
یہ راستہ کوئی اور ہے
جمعہ 4 ستمبر 2020

پروفیسر مظہر
(جاری ہے)
اسلام کے مخاطب مرد اور عورت دونوں ہیں۔ سورة النحل 97 میں ارشادِ ربی ہے ”جو کوئی بھی نیک عمل کرے خواہ وہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ ایمان ہوتو ہم یقیناََ اُسے نہایت بہتر زندگی عطا فرمائیں گے“۔ بعض مقامات پر عورت کو مرد پر ترجیح دی گئی ہے۔ اولاد پر ماں کی خدمت کا حق فائق ہے۔ ایک صحابی رضی اللہ عنہ کے سوال کرنے پر حضورِاکرم ﷺ نے اولاد کو تین بار ماں کی خدمت کا حکم دیا اور چوتھی بار باپ کی خدمت کا۔ دینِ مبیں ہر ایک کو بلاامتیاز اخلاق اور شریعت کا پابند بناتا ہے۔ حیا کی پابندی اگر عورت پر ہے تو مرد پر بھی۔ سوائے اسلام کے ہر سماج اور نظام نے عورت کی معاشی حیثیت کو کمزور رکھا۔ یہ اسلام ہی ہے جس نے عورت کے معاشی حقوق متعین کیے۔ وہ معاشی حقوق جو برطانیہ نے 1881ء میں دیئے، اسلام نے اُس سے تیرہ سو سال پہلے دے دیئے۔ نان ونفقہ ہر حالت میں مرد کے ذمہ۔ بیٹی ہے تو باپ، بہن ہے تو بھائی، بیوی ہے تو خاوند، ماں ہے تو بیٹا نان ونفقہ کا ذمہ دار۔ سورة البقرہ میں ارشاد ہوا ”خوشحال آدمی اپنی استطاعت کے مطابق اورمفلس اپنی توفیق کے مطابق معروف طریقے سے نفقہ دے“۔
اسلام نے عورت کو جو وقار بخشا، اُس کا اقرار غیرمسلم مفکرین اور دانایانِ فرنگ بھی کرتے ہیں۔ اسلام کے شدید مخالف پروفیسر ڈی ایس مارکولیوتھ کو بھی کہنا پڑا ”عیسائیت اور ہندومت عورت کو اجازت ہی نہ دیتے تھے کہ وہ مرد کی طرح خوشحال ہوسکے۔ اِن مذاہب میں عورت کی حیثیت ایک باندی کی سی تھی جو مرد کے رحم وکرم پر تھی۔ محمدﷺ نے عورت کو آزادی دی، خودمختاری دی اور خوداعتمادی سے جینے کا حق دیا“۔ ای بلائیڈن نے کہا ”اسلام نے طبقہٴ نسواں کو وہ حقوق عطا کیے جو اِس سے پہلے اِس طبقے کو انسانی تاریخ میں نصیب نہیں ہوئے“۔ پروفیسر کرشناراوٴ لکھتے ہیں ”اسلام کی یہ روح جمہوری ہے جس نے عورت کو مردوں کی غلامی سے نجات دلائی“۔ اِس کے علاوہ کئی غیرمسلم مفکرین نے بھی اسلام میں عورت کے حقوق کے تعین کی تعریف کی ہے لیکن کالم کا دامن تنگ۔
دِلی ہائیکورٹ کے ہندو جسٹس راجندر کمال نے کہا ”اسلام نے عورت پر جو پابندیاں عائد کی ہیں وہ اُس کی شخصیت، نسوانی وقار اور عفت وعصمت کے لیے انتہائی ضروری ہیں“۔ لیکن جب عورت ”میرا جسم میری مرضی“ کا پرچم تھام کے نکلے گی تو گویا اُس نے اُن تمام حقوق سے دست برداری کا اعلان کر دیا جو دینِ مبیں نے اُسے عنایت کیے۔ آخر میں لبرلز اور سیکولر زسے عرض ہے کہ اگر وہ واقعی عورت کو ”دبنگ“ دیکھنا چاہتے ہیں اور ”مردوں کا معاشرہ“ جیسا لیبل اتارنا چاہتے ہیں تو لبرل اور سیکولرازم کا لبادہ اُتار کر اسلامائزیشن کا پرچم تھام لیں کیونکہ صرف اِسی صورت میں عورت کے حقوق کا تحفظ ممکن ہے۔ مسٴلہ مگر یہ کہ ہم فکرِ حسین رضی اللہ عنہ سے دور،بھٹکے ہوئے راہی۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
متعلقہ عنوان :
پروفیسر مظہر کے کالمز
-
ریاستِ مدینہ اور وزیرِاعظم
اتوار 13 فروری 2022
-
وحشت وبربریت کا ننگا ناچ
جمعہ 10 دسمبر 2021
-
اقبال رحمہ اللہ علیہ کے خواب اور قائد رحمہ اللہ علیہ کی کاوشوں کا ثمر
ہفتہ 13 نومبر 2021
-
رَو میں ہے رَخشِ عمر
جمعہ 30 جولائی 2021
-
یہ وہ سحر تو نہیں
جمعہ 2 جولائی 2021
-
غزہ خونم خون
ہفتہ 22 مئی 2021
-
کسے یاد رکھوں، کسے بھول جاوٴں
ہفتہ 24 اپریل 2021
-
یہ فتنہ پرور
ہفتہ 20 مارچ 2021
پروفیسر مظہر کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.