
اثر اُن کو زرا نہیں ہوتا
جمعرات 16 جون 2016

پروفیسر مظہر
تخمِ خواہش دل میں تو بوتا ہے کیا
(جاری ہے)
اتنا کچھ ہونے کے باوجود عالم یہ ہے کہ امریکہ خوش ہوتا ہے تو ہماری باچھیں کھل جاتی ہیں اور ناراض ہوتا ہے تو بوکھلا کرایسے گلے شکوے کرنے لگتے ہیں جیسے کوئی محب اپنے محبوب سے کرتاہے ۔ اگر امریکہ کی ناراضی دور کرنا مقصود ہی ہے تو اس کا آسان حل یہی کہ اقتصادی راہداری کو خواب و خیال سمجھ لیں کیونکہ یہی تو ایک سبب ہے امریکی ناراضی کا، ہماری افغان پالیسی نہیں۔ امریکہ خوب جانتا ہے کہ اقتصادی راہداری سے چین کو چار ہزار ارب ڈالر سے زائد تجارت کے لیے دوسرا راستہ نصیب ہو جائے گا اور نرخ بھی پہلے سے کہیں کم۔ اس طرح چین کا خطے میں اہم ترین ملک بن جانا اظہرمن الشمس اور ساتھ ہی پاکستان کی اقتصادی ترقی اپنی رفعتوں کو چھونے لگے گی جو امریکہ کو کسی صورت قبول نہیں۔ ایرانی چاہ بہار کی بندرگاہ کبھی بھی گوادر کا بدل نہیں بن سکتی، اگر ایسا ممکن ہوتا تو یہ بندرگاہ امریکی سرپرستی میں بہت پہلے آپریشنل ہو چکی ہوتی اور ایران کے پیٹ میں بھی گوادر کے مروڑنہ اٹھ رہے ہوتے ۔ ایران نے توچاہ بہار پرنریندرمودی کے ساتھ معاہدہ کرتے ہوئے یہ بھی نہ سوچا کہ یہ وہی مودی ہے جو نہ صرف ہزاروں مسلمانوں کاقاتل ہے بلکہ مسلمانوں کا ازلی وابدی دشمن بھی ۔ افغانستان بھی چاہ بہارپر سہ فریقی معاہدے کاایک فریق ۔ گویادو ”برادر“ اسلامی ممالک بھارت کے کندھے سے کندھاملا کے کھڑے ہوگئے لیکن حکمرانوں کو اب بھی خبرنہیں کہ پاکستان کوعالمی تنہائی کاشکار کیاجا رہاہے۔
پتہ نہیں یہ احمقانہ سوچ ہم میں کہاں سے پیدا ہو گئی کہ جس افغانستان کو سنبھالتے سنبھالتے روس ٹکڑے ٹکڑے ہوا، امریکہ نے اپنی معیشت کا بیڑاغرق کر لیا اس کا حل ہم چٹکیوں میں تلاش کر لیں گے۔ہم نے افغان طالبان کومذاکرات کی میزپر لانے کے لیے تاثر یہ دیاکہ جیسے وہ ہمارے قبضہٴ قدرت میں ہیں لیکن حقیقت یہ کہ وہ ملّا فضل اللہ جو تحریکِ طالبان پاکستان کاسربراہ ہے افغانستان میں ایک لحاظ سے افغان طالبان کی پناہ میں ہے کیونکہ وہ افغان طالبان کے امیر کے ہاتھ پربیعت کرچکا ہے ۔ پھرہم 3 ملین افغانیوں کو کس لیے پناہ دیے ہوئے ہیں؟ کیا ہمارے ہاں امن و امان ہے، کوئی بھوکا نہیں سوتا؟ جب ہماری قوم بھوکوں مر رہی ہے تو زبردستی کے 3 ملین افغان مہمان کیوں؟
پی پی اور تحریک انصاف عیدکے بعد انتخابات کی تیاریوں میں سڑکوں پر ہوں گی۔ عمران خاں تو 2016ء کوانتخابات کاسال قرار دے بھی چکے ۔ پیپلزپارٹی پنجاب میں اپنے قدم جمانے اورتحریکِ انصاف کی جگہ لینے کے لیے بیقرار ۔ حقیقت یہ کہ مِڈ ٹرم انتخابات ممکن نہیں۔ اگراِن کی تحریک کامیاب ہوبھی گئی توالیکشن نہیں ، مارشل لاء آئے گااور یہ چراغِ رُخِ زیبالے کرجمہوریت کوڈھونڈتے پھریں گے ۔ ایسابھٹو کے دَورمیں بھی ہوچکا جب پی این اے کی تحریک کے سبب ضیاء الحق نوے روزہ انتخابات کاوعدہ کرکے آئے اورایک عشرے سے زائد گزارگئے تب اصغرخاں بھی وہی باتیں کیا کرتے تھے جوآج کل عمران خاں کر رہے ہیں۔ اب میمنہ، میسرہ تیارہ، ہتھیار نئے اور عزم بھی نیا، شدت پہلے سے زیادہ ہو گی کہ اب سب کچھ باقاعدہ پلاننگ کے تحت ہو رہا ہے اور ترتیب دینے والے وہی جو دھرنے کے خالق تھے۔ مولانا طاہرالقادری بھی17 جون کو دھرنا دینے کے لیے پاکستان آ رہے ہیں۔ انھیں توتبھی بھیجا جاتا ہے جب ملک میں افراتفری پیدا کرنا مقصود ہو۔ اب کی بار جب اقتصادی راہداری پر دشمن کی سبھی چالیں ناکام ہو گئیں تو ”پاناماپیپرز“ سامنے لائے گئے۔ یہ وہ پیپرز ہیں جن کی تاحال تصدیق تو نہیں ہو سکی البتہ افراتفری کا ماحول ضرور پیدا کر دیا گیا ہے۔ اب اسی افراتفری کو دو آتشہ کرنے کے لیے ”مولانا قادری“ فیکٹر استعمال کرنے کی تیاریاں ہیں۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
پروفیسر مظہر کے کالمز
-
ریاستِ مدینہ اور وزیرِاعظم
اتوار 13 فروری 2022
-
وحشت وبربریت کا ننگا ناچ
جمعہ 10 دسمبر 2021
-
اقبال رحمہ اللہ علیہ کے خواب اور قائد رحمہ اللہ علیہ کی کاوشوں کا ثمر
ہفتہ 13 نومبر 2021
-
رَو میں ہے رَخشِ عمر
جمعہ 30 جولائی 2021
-
یہ وہ سحر تو نہیں
جمعہ 2 جولائی 2021
-
غزہ خونم خون
ہفتہ 22 مئی 2021
-
کسے یاد رکھوں، کسے بھول جاوٴں
ہفتہ 24 اپریل 2021
-
یہ فتنہ پرور
ہفتہ 20 مارچ 2021
پروفیسر مظہر کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.