
کیسا ہو گا نیا پاکستان۔۔۔۔؟؟
منگل 29 مئی 2018

پروفیسر رفعت مظہر
(جاری ہے)
کپتان کی پارلیمنٹ میں اچانک آمد پر قائدِ حزبِ اختلاف سیّد خورشید شاہ نے کہا
بڑی دیر کی مہرباں آتے آتے
سیّد خورشید شاہ بھی ”بھولے بادشاہ“ ہیں۔ بھئی! کپتان نے اُسی وقت ہی پارلیمنٹ میں آنا تھا جب ”خلائی مخلوق“ اُنہیں یقین دلا دیتی کہ قائدِایوان کی کرسی اُن کی راہوں میں آنکھیں بچھائے بیٹھی ہے۔ کیا ”صاحب نے کھایا پِیا کچھ نہیں ،گلاس توڑا بارہ آنے“ کے مصداق وہ صرف لوگوں کی ”سَڑی بُسی“ باتیں سننے کے لیے آتے؟۔
اب جبکہ ہمیں یقین ہو چلا ہے اور تجزیہ نگاروں کا خیال بھی یہی ہے کہ کپتان ہی اگلے وزیرِاعظم ہوں گے تو ہم اپنے قارئین کو اُس ”نئے پاکستان“ کی ایک ”جھلک“ دِکھانے کی سعی کر رہے ہیں جس کی تصویر کشی ہماری چشمِ تصوّر نے کی۔ ”نئے پاکستان“ کی تصویرکشی کی بنیادہم نے تحریکِ انصاف کی اُنہی ”حرکات“ پر رکھی ہے جن کا مشاہدہ یہ قوم گاہے بگاہے کرتی رہتی ہے، ہم نے اپنی طرف سے کوئی ”ڈَنڈی“ نہیں ماری۔ اگر کسی کو نئے پاکستان کی یہ جھلک اچھی لگے تو پیشگی شکریہ اور اگر بُری لگے تو اَزراہِ کرم گالیاں مت دینا۔
2018ء کے انتخابات کے بعد پارلیمنٹ میں اکتیسویں ترمیم کے تحت جو پہلا بِل پیش کیا جائے گا، اُس کے مطابق ”یوٹرن“ کو آئینی حیثیت دے دی جائے گی۔ ہمیں یقین ہے کہ یہ بِل تین چوتھائی اکثریت سے منظور ہو جائے گا۔ متفقہ طور پر اِس لیے منظور نہیں ہو سکتا کہ مولانافضل الرحمٰن ”پھَڈا“ ڈال کے بیٹھ رہیں گے کیونکہ اُن کے نزدیک تو اِس آئینی ترمیم کی بجائے اتنا ہی کافی ہوگا کہ جہاں کہیں یوٹرن آئے، وہاں وزیرِاعظم کی تصویر لگا دی جائے۔ ہماری تجویز ہے کہ حکومت اپنی اوّلین فُرصت میں ایک ایسی اکیڈمی کا قیام عمل میں لائے جہاں ارکانِ پارلیمنٹ کو یوٹرن لینے کی باقاعدہ تربیت دی جائے اور اُنہیں بتایا جائے کہ جس طرح ”نظریہٴ ضرورت“ ملک وقوم کے بہترین مفاد میں ہوتا ہے، اُسی طرح یوٹرن بھی مفادِ عامہ کے لیے ہی لیا جاتا ہے۔ اِس ترمیم سے ”لوٹے“ بھی بھرپور فائدہ اُٹھا سکتے ہیں کیونکہ وہ بھی تو ملک وقوم کے بہترین مفاد ہی میں اِدھراُدھر ”پھُدکتے“ رہتے ہیں۔
32ویں ترمیم کے تحت کوئی بھی حکومتی یا نِجی تقریب اُس وقت تک منعقد نہیں کی جاسکے گی جب تک اُس میں میوزیکل کنسرٹ کا ”تَڑکا“ نہ لگایا جائے۔ اِس ترمیم کا خصوصی اثر عوامی اجتماعات پر ہوگاجہاں ”آم کے آم، گٹھلیوں کے دام“ کے مصداق نوجوانانِ وطن اپنے رَہنماوٴں کے خطابات سے مستفید بھی ہو سکیں گے اور مدھر موسیقی سے لطف اندوز ہوتے ہوئے تھوڑا بہت ”تھِرک“ بھی لیں گے۔ جب ابرارالحق ”اَج میرا نَچنے نوں جی کردا“ گائیں گے تو ”نَچنے نوں جی“ تو خوامخواہ کرے گا ہی۔۔۔ ۔ گَر قبول اُفتند، ہماری تجویز ہے کہ میوزیکل کنسرٹ کا اہتمام وزیرِاعظم کے ٹیلی ویژن پر قوم سے خطاب پر بھی کیا جائے۔ اگر خطاب سے پہلے ”قمیض تیری کالی“ یا ”کِنّے کِنّے جانا اے بِلّو دے گھر“ سُنا دیا جائے تو وزیرِاعظم کی تقریر کا مزہ دوبالا ہو سکتا ہے۔ جب وزیرِاعظم کا قوم سے خطاب شروع ہو تو بَیک گراوٴنڈ میں ہلکی ہلکی موسیقی بھی جاری رہے۔ اگر تقریر کے دوران وزیرِاعظم کی کُرسی کے عین پیچھے پرویز خٹک تھِرکتے رہیں تو کیا ہی بات ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ جب کبھی بھی ٹی وی پر وزیرِاعظم کی تقریر کا غلغلہ اُٹھے گا، سارے نیوزچینلز مالکان اُس تقریر کو براہِ راست نشر کرنے کے لیے ننگے پاوٴں دوڑ اُٹھیں گے۔ ایسی صورت میں صرف ایک ہی تقریر پر چینلزمالکان سے اَربوں ،کھربوں بٹورا جا سکتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ نئے پاکستان کے اِس پروگرام پر عمل درآمد کی صورت میں مولوی صاحبان ”چوں چاں“ ضرور کریں گے کیونکہ وہ تو قوم کو خوش ہوتا دیکھ ہی نہیں سکتے۔ بات اگر اُن کے بیانات تک محدود رہے تو حکومت صَرفِ نظر کرے لیکن اگر معاملہ احتجاجی دھرنوں اور ”فتووں“ تک پہنچ جائے تو اُنہیں ایسی ”گِدڑ کُٹ“ لگائی جائے کہ دِن میں تارے نظر آجائیں۔ ایسا کرنا اِس لیے بھی ضروری ہے کہ حکومت اگلے پانچ سال چین سے گزار سکے۔ ویسے بھی تحریکِ انصاف دھرنوں کی ماسٹر بلکہ ہیڈماسٹر ہے اِس لیے اُسے اِس معاملے میں مشورے دینا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے لیکن پھر بھی ہم نے مشورہ دینا اپنا فرضِ عین سمجھا۔
ماضی میں کپتان کو ”طالبان خاں“ کا خطاب بھی دیا جاتا رہا۔ وہ آج بھی طالبان کے لیے اپنے دِل میں ہمدردی کے جذبات رکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم نے ”ایویں خوامخواہ“ طالبان کے خلاف ایکشن لے کر اپنے آپ کو ”وَخت“ میں ڈال لیا۔ ہم کپتان کے اِن خیالات سے مکمل اتفاق کرتے ہوئے یہ تجویز پیش کرتے ہیں کہ طالبان سے مذاکرات کی بحالی کا عمل فوری طور پر شروع کیا جائے اور اِس سلسلے میں بھی ”میوزیکل کنسرٹ“ جیسے ہتھیار سے کام لیا جا سکتا ہے کیونکہ موسیقی روح کی غذا ہے اور طالبان کی روحیں ”گندی“ ہو چکی ہیں جنہیں پاک کرنے کے لیے میوزیکل کنسرٹ ضروری ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ جب مدھر موسیقی کی دھنیں فضاوٴں میں گونجیں گی تو سارے طالبان ہتھیار پھینک کر تھرکنا شروع ہو جائیں گے۔ اِس سلسلے میں یہ احتیاط ضروری ہے کہ تحریکِ انصاف اپنے اتحادی مولانا سمیع الحق کو اپنے اِس پروگرام کی کانوں کان خبر نہ ہونے دے ۔ اگر اُن کے کانوں میں اِس کی بھنک بھی پڑ گئی تو وہ ”پھڈا“ ڈال دیں گے۔
نوٹ:۔ حکومتی خدوخال اور اندازِ سیاست، اگلے کالم میں (جاری ہے) ۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
پروفیسر رفعت مظہر کے کالمز
-
پنچھی پَر پھڑپھڑانے لگے
منگل 15 فروری 2022
-
جھوٹ کی آڑھت سجانے والے
منگل 8 فروری 2022
-
اُنہوں نے فرمایا ۔۔۔۔ ۔
پیر 31 جنوری 2022
-
صدارتی نظام کا ڈھنڈورا
پیر 24 جنوری 2022
-
کورونا کی تباہ کاریاں
منگل 4 جنوری 2022
-
جیسی کرنی، ویسی بھرنی
منگل 28 دسمبر 2021
-
قصّہٴ درد سناتے ہیں کہ مجبور ہیں ہم
منگل 21 دسمبر 2021
-
ہم جس میں بَس رہے ہیں
پیر 13 دسمبر 2021
پروفیسر رفعت مظہر کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.