فتح مکہ۔۔۔فتح مبین

بدھ 5 مئی 2021

Pir Mohammad Farooq Bahawal Haq Shah

پیر محمد فاروق بہاوٴالحق شاہ

فتح مکہ سرکار دوﷺکی مدنی زندگی کا ایک اہم ترین غزوہ ہے۔عہد نبوی کے تمام غزوات کی ایک الگ اہمیت ہے۔ لیکن مورخین اس بات پر متفق ہیں کہ فتح مکہ میں اسلامی شوکت کا ایسا اظہار ہوا کہ عالم عرب پر اسلام کی دھاک بیٹھ گئی۔مسلمانوں کو بیت اللہ میں داخل ہوکر طواف کا موقع ملا۔ کعبة اللہ کو بتوں اور تصویروں سے پاک کردیا گیا۔ اور ایک طویل عرصہ کے بعد اللہ کی وحدانیت کا علم کعبہ کی چھت پر لہرایا گیا
لشکر اسلام کی روانگی:
 10 رمضان المبارک آٹھ ہجری کو دس ہزار صحابہ کرام کا لشکر لے کر حضو اکرم ﷺ نے مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ کارخ فرمایا۔

مدینہ سے باہر نکل کر دو ہزار افراد اور اسلامی لشکر کے ساتھ مل گئے۔ یوں 12000 صحابہ کا لشکر جرار مدینہ سے مکہ کی طرف روانہ ہوگیا۔

(جاری ہے)

لیکن اللہ کی تائید اور سرکاردوعالم ﷺ کی دعا کی بدولت کہ اتنی بڑی سرگرمی سے کفار بے خبر رہے۔
 اسلامی لشکر کا پڑاؤ:
 حضور اکرم ﷺپیش قدمی کرتے ہوئے مکہ مکرمہ سے محض ایک منزل کے فاصلے پر ایک مقام پر قیام فرمایا۔

آپ نے سارے اسلامی لشکر کو پورے میدان میں پھیلا دیا۔ ہر صحابی کو کہا کہ اپنا الگ الگ چولہا روشن کریں۔ رات کے وقت ابوسفیان خبر گیری کے لیے مکہ سے باہر نکلا تو آگ کا اتنا بڑا الاؤ دیکھ کر پریشان ہو گیا۔ اس کو ایک خیال یہ تھا کہ شاید یہ بنوں خزاعہ کا لشکر ہو۔ لیکن ابوسفیان نے اس خیال کی تردید کی کہ انکا لشکر اتنا عظیم نہیں ہوسکتا۔ اس اثناء میں ابوسفیان کی ملاقات حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے ہوئی۔

آپ نے ابو سفیان کو آگاہ کیا کہ یہ کہ بہتر یہی ہے کہ حضور اکرم ﷺ سے امان طلب کر لو۔ ورنہ اس عظیم لشکر کے سامنے تمہاری کوئی اوقات نہیں ہے۔ حضرت عباس نے ابو سفیان کو اپنے خچر پر ساتھ بٹھایا اور سرکار دو عالم ﷺکی بارگاہ میں پیش کر دیا۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ اس کے قتل کے درپے ہوئے لیکن سرکار دو عالم ﷺ نے منع فرما دیا۔ ایک ایسا شخص جس نے مسلمانوں کے خلاف جنگیں لڑیں۔

جس نے اسلام کو نقصان پہچانے کی ہر ممکن کوشش کی۔جس نے نبی کریمﷺکو شہید کرنے کی کوشش کی۔ جس کی بیوی ہندہ نے حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کا کلیجہ چبایا۔ ایسے متعصب اور کٹر دشمن کو سامنے پا کر معاف کرنا اللہ کے نبی کی صفت ہوسکتی ہے عام آدمی اس کو معاف کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔
 حضور اکرم ﷺ کی شان کریمی کا اظہار:
 حضور کے سفر مکہ کے دوران جحفہ کے مقام پر آپﷺ کے چچا زاد بھائی ابو سفیان بن حارث اور پھوپھی زاد بھائی عبداللہ بن امیہ ملے۔

آپ نے ان کو دیکھ کر منہ پھیر لیا کیونکہ ان دونوں نے حضور اکرم صلی وسلم کو ہر طرح سے ایذا پہنچائی تھی۔ لیکن حضرت علی نے ابوسفیان بن حارث کو حضور سے معافی مانگنے کا طریقہ سکھایا تو آپﷺنے معاف فرمایا۔اس طرح حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے حضور اکرم ﷺسے عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابو سفیان ایک جاہ پسند اور اعزاز پسند شخص ہے۔

آپ اس کو کچھ اعزاز عطا فرمائیں تاکہ یہ مطمئن ہوجائے حضور اکرمﷺ نے شان کریمی کا بے مثال مظاہرہ فرماتے ہوئے اعلان فرمایا کہ جو شخص ابوسفیان کے گھر دا خل ہو گا۔ اس کو بھی امان ہوگی۔ جس پر ابوسفیان از حد مسرور ہو۔
لشکر اسلام کی روانگی:
 حضور اکرم ﷺ نے لشکر اسلام کو مکہ کی طرف کوچ کا حکم ارشاد فرمایا۔ آپﷺ نے حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ کو حکم دیا کہ ابوسفیان کو پہاڑ کی چوٹی پر کھڑا کرو۔

تاکہ سارا لشکر اس کے سامنے سے گزرے چنانچہ ایسا ہی کیا گیا ہر قبیلہ اپنے اپنے پرچم کے ساتھ گزرتا ابوسفیان حضرت عباس سے دریافت کرتا یہ کونسا قبیلہ ہے حضرت عباس قبیلے کا نام بتاتے یہاں تک کہ آپ ﷺ کا دستہ مبارک گزرا۔آپﷺکے آگے چلتے ہوئے صحابہ ترانے پڑھ رہے تھے حضرت سعد کے ہاتھ میں سرکار دو عالم ﷺکے لشکر کا پرچم تھا۔ابو سفیان نے حضرت عباس سے کہا تمہارے بھتیجے کے ساتھ بھلا کسی کی طاقت ہے کہ جنگ لڑیں اس نے تو بڑی سلطنت جمع کرلی ہے حضرت عباس نے فرمایا یہ بادشاہت نہیں بلکہ نبوت ہے۔


سرکار دوعالم ﷺکی مکہ مکرمہ میں فاتحانہ تشریف آوری:
 اللہ کے آخری نبی آج آپنے اس آبائی شہر میں فاتح کی حیثیت سے داخل ہو رہے تھے۔جہاں سے آپﷺ کو رات کی تاریکی میں نکلنا پڑا تھا جہاں پر آپﷺپر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے تھے۔ جہاں پر مکہ کی وسعتیں آپﷺ پر تنگ کر دی گئی تھیں۔ جہاں آپﷺ کو طواف کرنے سے روک دیا جاتا تھا۔

جہاں آپ ﷺپر اوجھڑی ڈال دی جاتی تھی۔جہاں آپﷺ پر پتھر برسائے جاتے تھے۔ جہاں آپﷺ کا مذاق اڑایا جاتا تھا۔ آج اس شہر میں بارہ ہزار کے لشکر کے ساتھ اتنا انافتحنالک فتحامبینا کی بشارت لے کر یہ عظیم کامل اور آخری نبی مکہ میں داخل ہو رہے تھے۔ اسی دن اپ نے سیاہ عمامہ باندھ کر رکھا تھا ایک اونٹنی پر سوار تھے۔ جو ہی آپﷺ کی نظر بیت اللہ شریف پر پڑی آپ ﷺکا سر اقدس اللہ کریم کی بارگاہ میں جھک گیا۔

آپﷺ نے اپنا سر اس قدر جھکایا کہ آپ نے عمامہ شریف کی سلوٹیں ڈھلیں پڑ گئی۔ اونٹنی پر ہی آپﷺ نے طوف فرمایا۔
خطبہ رسالت:
 مختلف کتب سیرت میں حضور اکرم ﷺ کا خطبہ درج ہے اس کا مفہوم عرض کر رہا ہوں آپﷺ نے فرمایا اے قریشیو اللہ نے تم سے جاہلیت کے غرور کو ختم کردیا۔ سب آدم کی اولاد ہیں اورآدم مٹی سے بنے تھے۔

آپﷺ نے فرمایا تم میں سے بہتر وہ ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے۔ آپ ﷺنے پوچھا اے قریش بتاؤ میں تمہارے ساتھ کیا کرنے والا ہوں سب نے کہاآپ شریف بھائی ہیں۔ شریف بھائی کے بیٹے ہیں آپ ﷺجو کریں گے اچھا کریں گے آپﷺ نے فرمایا جاؤ تمہیں آزاد کیا سب کو معاف کیا۔یہ جرات انگیز حوصلہ صرف اپ کاہی ہوسکتا ہے ورنہ اس موقع پر انسان کہاں قابو میں رہتا ہے۔

آپﷺ کی اس کیفیت کو حضرت اقبال نے یوں بیان فرمایا۔
آنکہ بر اعدا در رحمت کشاد
مکہ راہ پیغام لا تثریف داد
وقت ھیجا تیغ او آھن گداز
دیدہ او اشک بار اندر نماز
 ترجمہ جس نے دشمنوں پر رحمت کا دروازہ کھولا۔ جس نے مکہ کے لوگوں کے لئے لا تثریب کا پیغام دیا۔ میدان جنگ میں آپکی تلوار لوہے کو پگھلا دیتی ہے۔

لیکن آنکھوں سے اشک جاری ہورہے ہوں گے۔
 بتوں سے تطبیر:
 فتح مکہ کا سب سے اہم مرحلہ بیت اللہ شریف کو بتوں سے پاک کرنا تھا۔ اس وقت کعبہ میں تین سو ساٹھ سے زائد بت موجود تھے۔ آپﷺ نے اپنی کمان کے ساتھ بتوں کو گراتے او ریہ آیت پڑھتے جاء الحق وزہق الباطل اور آپ کی ٹھوکر سے بت اوندھے منہ گرتے۔عثمان بن طلحہ چابی لے کر کعبہ کے اندر داخل ہوئے۔ اس کو تصاویر سے پاک کیا۔حضرت بلال نے کعبہ کی چھت پر کھڑے ہوکر اذان دی اور انہوں نے کعبہ میں طویل عرصہ کے بعد اللہ کی واحدانیت کا اعلان کیا۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں سیرت رسولﷺ پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :