
ہمارے بھی ہیں رہنماکیسے کیسے
منگل 25 اکتوبر 2016

پروفیسر رفعت مظہر
(جاری ہے)
ہم یہ تو ہرگز تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ کپتان صاحب جہادی تنظیموں سے مدد لے رہے ہیں۔ بھلے دانیال عزیز نے یہی دعویٰ کیا ہے لیکن اِس میں بھی کوئی شک نہیں کہ خاں صاحب کے پہلو میں کھڑے شیخ رشید لاشوں پر اور لاشوں کی سیاست کرنا چاہتے ہیں۔ ایسا وہ عمران خاں کی محبت میں نہیں بلکہ بغضِ معاویہ کے تحت میاں نوازشریف سے بدلہ لینا چاہتے ہیں۔وجہ اِس کی یہ کہ اُنہوں نے نون لیگ میں واپس جانے کے لیے بہت” منتیں ترلے“ کیے لیکن میاں برادران نے اُنہیں گھاس تک نہیں ڈالی۔ نیوز چینلز پر ابھی بھی وہ فوٹیج موجود ہوگی جب شیخ صاحب نون لیگ میں واپسی کی تگ ودَو کر رہے تھے۔ اُس زمانے میں تو وہ برملا کہا کرتے تھے کہ عمران خاں کے پاس تانگے کی سواریاں بھی نہیں۔ اب جب کہ اُن کے اپنے پاس رکشے کی سواریاں بھی باقی نہیں بچیں، تو وہ کپتان صاحب کے ذریعے انتقامی سیاست کر رہے ہیں ۔ اگر خاں صاحب نے شیخ رشید کے بہکاوے میں آکر تشدد کی راہ اپنائی تو پھر اُن کی سیاست کا نومبر 16ء میں ہی خاتمہ ہو جائے گا اور وہ اصغر خاں کی طرح گمنامی کے اندھیروں میں گُم ہو جائیں گے۔
کپتان صاحب اگر واقعی جمہوریت پہ یقین رکھتے ہیں تو پھر اُنہیں جمہوری اداروں پر بھی اعتماد کرنا چاہیے۔ وہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ ادارے میاں نوازشریف کے قبضہٴ قدرت میں ہیں لیکن اعلیٰ عدلیہ تو بہرحال آزاد ہے جس نے پاناما لیکس کے حوالے سے وزیرِ اعظم سمیت سب کو نوٹس جاری کرتے ہوئے یکم نومبر کو طلب کر لیا ہے۔ سپریم کورٹ میں خاں صاحب خود ہی گئے تھے ، کسی نے اُنہیں مجبور تو نہیں کیا تھا۔ اب جب کہ سپریم کورٹ نے سب کو طلب کر لیا اور نوازلیگ نے اِس طلبی کی آئینی حیثیت کو چیلنج نہ کرنے کا فیصلہ بھی کر لیاہے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے ( حالانکہ آرٹیکل 184 کے تحت وہ اِس کو چیلنج کرنے کا حق بھی رکھتی ہے ) ، تو پھر اسلام آباد کو بند کرنے کا کیا جواز باقی بچتا ہے۔ خاں صاحب سے سوال کیا جا سکتا ہے کہ کیا یکم نومبر کو وہ سپریم کورٹ میں داد رَسی کے لیے حاضر ہوں گے اور پھر 2 نومبر کو وہ اسلام آباد بند کرکے اُسی سپریم کورٹ کو بند کرنے کی سعی بھی کریں گے؟۔ نوازلیگ پر تو وہ ایڑیاں اُٹھا اُٹھا کر یہ الزام دھرتے نہیں تھکتے کہ اُس نے سپریم کورٹ پر حملہ کیا ، اب یہی کچھ تو وہ بھی کرنے جا رہے ہیں۔ کیا یہی ”نیا پاکستان“ ہے جس کے وہ گلی گلی نعرے لگا رہے ہیں؟۔
کپتان صاحب نے چینی سفیر سے ملاقات میں کہا کہ سی پیک گیم چینجر منصوبہ ہے اور وہ اِس حوالے سے حکومت کے ساتھ ہیں حالانکہ وہ اِس منصوبے پر اپنے تحفظات کا کئی مرتبہ اظہار کر چکے ہیں۔ اُن کے وزیرِاعلیٰ پرویزخٹک تو اب بھی برملا کہتے ہیں کہ یہ منصوبہ صرف پنجاب کو فائدہ پہنچانے کے لیے ہے اور وہ اقتصادی راہداری کو خیبرپختونخوا سے نہیں گزرنے دیں گے۔ اگر خاں صاحب نے واقعی سی پیک پر یوٹرن لے لیا ہے تو یہ خوش قسمتی کی بات ہے۔ سوال مگر یہ ہے کہ وہ اسلام آباد کو بند کرکے اِس گیم چینجر منصوبے کی راہ میں رکاوٹیں کیوں کھڑی کر رہے ہیں؟۔ سبھی جانتے ہیں کہ اِس منصوبے کی وجہ سے بھارتی نیتاوٴں کے پیٹ میں مروڑ اُٹھ رہے ہیں اور اُن کی راتوں کی نیندیں حرام ہو چکی ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ خاں صاحب افراتفری پیدا کرکے بھارتی نیتاوٴں کو خوش کرنا چاہتے ہوں؟۔
اگر خاں صاحب کو واقعی ملک وقوم سے محبت ہے تو وہ اسلام آباد بند کرنے کی ضد چھوڑ کر قومی دھارے میں شامل ہو جائیں اور عدالتوں کو اپنا کام کرنے دیں۔ یہ بجاکہ احتجاج اُن کا جمہوری حق ہے اور یہ حق اُن سے کوئی نہیں چھین سکتا لیکن ایسا احتجاج جو عوام سے اُن کی آزادی چھین لے ،اُس کی اجازت دنیا کی کوئی جمہوریت نہیں دے سکتی۔ آپ اسلام آبادکے باسیوں سے تو قربانی کے طلبگار ہیں لیکن آپ خود تو 2014ء کے دھرنوں میں اپنے پیروکاروں کے ساتھ رہنے کی بجائے چپکے سے بنی گالہ کھسک جایا کرتے تھے کیونکہ کنٹینر پرآپ کی نیند ڈسٹرب ہوتی تھی۔ آپ کے اپنے بچے لندن میں دنیا جہان کی ہر سہولت سے لطف اندوز ہو رہے ہیں اور قوم کے بچوں سے قربانی مانگتے ہیں۔ یہ بھلا کہاں کا انصاف ہے۔ انصاف کا تقاضہ تو یہ ہے کہ آپ اپنے بچوں کو پاکستان بلا کر باقی لوگوں کے ساتھ دھرنے میں بٹھا دیں ،اپنے پُرتعیش کنٹینر ٍمیں اُن کا داخلہ ممنوع قرار دے دیں ۔ پھر دیکھتے ہیں کہ وہ کتنے”گھنٹے “اُس سڑک پر بیٹھتے ہیں۔ کیا یہ قُربانیاں قوم کے جذباتی نوجوانوں کا ہی فرض ٹھہرا،آپ کے بچوں کا نہیں؟۔
چلتے چلتے اِس دَورِجدید کے رہنماوٴں سے گزارش ہے کہ وہ مسندِاقتدار کی جنگ میں جتنا جی چاہے ،باہم جوتم پیزار ہوں ،کسی کو بھلا کیا اعتراض ہو سکتا ہے لیکن خُدارا ! گھٹیا زبان استعمال کرکے نسلِ نَو کی تباہی وبربادی کا باعث نہ بنیں۔ ایک طرف کپتان صاحب کہتے ہیں کہ وہ بے شرم ،بے غیرت ہسپتالوں کو بھی نہیں بخشتا جبکہ دوسری طرف خواجہ آصف کہتے ہیں کہ بے شرم اور بے غیرت تو وہ ہے جو زکواةکا پیسہ آف شور کمپنیوں میں لگاتا ہے ،جو اپنی ماں کے نام پر کھولے گئے ہسپتال کو بھی نہیں بخشتا۔ قوم یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہے کہ کیا قومی رہنماوٴں کا یہی وتیرہ ، یہی انداز اور یہی زبان ہوتی ہے؟۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
پروفیسر رفعت مظہر کے کالمز
-
پنچھی پَر پھڑپھڑانے لگے
منگل 15 فروری 2022
-
جھوٹ کی آڑھت سجانے والے
منگل 8 فروری 2022
-
اُنہوں نے فرمایا ۔۔۔۔ ۔
پیر 31 جنوری 2022
-
صدارتی نظام کا ڈھنڈورا
پیر 24 جنوری 2022
-
کورونا کی تباہ کاریاں
منگل 4 جنوری 2022
-
جیسی کرنی، ویسی بھرنی
منگل 28 دسمبر 2021
-
قصّہٴ درد سناتے ہیں کہ مجبور ہیں ہم
منگل 21 دسمبر 2021
-
ہم جس میں بَس رہے ہیں
پیر 13 دسمبر 2021
پروفیسر رفعت مظہر کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.