
الجھاوٴہے زمیں سے جھگڑاہے آسماں سے
جمعہ 22 جنوری 2016

پروفیسر رفعت مظہر
(جاری ہے)
لیکن لکھاری موصوف تواپنے آپ کونہ صرف عقلمند سمجھتے ہیں بلکہ اپنے کالموں کے ذریعے اِس کابَرملا اظہاربھی کرتے رہتے ہیں۔
پس ثابت ہواکہ وہ ارسطوسے بھی بڑے داناوحکیم ۔اُن کی ایک صفت یہ کہ اُن کی نگاہوں میں کوئی جچتاہی نہیں۔ اُنہیں تقریباََ تمام سیاسی جماعتوں سے اللہ واسطے کابَیر ہے۔ وجہ شایدیہ کہ وہ اکابرینِ سیاست کی موجودہ ساری ”کھیپ“ کواحمق اورفاترالعقل سمجھتے ہیں ۔اُن کادوسرا نشانہ اقتصادی راہداری ،جس پرہر دوسرے دِن وہ ”گوہرافشانی“ کرتے رہتے ہیں اورتان ہمیشہ اِس پرٹوٹتی ہے کہ میاں نواز شریف کی بلائی گئی ہر اے پی سی دھوکااور ڈرامہ ہوتی ہے ۔ 19 جنوری کولکھاری موصوف نے ایک دفعہ پھر وزیرِاعظم صاحب کی طرف سے بلائی گئی آل پارٹیزکانفرنس کونشانہ بناتے ہوئے لکھا کہ میاں برادران کومبارک ہوکہ وہ جیت گئے اورپاکستان ہارگیا ۔اُنہوں نے لکھا ”مولانافضل الرحمٰن کواُنہوں نے منالیا ،سراج الحق کو خاموش کردیا ،پرویز خٹک کولاجواب کردیا ،شاہ محمودقریشی کوہمنوا بنالیا ،محمودخاں اچکزئی کوآنکھ مارلی ،حاصل بزنجوکو اشارہ کرلیا ،اعتزازاحسن سے اپنے حق میں تقریر کروائی ،افراسیاب خٹک کومصلحت پسندی کاشکاربنا لیا ۔۔۔۔ میرااصرار ہے کہ وزیرِاعظم کی گزشتہ اے پی سی کی طرح موجودہ اے پی سی بھی دھوکااور ڈرامہ ہے“۔ہم تومیاں نواز شریف صاحب کوبھولابھالا اورسیدھاسادا سیاستدان سمجھتے تھے لیکن وہ توبڑے ”کائیاں“ اورجلیبی کی طرح سیدھے نکلے۔ یہاں یہ سوال بھی اٹھتاہے کہ کیاہماری ساری سیاسی قیادت ”بدھو“ ہے جسے میاں نواز شریف صاحب نے بڑی آسانی سے دھوکا دے دیا ۔موجودہ اے پی سی میں تو وزیرِاعظم صاحب نے تمام سیاسی قائدین کے سوالوں کے خودتشفی آمیزجواب دیئے اورہر سیاسی لیڈراپنے تئیں مطمٴن ہوکر باہر آیا ۔سوال یہ بھی ہے کہ کیایہ تمام سیاسی دماغ مِل کربھی محترم لکھاری کے ایک دماغ جیسی اہلیت نہیں رکھتے؟۔ اگرواقعی ایساہی ہے توپھر اِس ”قحط الدماغ“ میں جب ہمیں ایک ”اعلیٰ دماغ“ نصیب ہوہی گیا ہے جس کے بارے میں کہاجا سکتاہے کہ”بڑی مشکل سے ہوتاہے چمن میں دیدہ ور پیدا“ تواُس کی قدرکرتے ہوئے اُسے فوراََ وزارتِ عظمیٰ کے منصب پرفائز کردینا چاہیے تاکہ ملک وقوم کابھلاہو۔اگر امریکہ کوپتہ چل گیاتو شدیدخطرہ ہے کہ کہیں وہ ہمارے اِس ”انمول ہیرے“ پرقابض نہ ہوجائے اورہم ہاتھ ملتے رہ جائیں۔موصوف کواِس بات کابھی شکوہ ہے کہ اُنہوں نے تقریباََتمام سیاسی جماعتوں کا دَر کھٹکٹایا لیکن کسی نے بھی اُنہیں گھاس تک نہیں ڈالی اِس لیے اُنہوں نے انتہائی کرب کے عالم میں لکھا ”میاں صاحبان اوراحسن اقبال صاحب کو جیت مبارک ہو ۔پختونخوا والوں کو تبدیلی کے نام پردائمی رسوائی اوربلوچستان والوں کو قوم پرست انقلاب کے نام پردائمی پسماندگی مبارک ہو “۔ہمیں یوں تو لکھاری موصوف سے دلی ہمدردی ہے کہ اُن کے رونے پیٹنے اورچیخنے چلانے کوسیاسی قائدین نے سِرے سے اہمیت ہی نہیں دی ،ہونا تویہ چاہیے تھاکہ کوئی ہاتھ تواُن کی اشک شوئی کے لیے اُٹھتالیکن ہوایہ کہ سبھی نے اقتصادی راہداری کے معاملے میں کہہ دیا ”قدم بڑھاوٴ نوازشریف ! ہم تمہارے ساتھ ہیں“۔ میاں نواز شریف مطمٴن ہوکر جنرل راحیل شریف کے ہمراہ سعودی عرب اورایران کے مابین اختلافات دورکرنے کے مبارک ”امن مِشن“ پر سعودی عرب اورایران کے دَورے پر روانہ ہوئے اورنوحہ خوانی کے لیے لکھاری موصوف کو”روتاکُرلاتا“ چھوڑگئے ۔
اقتصادی راہداری کے بارے میں سبھی جانتے ہیں کہ اِس کی حیثیت ”گیم چینجر“ کی سی ہے اورقدرت نے پاکستان کوجو جغرافیائی حیثیت عطاکی اُس کا 68 سال بعدپہلی دفعہ درست سمت میں سفر کاآغاز ہونے جارہا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے پڑوسی بھارت کے پیٹ میں مروڑاُٹھ رہے ہیں اور وہ قدم قدم پراقتصادی راہداری کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوشش کررہا ہے کیونکہ وہ دفاعی لحاظ سے مضبوط ایٹمی پاکستان کومعاشی لحاظ سے مضبوط ہوتانہیں دیکھ سکتا ۔اگر ایساہو گیا(انشاء اللہ ایساہی ہوگا) توبھارتی چودھراہٹ کے سارے خواب چکناچور ہوجائیں گے۔ اُدھر امریکہ بہادربھی مشوش کہ پاکستان طوقِ غلامی گلے سے اتارکر نہ صرف چین کے قریب ترہوتا جارہا ہے بلکہ روس سے بھی رابطے میں ہے ۔مسٴلہ یہاں بھی چودھراہٹ کا ،دُنیا کی واحدسُپرپاور بڑاچودھری (امریکہ) اِس تشویش میں مبتلاء کہ اُس کے خلاف کہیں ایسا بلاک نہ بن جائے جوکَل کلاں اُس کی آنکھوں میںآ نکھیں ڈال کربات کرنے کے قابل ہوجائے لیکن ہمارے لکھاری موصوف کی تشویش ذرا مختلف ۔اُنہیں یہ تشویش کہ اقتصادی راہداری کاپنجاب سے گزرنے والا”مشرقی روٹ“ کیوں؟۔ دراصل لکھاری موصوف کوصرف میاں برادران ہی نہیں، پنجاب سے بھی نفرت ہے جس کاوہ گاہے بگاہے اپنے کالموں میں اظہارکرتے رہتے ہیں البتہ اندازیہ کہ جیسے وہ سب کچھ پنجاب کی حمایت میں لکھ رہے ہیں ۔اب جبکہ تمام سیاسی قیادت ایک صفحے پر، یہ طے ہوچکاکہ مغربی روٹ سب سے پہلے تیارہوگا ،اِس روٹ کی سڑک کوچار رویہ کی بجائے چھ رویہ کرنے کاعندیہ بھی اِس شرط کے ساتھ دیاجا چکا کہ چھ رویہ کرنے کے لیے زمین خیبرپختونخوا حکومت فراہم کرے گی البتہ رقم کی فراہمی مرکزی حکومت کے ذمہ ہوگی ،یہ بھی طے پاچکا کہ مشرقی روٹ، مغربی روٹ کے بعدبنے گاجس کی تکمیل میں تین ،چارسال کاعرصہ درکارہوگا ۔اِس کے علاوہ تمام صنعتی زونز صوبوں کی باہمی مشاورت سے بنائے جانے کافیصلہ بھی ہوچکا ۔پھر پتہ نہیں کیوں لکھاری موصوف ہر دوسرے ،تیسرے دِن اقتصادی راہداری پرموشگافیاں کرتے رہتے ہیں۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
پروفیسر رفعت مظہر کے کالمز
-
پنچھی پَر پھڑپھڑانے لگے
منگل 15 فروری 2022
-
جھوٹ کی آڑھت سجانے والے
منگل 8 فروری 2022
-
اُنہوں نے فرمایا ۔۔۔۔ ۔
پیر 31 جنوری 2022
-
صدارتی نظام کا ڈھنڈورا
پیر 24 جنوری 2022
-
کورونا کی تباہ کاریاں
منگل 4 جنوری 2022
-
جیسی کرنی، ویسی بھرنی
منگل 28 دسمبر 2021
-
قصّہٴ درد سناتے ہیں کہ مجبور ہیں ہم
منگل 21 دسمبر 2021
-
ہم جس میں بَس رہے ہیں
پیر 13 دسمبر 2021
پروفیسر رفعت مظہر کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.