
محبانِ اُردو ادب
جمعرات 10 نومبر 2016

پروفیسر مظہر
(جاری ہے)
اُردو ادب سے اتنی محبت ۔۔۔۔ ؟ پہلے کبھی دیکھی نہ سُنی۔
قائدِاعظم نے تو قیامِ پاکستان کے ساتھ ہی اُردو کو قومی زبان کا درجہ دے دیا تھا لیکن سات عشرے گزرنے کے باوجود اِس پر عمل درآمد نہ ہو سکا۔ سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ جواد ایس خواجہ نے تین ماہ کے اندر اُردو کو دفتری زبان قرار دینے کا حکم نامہ بھی جاری فرمایا لیکن تاحال اُس پر عمل درآمد ممکن نہ ہو سکا۔
اِس ادبی بیٹھک کا سہرا یونیورسٹی کے پریس انچارج مرزا الیاس صاحب کے سَر ہے جن کی شیریں بیانی ، گفتگو میں ٹھہراوٴ اور دھیما پَن براہِ راست دلوں کو مسخر کرتا ہے ۔ اُن کے ابتدائی کلمات ہمیشہ مسحور کُن ہوتے ہیں اور جس طرح وہ انتہائی سادگی سے اپنا مطمح نظر بیان کرتے ہیں ، اُسے دیکھ کر تو بے اختیار یہ کہنے کو جی چاہتا ہے
تُو جاں بھی مانگ لے تو حاضر ہے بے دریغ
تیرے لیے خلوص کی کوئی کمی نہیں
تتلی کی طرح یہاں سے وہاں محوِرقص ڈاکٹر عمرانہ مشتاق کی بے قراری میں خلوص کے ابلتے دریاوٴں کی سی روانی ہے ، اُن کا پُرخلوص لہجہ دیکھ کر یوں محسوس ہونے لگتا ہے کہ جیسے وہ ہمارا ہی انتظار کر رہی ہوں ۔ حالانکہ یہ اُن کا فنِ تخاطب ہے ۔ اِس فن کو دیکھ اور محسوس کر کے ڈاکٹر عمرانہ مشتاق کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کرنے کو جی چاہتا ہے۔اِس ادبی بیٹھک کا ایک جاندار کردار نوجوان احمد سہیل ہے جس کا موٴدب لہجہ اور آگے بڑھ کر استقبال کا انداز ہم جیسوں کے دلوں پر اپنے گہرے نقوش ثبت کرتا ہے ۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے اِس نوجوان کے اندر کچھ سیکھنے کی اُمنگ جواں ہے ۔ایسے ہی پُر عزم نوجوانوں کو دیکھ کر تسلی ہوتی ہے کہ اقبال کے ”شاہیں“ کم سہی لیکن ہیں ضرور ۔ حیرت ہے کہ یو ایم ٹی نے ایسے نگینے کہاں سے تلاش کر لیے ۔ لائقِ تحسین ہیں وہ لوگ جو اِس قحط الرجال میں بھی مقدور بھر اپنے فرائضِ منصبی ادا کرنے کی تگ و دَو کر رہے ہیں۔ اگر یہ گِنے چُنے لوگ بھی خاموشی کی چادر اوڑھ لیں تو پھر منزل بعید تر ہوتی چلی جائے گی ۔ آخر صداقتوں کی شمعیں فروزاں کرنے والے کچھ لوگ تو ہونے چاہییں جو اُس علیم و خبیر کی ودیعت کردہ دانش کو بروئے کار لا کر ”جہاد بالقلم“ کے لیے ایستادہ ہو جائیں۔
پچھلی ادبی بیٹھک کے مہمانِ خصوصی محترم امجد اسلام امجد تھے ۔ یوں تو غائبانہ طور پرامجد اسلام امجد کی شخصیت سے پورا پاکستان ہی آگاہ ہے لیکن” کلامِ شاعر بزبانِ شاعر“ کا مزہ ہی کچھ اور ہے۔ اُنہوں نے اپنا کلام سنا کر خوب سماں باندھا ۔اب کی بارمدار المہام محترم سجاد میر تھے جن سے قریبی تعلق بھی ہے اور ساہیوال کے حوالے سے خلوص و محبت کا رشتہ بھی ۔ اُن سے کئی ملاقاتوں کے باوجود یہ راز یو ایم ٹی کی چھت تلے کھلا کہ وہ دبنگ کالم نگار ہی نہیں ،بحرِ ادب کے شناور اور اعلیٰ پائے کے شاعر بھی ہیں ۔ اُن کے خطاب میں شوریدہ سری نہیں ،معقولیت کے دَر وا ہو رہے تھے اور الفاظ کی مہکار دلوں میں اترتی محسوس ہوتی تھی۔ اُنہوں نے اپنے مختصر خطاب میں اُردو ادب کی پوری تاریخ کا تجزیہ کر ڈالا لیکن تشنگی پھر بھی برقرار رہی ۔ کاش اُن کی چائے ”ٹھنڈی“ نہ ہو رہی ہوتی اور ہم اُن کی گفتگو سے مزید لطف اندوز ہو سکتے ۔ اُن کا مختصر خطاب سننے کے بعد یوں محسوس ہوا کہ ہم تو اِس عمر میں بھی طفلِ مکتب ہیں۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
پروفیسر مظہر کے کالمز
-
ریاستِ مدینہ اور وزیرِاعظم
اتوار 13 فروری 2022
-
وحشت وبربریت کا ننگا ناچ
جمعہ 10 دسمبر 2021
-
اقبال رحمہ اللہ علیہ کے خواب اور قائد رحمہ اللہ علیہ کی کاوشوں کا ثمر
ہفتہ 13 نومبر 2021
-
رَو میں ہے رَخشِ عمر
جمعہ 30 جولائی 2021
-
یہ وہ سحر تو نہیں
جمعہ 2 جولائی 2021
-
غزہ خونم خون
ہفتہ 22 مئی 2021
-
کسے یاد رکھوں، کسے بھول جاوٴں
ہفتہ 24 اپریل 2021
-
یہ فتنہ پرور
ہفتہ 20 مارچ 2021
پروفیسر مظہر کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.