی ایسا خوشگوار دن نہیں رہا۔ اس دن اغیار کی سازشوں اور اپنوں کی نالائقیوں کے باعث مشرقی پاکستان ہم سے جدا ہوا لیکن ان دہشت گردوں نے خاص طور پر اس کے لئے اسی دن کا انتخاب کیا کہ جو قوم پہلے ہی جدائی کے زخموں سے چور ہے اس پر ایک اور کچوکا لگ جائے۔ اس سانحہ عظیم کو گزرے قریب ۵ سال ہونے کو ہیں لیکن اس کا کرب آج بھی ویسے ہی محسوس کیا جارہا ہے جو پہلے دن تھا۔

پشاور کے قلب میں واقع آرمی پبلک سکول کے چمن زار میں بکھری معصوم بچوں کی لاشیں، تڑپتے والدین، روتے ہوئے رشتہ دار اور غم و اندوہ میں مبتلا پوری قوم آج بھی اس درد کو محسوس کر رہی ہے۔ا س سانحہ کا ایک اور المناک پہلو یہ ہے کہ یہ حملہ ایک تعلیمی ادرے پر کیا گیا۔بد ترین جنگوں میں بھی مذہبی عبادت گاہوں اور تعلیمی اداروں پر حملوں سے گریز کیا جاتا ہے لیکن اس سانحہ عظیم کے لئے ایک تعلیمی ادارے کا انتخا کیا گیا۔

سانحہ APSکے کچھ عرصہ بعد باجوڑ کے ایک دینی مدرسہ پر بھی حملہ کیا گیا تھا اور سینکڑوں بچوں کو لقمہ اجل بنا دیا گیا تھا۔تعلیمی اداروں پر حملہ انسانیت سوز مظالم میں سے ایک ایسا ظلم ہے جو دنیا کے کسی مذہب یا معاشرے میں قابل قبول نہیں۔ 16دسمبر2014میں جب یہ سانحہ وقوع پذیر ہوا تو اس وقت ملک کے سیاسی افق پر ایک خاص قسم کی بے چینی پیدا ی گئی تھی۔


سانحہ اے پی ایس اور سیاسی قیادت کا کردار
مسلم لیگ ن کو حکومت سنبھالے محض ایک سال کا عرصہ ہو اتھا۔جہاں ایک طرف تو تعمیر و ترقی کے کئی منصوبے شروع ہونے جارہے تھے تو دوسر ی طرف غیر ملکی سرمایہ کاری کی بھی آمد آمد تھی۔ لیکن اس دوران عمران خان کی طر ف سے حکومت کے خلاف دھرنا اور احتجاج شروع کر دیا گیا ساتھ ہی سانحہ ماڈل ٹاؤن روپذیر ہوا۔

جس سے پورے ملک میں بے چینی کی ایک لہر دوڑ گئی۔ اس وقت کے وزیر اعظم میاں نواز شریف اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ پائے جانے والے شدید تناؤ کے باوجود تمام مصروفیات کو ترک کر کے پشاور تشریف لے گئے۔ ایک طرف زخمیوں کی عیادت کی دوسری طرف ریاستی اداروں کے شانہ بشانہ کھڑا ہونے کے عزم کا اظہار کیا۔اس وقت کی تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں نے بالغ نظری کا ثبوت دیتے ہوئے اپنی تمام سیاسی مخالفتوں کو پس پشت ڈال کر حکومت اور فوج کے شانہ بشانہ کھڑے ہو گئے۔

اس سانحہ کے بعد حکومت کی طرف سے بلائی گئی آل پارٹیز کانفرنس میں میاں نواز شریف کے شدید ناقدین جن میں مسلم لیگ ق کے چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الہی جبکہ عوامی نیشنل پارٹی کے اسفند یار ولی پاکستان پیپلز پارٹی کے بلاول بھٹو زرداری اور آصف علی زرداری، جمیعت علماء اسلام کے مولانا فضل الرحمن، تحریک انصاف کے عمران خان سمیت تمام سیاسی قوتیں ایک میز پر اکٹھی ہو گئیں۔


سانحہ اے پی ایس اور مذہبی قیادت کا کردار
دوسری طرف پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ تمام مذہبی قوتیں حکومت کے شانہ بشانہ کھڑی نظر آئیں۔ تمام بڑے دینی مدارس جب میں دارالعلوم محمدیہ غوثیہ بھیرہ شریف جس کے سربراہ پیر محمد امین الحسنات شاہ،اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن ڈاکٹر ابوالحسن محمد شاہ الازہری، دارالعلوم کراچی کے مفتی رفیع عثمانی اور مولانا مفتی تقی عثمانی، ادارہ منہاج القرآن کے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری، وفاق المدارس کے مولانا حنیف جالندھری، تنظیم المدارس اہلسنت کے مفتی منیب الرحمن، وفاق المدارس شیعہ اور وفاق المدارس سلفیہ کے سربراہان سمیت تمام چھوٹے اور بڑے ادارے حکومت کی پشت پر کھڑے ہو گئے۔

ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے آگے بڑھ کر دہشت گردی کے خلاف کئی جلدوں پر مشتمل ایک مربوط اور مبسوط فتوی جاری کیاجس کوملکی او ربین الاقوامی سطح پر خوب سراہا گیا۔ ان کے اس فتوی کی بدولت مذہبی طبقہ کو دہشت گرد عناصر سے دوری اختیار کرنے میں مدد ملی۔ اس حقیقت کے باوجود کہ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی حکمت سے عاری تقریروں، بلاجواز الزامات اور فکر و تدبر سے عاری حکمت عملی کی وجہ سے سیاسی ماحول پراگندہ تھا۔

عمران خان کنٹینر پرکھڑے ہو کر روزانہ شرفا کی پگڑیاں ا چھالتے تھے جس کے باعث کوئی شریف آدمی یا معزز سیاستدان ان سے بات کرنے کا روادار نہ تھا۔ تاہم میاں نواز شریف کی وسیع الظرفی اور سیاسی تدبر کی بدولت وہ بھی اس مشترکہ پلیٹ فارم پر آن بیٹھے۔
سانحہ اے پی ایس اور سکیورٹی اداروں کا کردار
 حکومت اور سیاسی قوتوں کے ساتھ ساتھ ریاستی اداروں نے بھی اس شروع ہونے والی جنگ میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا پاک فوج کے اعلیٰ افسران سے لے کر عام سپاہیوں تک پولیس کے ایڈیشنل آئی جی سطح کے افسران سے لے کر کانسٹیبل تک رینجرز اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہر سطح کے افسران نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر کے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنا کردار ادا کیا۔


اس کیلئے قوم اور افواجِ پاکستان نے ایک کامیاب جنگ لڑی ہے۔اے پی ایس واقعے کے بعد پیش آنے والے واقعات نے ثابت کیا ہے کہ زند ہ قومیں چیلنجز سے سر خرو ہو کر اُبھرتی ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف اس کامیاب جنگ میں 46000مربع کلو میٹر کا ایریا کلئیر کیا گیا،18000سے زائد دہشت گرد مارے گئے،250ٹن سے زائد بارودقبضے میں لیا گیا،75000اسلحہ ریکور کیا گیا کہ جولاکھوں جانوں کے نقصان کا باعث ہو سکتا تھا۔

50بڑے آپریشن جبکہ ڈھائی لاکھ سے زائدIBOsکئے گئے اور1200سے زائد چھوٹے اور بڑے آپریشن کئے گئے۔ لیکن بارڈر کی دوسری جانب حالات مختلف تھے۔ پاکستان نے جہاں 2611کلو میٹر بارڈر فینسنگ کا بیڑہ اُٹھایا، بارڈر فورٹس اور ٹرمینل قائم کیے۔ دوسری جانب بارڈر پر7سے8کلو میٹر تک صرف ایک پوسٹ موجود تھی۔لیکن پاکستان کے بروقت اقدامات کے باعث افغانستان کے اندر کے حالات و واقعات کے اثرات سے پاکستان محفوظ رہا۔


سانحہ اے پی ایس میں پولیس کا کردار
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں چاروں صوبوں کی پولیس نے بے مثال قربانیاں دی۔سانحہ اے پی ایس کے کے بعد نیشنل ایکشن پلان کے تحت ملک بھر میں پولیس نے کاروائیاں کیں۔بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ پولیس نے پہلی حفاظتی دیوار ہونے کا حق ادا کیا۔محتاط اعدادوشمار کے مطابق اب تک 70ہزار سے زائد پاکستانی دہشت گردی کی جنگ میں اپنی جان ملک کے لئے قربان کر چکے ہیں۔

مستند اعداد و شمار کے مطابق صوبہ خیبر پختواہ میں اب تک پولیس کے1655سے زائد افسرا ن اور جوان اپنی جانوں کے نذرانہ پیش کر چکے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پنجاب پولیس نے 1495سے زائد قربانیاں دی ہیں جبکہ لاہور پولیس کے شہید ہونے والے افسران اور جوانوں کی تعداد 314 کے قریب ہے۔لاہور پولیس کے افسران اور جوانوں نے ملک و قوم اور عوام کی جان و مال کی حفاظت میں تاریخ ساز قربانیاں پیش کیں۔

ڈی آئی جی کیپٹن(ر) احمد مبین، ایس ایس پی زاہد محمود گوندل اور لاہور پولیس کے سینکڑوں جوان شہید ہوئے۔ پولیس کے ایک ڈی آئی جی،ایک ایس ایس پی، ایک ایس پی،4ڈی ایس پی رینک کے اعلیٰ افسران جبکہ06انسپکٹرز،34سب انسپکٹرز،28اسسٹنٹ سب انسپکٹرز،30ہیڈکانسٹیبل،208کانسٹیبل اور 01ٹریفک وارڈن نے فرض کی راہ میں جام شہادت نوش کر چکے ہیں۔
شہدائے اے پی ایس کی داد رسی
کیاAPSشہدا کی دادرسی کی گئی؟ سوال تو یہ ہونا چاہیے۔

تحقیق سے پتا چلا کہ جی ہاں دادرسی کی گئی۔ اگرچہ کوئی بھی مالی فائدہ کسی جان کا مداوا نہیں کر سکتا لیکن پھر بھی حتی الوسع کوشش کی گئی کہ لواحقین کی ہر ممکن مدد کی جائے۔ان کو نہ صرف پلاٹس دئیے گئے بلکہ نقد رقوم بھی دی گئیں۔متاثرین اور ورثاء کے لیے تاحیات علاج معالجے کی سہولت، بچوں کی مفت تعلیم و تربیت کے علاوہ اللہ کے گھر کا طواف کا بندوبست بھی کیا گیا۔

مجموعی طور پر وفاقی و صوبائی حکومتوں اور پاک فوج کی جانب سے ابتک 1545ملین روپے سے زائد رقم شہدا کے لواحقین اور متاثرین کی دادرسی کیلئے خرچ کی جا چکی ہے۔ آج بھی ریاست اُن کی ہرممکن دادرسی کیلئے تیار ہے۔ وزیراعظم سے لے کر آرمی چیف تک تمام لوگ دل و جان سے ان کے دُکھ کا مداوہ کرنا چاہتے ہیں۔
سانحہ اے پی ایس کے ملزمان کا انجام
مُلا فضل اللہ اور عمر نارائے آج کہاں ہیں؟APSواقعے میں 9دہشت گرد تو موقعہ پر ہلاک ہو گئے تھے اور جن6 کو گرفتار کیا گیا۔

ان میں سے5کو پھانسی دی جا چکی ہے جبکہ ایک کا کیس سُپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔
عسکری اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ ساتھ سول سوسائٹی علماء، اور ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد دہشت گردوں کا نشانہ بنے۔مولانا فضل الرحمن پر کئی دفعہ قاتلانہ حملہ ہوا، جامعہ نعیمیہ کے سربراہ ڈاکٹر سرفراز نعیمی اسی دہشت گردی کی بھینٹ چڑھے، مفتی نظام الدین شا مزئی اسی جنگ میں شہید ہوئے۔

لیکن پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ سیاسی و عسکری اداروں اور عام شہریوں نے مل کر شہدا اے پی ایس کے خون کا بدلہ لیا اور دہشت گردوں کو کیفر کردار تک پہنچایا۔
نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد
9/11کے بعد پاکستان پر مسلط کی گئی جنگ کا آخری وقت قریب آ چکا تھا۔ نیشنل ایکشن پلان کے تحت پہلی مرتبہ اچھے طالبان اور برے طالبان کی تفریق کا خاتمہ ہوا۔

تمام دہشت گردوں کو ایک ہی نظر سے دیکھنے کا فیصلہ ہوا۔ نیشنل ایکشن پلان کے تحت ملک کے اندر عسکری اداروں کے آپریشن کے ساتھ ساتھ کئی دیگر امور ر بھی توجہ دی گئی۔ لک بھر سے انتہا پسندی کے فروغ کوروکنے کے عملی اقدامات کئے گئے۔ نیشنل ایکشن پلان اتنا ہمہ جہت تھا کہ جس سے مذہبی منافرت پھیلنے کا خدشہ تھا۔ سانحہ APSکے بعد تمام مذہبی طبقات کو ایک خاص دائرے میں محدودکیا گیا اور ان کے لئے قواعد و ضوابط مرتب کئے گئے۔

لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ 30سے زائد نکات پر مشتمل نیشنل ایکشن پلان کے محض ایک فیصد ر عمل ہوا اور کچھ عرصہ کے بعد حالت یہ ہو گئی کہ اس پلان کا سارا زور جمعہ کی خطبات اور لاؤڈ سپیکر کے استعمال تک محدود ہو گیا۔ کچھ عرصہ کے بعد باسی کڑھی میں ابال آتا تو دینی مدارس کی شامت آجاتی۔ان کی تلاشی کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جاتا۔ آج اس سانحہ کو ۵ سال ہونے کو ہیں لیکن فکری طور پر حالت جوں کی توں ہے۔

ہمیں اس صورتحال سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔ تمام تعلیمی اداروں کے ساتھ یکساں سلوک روا رکھنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہونا پڑے گا۔ سرکاری تعلیمی اداروں کی حالت زار بہتر بنانے پر توجہ دینے کے ساتھ دینی تعلیمی اداروں کو بھی اپناادارہ سمجھنا ہو گا۔
خلاصہ کلام
ہماری قوم جس فکری بحران کا شکار ہے اس کا واحدحل علم کے تمام شعبوں میں مہارت حاصل کرنا ہے۔

اے پی ایس کے بچوں کی شہادت نے جس طرح قوم کو سیاسی طور پر ایک محاذ پر اکٹھا کیا اسی طرح فکری طور پر بھی پوری قوم کو یکسو ہونے کی ضرورت ہے۔ہمیں اپنے تعلیمی نظام میں انقلابی تبدیلیاں پیدا کرناہوں گی تاکہ کوئی طالع آزما ہماری فکری بنیادوں کو نہ ہلا سکے۔ اپنے تعلیمی نصاب میں ایسی بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہے جو ہماری درسی کتب کو ایک طرف تو جدید تقاضوں کے ہم آہنگ کرے دوسری طرف اسلام اور پاکستان کے ساتھ مضبوط رشتہ استوار کرے۔

سانحہ اے پی ایس کے پانچ سال گذر نے کے بعد بھی ہم فکری جمود کا شکار ہیں۔ حکومتوں کے نمائشی اقدامات سے ہمارے معاشرتی نظم پر کوئی فرق نہیں پڑا۔ ہمارا نوجوان آج بھی علمی بے راہ روی کا شکار ہے اور تمام قسم کے آوارہ نظریات کے لئے تر نوالہ ثابت ہوتا ہے۔ ا س جمود کو توڑنے کے لئے ایک مرتبہ پھر تمام مذہبی و سیاسی قوتوں کو اکٹھا ہونا پڑے گا جس طرح پانچ سال قبل جنگی بنیادوں پر قوم کو اکٹھا کیا گیا تھا او ردہشت گردی کے خلاف ایک فضا پیدا کر دی گئی تھی اب بھی فکری دہشت گردی کے خلاف ایک منظم جدوجہد کی ضرورت ہے۔

بد قسمتی سے اس وقت ہماری سیاسی قیادت افکار سے عاری اور شعور سے بے بہرہ ہے۔ گالی گلوچ ان کا وطیرہ ہے اور الزام تراشی ان کی عادت ہے۔ کارکردگی ان کی صفر ہے اور زبان درازی عروج پر ہے۔ ان حالات میں علماء، دانشور حضرات، صحافیوں اور سول سائٹی کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا تاکہ قوم کے نونہالوں کو فکری بے راہ روی اور ذہنی انتشار سے محفوظ رکھا جا سکے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :