
ریاست اور سیاست
پیر 18 مئی 2020

پروفیسر مظہر
(جاری ہے)
خود کو نگاہِ غیر سے دیکھا کرے کوئی
میں کسی کو قائل یا مائل کرنے کی تگ ودَو میں نہیں لیکن ریاستِ مدینہ میں تو کوئی بھوکا نہیں سوتا تھا۔ امیرالمومنین کو جسم ڈھانپنے کے لیے بیت المال سے صرف ایک ہی چادر ملتی تھی۔ امیر، امیرتر اور غریب، غریب تر نہیں ہو رہا تھا۔ خلفائے راشدین کا پروٹوکول اور حفاظتی دستے نہیں تھے۔ (سیکولر بھائیوں سے معذرت کے ساتھ) کہیں ایسا تو نہیں کہ اسلام واقعی مکمل ضابطہٴ حیات ہو جسے ہم بھلا بیٹھے۔ سیکولر بھائی کہتے ہیں کہ قُرآن مجید میں کہیں اسلام کو مکمل ضابطہٴ حیات نہیں کہا گیا۔ بجا مگر جو کتاب معاشی و معاشرتی، سیاسی و سماجی، نجی وخانگی، جزاء وسزا، حتیٰ کہ لین دین تک کے سارے اصول مرتب کر دے، کیا اُسے مکمل ضابطہٴ حیات کے سوا بھی کچھ کہا جا سکتا ہے؟۔ بات یہیں پہ ختم نہیں ہوتی بلکہ جس رَبّ ِ لَم یَزل نے یہ اصول وضوابط مرتب کیے، اُسی نے حضورِاکرم ﷺ کی حیاتِ طیبہ کی صورت میں عملی نمونہ بھی پیش کر دیا۔ فرمایا ”تمہارے لیے اللہ کے رسول (کی ذات) میں بہترین نمونہ ہے“ (الاحزاب ۲۱)۔ کیا جدیدیت کے علم بردار کوئی ایسی نظیر پیش کر سکتے ہیں جس میں کسی ”اِزم“ کا عملی نمونہ بھی دکھایا گیا ہو۔ اگر سیکولر بھائیوں کو ”مکمل ضابطہٴ حیات“ جیسے الفاظ سے چِڑ یا پریشانی ہے تو کم از کم یہ تسلیم تو کریں کہ دینِ مبیں نے ایسے روشن اصول دیئے ہیں جن کی خوشہ چینی اہلِ مغرب نے بھی کی۔ وہی اہلِ مغرب جن کی جدیدیت کا طوقِ غلامی سجائے ہم اتراتے پھرتے ہیں۔
تحقیق کہ آج بھی دینی علم رکھنے والے صاحبانِ فکرونظر موجود لیکن خال خال اور شاید گوشہٴ تنہائی میں۔ بَدقسمتی سے ہم نے دین اُن علماء کو ٹھیکے پر دے رکھا ہے جن کی بے بصیرتی اور بے بضاعتی کا یہ حال کہ واجبی سا دینی علم رکھنے والے بھی علماء بن بیٹھے۔ جہاں جُہلاء کے جلوس کو علماء سے متصف کر دیا جائے، وہاں لبرلز اور سیکولرز کا جادو تو سَر چڑھ کے بولے گا۔ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت محمد ﷺ تک دین تو ایک ہی، اسلام، صرف اسلام جس میں فرقوں کی کوئی گنجائش نہیں لیکن یہاں فرقے بیشمار۔ فکر ونظر کی یہی کجی ہمارے علماء کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا نہیں ہونے دیتی اور ہمارے پاس اتنا وقت کہاں کہ خود اُس فرقانِ حمید کا مطالعہ کر سکیں ”جس میں کوئی ٹیڑھ نہیں“ ۔ کبھی گہری نظر سے کتابِ مبیں کا مطالعہ کرکے تو دیکھیں، آپ کو ایک الگ دنیا ہی نظر آئے گی۔ سیّد مودودی نے تفہیم القرآن کے دیباچے میں لکھا ”اگر قُرآن پڑھتے وقت کسی مقام پر کوئی سوال کھٹکے تو اُس پر اُسی وقت فیصلہ نہ کر بیٹھیں بلکہ اُسے نوٹ کر لیں اور صبر کے ساتھ مطالعہ جاری رکھیں۔ اَغلب ہے کہ آگے کہیں نہ کہیں اِس سوال کا جواب مل جائے گا۔ اگر پہلے مطالعے کے دوران کسی سوال کا جواب نہ ملے تو صبر کے ساتھ دوسری بار پڑھیں۔ میں اپنے تجربے کی بنیاد پر کہتا ہوں کہ دوسری بار کے غائر مطالعہ میں شاذونادر ہی کوئی سوال باقی رہ جاتا ہے“۔ اِسی دیباچے میں مولانا نے یہ بھی فرمایا کہ جو گہرائی میں اُترنا چاہے اُس کے لیے دوچار بار مطالعہ بھی کافی نہیں ہوگا کیونکہ ہر مطالعہ کے بعد نئے اسرار ورموز سامنے آتے ہیں۔ مکرر یہ کہ ہمارے پاس اتنا وقت کہاں۔ یہ قوم کی عظمتِ رفتہ کا نوحہ نہیں، حال کی حقیقت ہے کہ دَورِ جدید میں ہمارے ہاں خود شناسی اور خوداحتسابی کا رواج ہی نہیں۔ انسان کی خودغرضی اور جارحیت پسندی نے یہ دن دکھائے کہ امن وسکون غارت اور الفت ومحبت مفقود۔اگر ہم اپنی عظمتِ رفتہ کے طلب گار ہیں تو ہمیں بہرحال حکمت کی رفیع الشان کتاب قُرآنِ مجید فرقانِ حمید سے رَہنمائی حاصل کرنا ہوگی۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
پروفیسر مظہر کے کالمز
-
ریاستِ مدینہ اور وزیرِاعظم
اتوار 13 فروری 2022
-
وحشت وبربریت کا ننگا ناچ
جمعہ 10 دسمبر 2021
-
اقبال رحمہ اللہ علیہ کے خواب اور قائد رحمہ اللہ علیہ کی کاوشوں کا ثمر
ہفتہ 13 نومبر 2021
-
رَو میں ہے رَخشِ عمر
جمعہ 30 جولائی 2021
-
یہ وہ سحر تو نہیں
جمعہ 2 جولائی 2021
-
غزہ خونم خون
ہفتہ 22 مئی 2021
-
کسے یاد رکھوں، کسے بھول جاوٴں
ہفتہ 24 اپریل 2021
-
یہ فتنہ پرور
ہفتہ 20 مارچ 2021
پروفیسر مظہر کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.