
ہم کدھر جا رہے ہیں
جمعہ 12 مئی 2017

پروفیسر مظہر
(جاری ہے)
انداز بدل گئے مگر دام ہمرنگِ زمیں وہی جس میں آس کا پنچھی یاس کے گھور اندھیروں میں پھڑپھڑا کر رہ جائے۔ وہی وعدے، وہی دعوے وہی قومی وملکی سلامتی کے عشق میں مگرمچھ کے آنسو جنہیں عشروں سے دیکھ سن کر طبیعت اوبھ چکی۔
مسندِ اقتدار کی ہوس نے ہمیں کہاں سے کہاں پہنچا دیا کہ اب لازمہٴ انسانیت سے بھی تہی ہوتے جا رہے ہیں۔پہلے دو جماعتی مقابلہ تھا لیکن 2013ء سے سہ جماعتی ہو گیا۔ اب تینوں جماعتیں ہمہ وقت ایک دوسرے کے لَتے لیتی رہتی ہیں۔ پہلے وزیرِاعظم صاحب نے شرافت کا لبادہ اوڑھ رکھا تھا لیکن اب ”تنگ آمد بجنگ آمد“ کے مصداق انہوں نے بھی کمر کس لی ہے۔ کپتان صاحب نے سیاست میں نئی طرح ڈال دی ہے۔ اب ”میوزیکل کنسرٹ“ کے بغیر محفل سجتی نہیں اور پارلیمانی زبان اشرافیہ کا شیوہ نہیں۔ اُن کے نزدیک جو مزہ غیرپارلیمانی زبان میں ہے۔ وہ بھلا شائستگی اور شُستگی میں کہاں۔ جلتی پر تیل کا ٹھیکہ الیکٹرانک میڈیا نے اٹھا رکھا ہے اور وہ یہ ذمہ داری ”بطریقِ احسن“ سرانجام دے رہا ہے
جس سے اُس کی ”ریٹنگ“ آسمان کی رفعتوں کو چھوتی ہوئی۔ رہی سہی کسر ”سوشل میڈیا“ پوری کر رہا ہے یا پھر ”بزرجمہر“ جو ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں۔ بھانت بھانت کی بولیوں سے فضا اتنی مسحوم کہ دم گھٹنے لگے۔ ان تاریک راہوں میں ایک ہی روزن بچا تھا کہ جس سے روشنی کی کرنیں پھوٹنے کی آس تھی لیکن… بات تو اتنی سی تھی کہ اعلیٰ ترین عدلیہ تحقیقاتی ادارہ نہیں، اس لیے تحقیقاتی کمیشن بننا ضروری کہ معاملے کی تہ تک پہنچا جا سکے لیکن جب صدیوں یاد رکھے جانے والے فیصلے کی نوید سنائی گئی تو وہم ہوا کہ پتا نہیں ”عدلیہ پٹاری“ سے کیا برآمد ہوگا۔ 539 صفحات پر مشتمل فیصلے میں کون سی ایسی بات ہے جو صدیوں یاد رکھی جائے گی؟ فیصلہ تو وہی سادہ اور عام فہم کہ تحقیقاتی کمیشن بنے گا (جو بن بھی چکا)۔ پھر ایک سال کیوں ضائع کیا گیا؟ جب اعلیٰ عدلیہ خود بار بار یہ کہہ رہی تھی کہ 99 فی صد ثبوت ردی کی ٹوکری کے قابل ہیں تو پھر تحقیقاتی کمیشن کی تشکیل میں اتنی تاخیر کیوں؟ کیا اس لیے کہ میڈیا سرکس جماتا رہے، بزرجمہر دور کی کوڑیاں لاتے رہے اور قوم نفسیاتی مریض بن کے رہ جائے؟ کیا اب تحقیقاتی کمیشن 60 دنوں میں وہ ”گوہرِ نایاب“ تلاش کر پائے گا جس کی آس میں اپوزیشن کے ہونٹوں پر پپڑیاں جم گئی ہیں؟ کیا پاناما لیکس کا معاملہ اتنا ہی سادہ ہے کہ پاکستان کے اندر بیٹھ کر ثبوت تلاش کیے جا سکیں؟ اگر نہیں تو پھر کیا محض دو کروڑ روپوں اور 60 دنوں میں پوری دُنیا گھوم کر ثبوت اکٹھے کیے جا سکتے ہیں؟
اُدھر ڈان لیکس کے ٹویٹ کا شور۔ دنیا کو جو پیغام گیا وہ یہی کہ پاکستان میں جمہوریت نام نہاد، طاقت کا اصل سرچشمہ صرف ایک ہی ادارہ، سیاہ وسفید کا مالک۔ نہایت عجلت سے جاری کیے گئے ٹویٹ نے یہ تاثر بھی زائل کر دیا کہ سیاسی و عسکری قیادت ایک صفحے پر ہے، حالانکہ وطنِ عزیز کو اس تاثر کی جتنی اب ضرورت ہے شاید پہلے کبھی نہیں تھی۔ مشرقی اور مغربی سرحدوں پر ریشہ دوانیوں میں مصروف دشمن کو یہ پیغام جانا ضروری ہے کہ ”ہم سب ایک ہیں“۔
یہ ٹویٹ اس لحاظ سے بھی نامناسب تھا کہ وزیراعظم نے انکوائری کمیٹی (جس میں عسکری نمائندے بھی شامل تھے) کی تمام سفارشات کو من وعن مان لیا تھا اور کسی ایک سفارش پر بھی عمل درآمد پر لیت ولعل سے کام نہیں لیا۔ ہمیں یقین ہے کہ عسکری قیادت سسٹم کو ڈی ریل کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتی اور اختلاف رائے پر سسٹم ڈی ریل کرنے کی روایت دم توڑتی جا رہی ہے کیونکہ عسکری قیادت کو خوب معلوم ہے کہ جب بھی کسی طالع آزما نے سسٹم کو ڈی ریل کیا، نقصان پاکستان کو ہی پہنچا۔ ایوب خاں نے صدارتی نظام نافذ کر کے ون یونٹ قائم کیا جو مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا ابتدائیہ بن گیا۔ جنرل ضیاء الحق نے افغان جنگ میں کودنے کا شوق پورا کر کے پاکستان کو کلاشنکوف کلچر کا تحفہ دیا۔ پرویز مشرف نے ”سب سے پہلے پاکستان“ کا نعرہ لگا کر پاکستان کو ایسے اندھیروں میں دھکیل دیا جن سے ہم آج تک باہر نہیں نکل سکے۔ کچھ لوگ البتہ اب بھی ”کھیڈاں گے نہ کھیڈن دیاں گے“ پر عمل پیرا اور امپائر کی انگلی کھڑی ہونے کے منتظر لیکن ایسا ہوتا نظر نہیں آتا۔ پھر جھگڑا کس بات پر؟ کیا غلط فہمی میں کیا گیا ٹویٹ واپس نہیں لیا جا سکتا؟ کیا یہ انا کا مسئلہ ہے اور انا ملکی سلامتی سے بھی بڑھ کر ہے؟ عسکری اداروں کو یہ تو پتا چل ہی چکا ہوگا کہ چند حریص سیاست دانوں کے سوا کسی نے بھی اس ٹویٹ کو پسند نہیں کیا۔ پھر افہام وتفہیم کی فضا قائم کرنے کی خاطر اس غلط فہمی کا ازالہ کیوں نہیں کیا جاتا۔ اب شنید ہے کہ یہ الجھا ہوا معاملہ بہت حد تک سلجھ چکا ہے۔ اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو کیونکہ دھرتی ماں کو اِسی کی ضرورت ہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
پروفیسر مظہر کے کالمز
-
ریاستِ مدینہ اور وزیرِاعظم
اتوار 13 فروری 2022
-
وحشت وبربریت کا ننگا ناچ
جمعہ 10 دسمبر 2021
-
اقبال رحمہ اللہ علیہ کے خواب اور قائد رحمہ اللہ علیہ کی کاوشوں کا ثمر
ہفتہ 13 نومبر 2021
-
رَو میں ہے رَخشِ عمر
جمعہ 30 جولائی 2021
-
یہ وہ سحر تو نہیں
جمعہ 2 جولائی 2021
-
غزہ خونم خون
ہفتہ 22 مئی 2021
-
کسے یاد رکھوں، کسے بھول جاوٴں
ہفتہ 24 اپریل 2021
-
یہ فتنہ پرور
ہفتہ 20 مارچ 2021
پروفیسر مظہر کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.