یہ راستہ کوئی اور ہے

جمعہ 4 ستمبر 2020

Prof.Mazhar

پروفیسر مظہر

یومِ عاشور یہی سوچتے گزرا کہ کیا حسینیت یہی ہے کہ ہم ہر سال 10 محرم بطور رسم نبھائیں اور پھر سب کچھ فراموش کر کے بیٹھ رہیں۔ سوچتا ہوں کہ کیا شہیدِ کربلا نے اِسی لیے تپتی ریت کو اپنے پاکیزہ لہو سے سینچا تھا؟۔ فکرِ حسین رضی اللہ عنہ کے بارے میں سیّد مودودی نے فرمایا ”یزید کی ولی عہدی اور پھر اُس کی تخت نشینی سے دراصل جس خرابی کی ابتداء ہو رہی تھی، وہ اسلامی ریاست کے دستور، اُس کے مزاج اور اُس کے مقصد کی تبدیلی تھی۔

اُس تبدیلی کے پورے نتائج اگرچہ اُس وقت سامنے نہ آئے تھے لیکن ایک صاحبِ نظر آدمی گاڑی کا رُخ تبدیل ہوتے ہی یہ جان سکتا ہے کہ اب اُس کا راستہ بدل رہا ہے اور جس راہ پر یہ مُڑ رہی ہے وہ آخرکار اُسے کہاں لے جائے گا۔ یہی رُخ کی تبدیلی تھی جسے امام حسین رضی اللہ عنہ نے دیکھا اور گاڑی کو پھر سے صحیح پٹری پر ڈالنے کے لیے جان لڑا دینے کا فیصلہ کیا“۔

(جاری ہے)

آج چودہ صدیاں گزرنے کے بعد بھی اظہرمن الشمس کہ ہم گُم کردہ راہ ۔ نعمتوں سے مالامال عالمِ اسلام مجبورومقہور اور شرق تاغرب طاغوت کی حکمرانی۔ اب بھی اگر ہم فکرِ حسین رضی اللہ عنہ کو جزوِزیست بنا لیں تو تائیدِ ربی سے عالمِ اسلام کی نشاطِ ثانیہ ممکن۔ حسین ابنِ علی رضی اللہ عنہ نے اپنا پاکیزہ لہو دے کر ہمیں درسِ بیداری بخشا لیکن ہمارے قول وفعل میں تضاد اور نیتوں میں فتور۔

وزیرِاعظم ریاستِ مدینہ کی تشکیل کے لیے نعرہ زَن مگر عمل مفقود۔ امام ابنِ تیمیہ نے فرمایا ”سیاستِ شرعیہ کی عمارت دو ستونوں پر قائم ہے۔ ایک ہے مناصب اور عہدے اہل تر لوگوں کو دینا اور دوسرا عدل وانصاف کے ساتھ فیصلہ کرنا“۔ وطنِ عزیز میں عہدوں کی بندربانٹ کی ہنڈیا بیچ چوراہے پھوٹ چکی۔ عدل کا معیار پرکھنا ہو تو نیب کو دیکھ لیں جس کی ڈور کسی اور کے ہاتھ میں اور جس سے اِک عالم نالاں۔

دینِ مبیں میں سب سے زیادہ زور عدل پر دیا گیا۔ فرمانِ ربی ہے ”تم انصاف کرو یہ پرہیزگاری کے بہت قریب ہے“۔ سورة المائدہ میں یوں ارشاد ہوا ”کہہ دے کہ میرے رب نے مجھے انصاف کا حکم دیاہے“۔ تحقیق کہ اسلام میں جابر کی بجائے مجبور، قاہر کی بجائے مقہور اور ظالم کی بجائے مظلوم کا ساتھ دینے کا حکم دیا گیا ہے۔ اہلِ نظر جانتے ہیں کہ قرونِ اولیٰ میں اگر کوئی مجبورِ محض تھا تو صنفِ نازک جس کے ساتھ بہیمانہ سلوک روا رکھا جاتا تھا لیکن اسلام نے اُسے مرد کے برابر لا کھڑا کیا۔

تہذیبِ مغرب کے پجاریوں کو علم ہونا چاہیے کہ کہ مغرب نے تو بنیادی انسانی حقوق کے حوالے سے 1945ء میں سان فرانسسکو میں چارٹر آف یونائٹڈ نیشن سائن کیاجو مرد اور عورت کے مساویانہ حقوق کا پہلا معاہدہ تھالیکن اسلام نے چودہ صدیاں پہلے عورت کو مکمل تحفظ دیا، مرد اور عورت کو یکساں درجے پر رکھا، عورت کو وراثت کا حقدار ٹھہرایااور عورت کے صرف نان ونفقہ ہی نہیں، اُس کی عزت وعصمت کی حفاظت کے لیے اپنی جان تک دینے کا حکم دیا۔


اسلام کے مخاطب مرد اور عورت دونوں ہیں۔ سورة النحل 97 میں ارشادِ ربی ہے ”جو کوئی بھی نیک عمل کرے خواہ وہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ ایمان ہوتو ہم یقیناََ اُسے نہایت بہتر زندگی عطا فرمائیں گے“۔ بعض مقامات پر عورت کو مرد پر ترجیح دی گئی ہے۔ اولاد پر ماں کی خدمت کا حق فائق ہے۔ ایک صحابی رضی اللہ عنہ کے سوال کرنے پر حضورِاکرم ﷺ نے اولاد کو تین بار ماں کی خدمت کا حکم دیا اور چوتھی بار باپ کی خدمت کا۔

دینِ مبیں ہر ایک کو بلاامتیاز اخلاق اور شریعت کا پابند بناتا ہے۔ حیا کی پابندی اگر عورت پر ہے تو مرد پر بھی۔ سوائے اسلام کے ہر سماج اور نظام نے عورت کی معاشی حیثیت کو کمزور رکھا۔ یہ اسلام ہی ہے جس نے عورت کے معاشی حقوق متعین کیے۔ وہ معاشی حقوق جو برطانیہ نے 1881ء میں دیئے، اسلام نے اُس سے تیرہ سو سال پہلے دے دیئے۔ نان ونفقہ ہر حالت میں مرد کے ذمہ۔

بیٹی ہے تو باپ، بہن ہے تو بھائی، بیوی ہے تو خاوند، ماں ہے تو بیٹا نان ونفقہ کا ذمہ دار۔ سورة البقرہ میں ارشاد ہوا ”خوشحال آدمی اپنی استطاعت کے مطابق اورمفلس اپنی توفیق کے مطابق معروف طریقے سے نفقہ دے“۔
 اسلام نے عورت کو جو وقار بخشا، اُس کا اقرار غیرمسلم مفکرین اور دانایانِ فرنگ بھی کرتے ہیں۔ اسلام کے شدید مخالف پروفیسر ڈی ایس مارکولیوتھ کو بھی کہنا پڑا ”عیسائیت اور ہندومت عورت کو اجازت ہی نہ دیتے تھے کہ وہ مرد کی طرح خوشحال ہوسکے۔

اِن مذاہب میں عورت کی حیثیت ایک باندی کی سی تھی جو مرد کے رحم وکرم پر تھی۔ محمدﷺ نے عورت کو آزادی دی، خودمختاری دی اور خوداعتمادی سے جینے کا حق دیا“۔ ای بلائیڈن نے کہا ”اسلام نے طبقہٴ نسواں کو وہ حقوق عطا کیے جو اِس سے پہلے اِس طبقے کو انسانی تاریخ میں نصیب نہیں ہوئے“۔ پروفیسر کرشناراوٴ لکھتے ہیں ”اسلام کی یہ روح جمہوری ہے جس نے عورت کو مردوں کی غلامی سے نجات دلائی“۔

اِس کے علاوہ کئی غیرمسلم مفکرین نے بھی اسلام میں عورت کے حقوق کے تعین کی تعریف کی ہے لیکن کالم کا دامن تنگ۔
دِلی ہائیکورٹ کے ہندو جسٹس راجندر کمال نے کہا ”اسلام نے عورت پر جو پابندیاں عائد کی ہیں وہ اُس کی شخصیت، نسوانی وقار اور عفت وعصمت کے لیے انتہائی ضروری ہیں“۔ لیکن جب عورت ”میرا جسم میری مرضی“ کا پرچم تھام کے نکلے گی تو گویا اُس نے اُن تمام حقوق سے دست برداری کا اعلان کر دیا جو دینِ مبیں نے اُسے عنایت کیے۔

آخر میں لبرلز اور سیکولر زسے عرض ہے کہ اگر وہ واقعی عورت کو ”دبنگ“ دیکھنا چاہتے ہیں اور ”مردوں کا معاشرہ“ جیسا لیبل اتارنا چاہتے ہیں تو لبرل اور سیکولرازم کا لبادہ اُتار کر اسلامائزیشن کا پرچم تھام لیں کیونکہ صرف اِسی صورت میں عورت کے حقوق کا تحفظ ممکن ہے۔ مسٴلہ مگر یہ کہ ہم فکرِ حسین رضی اللہ عنہ سے دور،بھٹکے ہوئے راہی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :