"امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ"

منگل 27 اپریل 2021

Rabia Fatima

رابعہ فاطمہ


از قلم رابعہ فاطمہ
نام: حضرت امام حسن مجتبی رضی اللہ تعالی عنہ
کنیت: ابو محمد
 القاب :  تقی،  سیّد،  سِبطِ رسولُ اللّٰہ اور سبط اکبرہے،  آپ کو رَیْحَانَۃُ الرَّسُوْل  (یعنی رسولِ خدا کے پھول) بھی کہتے ہیں۔
آپ رضی اللہ تعالی عنہ 3 ھ نصف رمضان المبارک میں پیدا ہوئے۔آپ پانچویں خلیفہء راشد ہیں، امت کو خونریزی سے بچانے کے لیے 15 جمادی الاولی 41 ھ میں خلافت حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے سپرد فرمادی ۔


آپکی تاریخ شہادت میں اختلاف ہے حضرت سیّدنا امام حسن مجتبیٰرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کو زہردیا گیا۔ اُس زہر کا آپرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہپر ایسا اثر ہوا کہ آنتیں ٹکڑے ٹکڑے ہوکر خارِج ہونے لگیں،  40 روز تک آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کو سخت تکلیف کے سبب 44 ھ یا 49 ھ یا 50 ھ یا 58 ھ میں شہید ہوگئے ۔

(جاری ہے)


نماز جنازہ حضرت سعید بن عاص رضی اللہ تعالی عنہ نے پڑھائی ۔

جنت البقیع میں اپنی والدہ کے پہلو میں مدفون ہوئے۔
فضائل و مناقب:
دو خوشبودار پھول:
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کردہ حدیث کریمہ کا جز ہے کہ
وقال النبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم هُمَا رَیْحَانَتَايَ مِنَ الدُّنْیَا.
(البخاري في الصحیح، کتاب المناقب، باب مناقب الحسن والحسین، 3/ 1371، الرقم: 3543 ، ترمذی ، وابن ماجہ)
’’(حسن اور حسین) گلشن دنیا میں میرے دو خوشبودار پھول ہیں‘‘۔


اہل بیت میں سب سے زیادہ پیارے:
حضرت انس ابن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ
سُئِلَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم أَيُّ أَهْلِ بَیْتِکَ أَحَبُّ إِلَیْکَ قَالَ الْحَسَنُ وَالْحُسَیْنُ وَکَانَ یَقُولُ لِفَاطِمَةَ ادْعِي لِيَ ابْنَيَّ فَیَشُمُّهُمَا وَیَضُمُّهُمَا إِلَیْهِ.
(جامع الترمذی، الرقم:3781، مسند احمد )
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا اہل بیت میں سے آپ کو کون زیادہ محبوب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا حسن اور حسین۔

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت فاطمہ سے فرمایا کرتے تھے کہ میرے دونوں بیٹوں کو میرے پاس بلاؤ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کو سونگھتے اور اپنے ساتھ چمٹالیتے‘‘۔
جوانوں کے سردار:
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ
الحسن والحسین سیدا شباب أهل الجنة.
(احمد بن حنبل، المسند، 3/3، رقم 11012، 3/62، رقم 11612، ترمذی)
’’حسن و حسین رضی اللہ عنہما کل جنتی جوانوں کے سردار ہیں‘‘۔


إنی أحبهما فأحبهما وأحب من یحبهما:
اللهم إنی أحبهما فأحبهما وأحب من یحبهما.
’’ اے اللہ! میں حسن و حسین رضی اللہ عنہما سے محبت کرتا ہوں، تو بھی ان سے بھی محبت کر اور جو ان سے محبت کرے تو اُن سے محبت کر‘‘
(ترمذی، السنن، 5/656، رقم 3769)
حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ دن کے وقت نکلا، نہ آپ مجھ سے بات کرتے تھے نہ میں آپ سے ( یعنی بالکل خاموش)  یہاں تک کہ ہم بنو قینقاع کے بازار میں داخل ہوئے اور پھر آپ لوٹے اور حضرت فاطمہ کے گھر آئے اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے پوچھا : ’’  بچہ ہے ، بچہ ہے یعنی سیدنا حسن کو ہم سمجھے ان کی ماں نے روک رکھا ہے، نہلانے دھلانے اور خوشبو لگانے کے لیے لیکن تھوڑی ہی دیر بعد وہ دوڑتے ہوئے آئے اور دونوں ایک دوسرے سے گلے ملے پھر رسول اللہ نے فرمایا  ’’ اے اللہ !میں ا سے محبوب رکھتا ہوں تو بھی اسے محبوب  رکھ۔

" (مسلم شریف ج۔6،باب فضائل الحسن و الحسین ،حدیث نمبر 6257)
حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو دیکھا کہ حضرت حسن بن علی آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے مبارک شانو پر تھے اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم فرماتے یا اللہ! میں اس سے محبت رکھتا ہوں، تو بھی اس سے محبت رکھ۔( مسلم شریف ج۔ 6،باب فضائل الحسن و الحسین ،حدیث نمبر 6258)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے رسول اللہ نے حسن رضی اللہ تعالی عنہ کے لیے فرمایا:یا اللہ میں اس سے محبت رکھتا ہوں تو بھی اس سے محبت رکھ ، اور اس سے بھی جو ان سے محبت رکھے۔

( صحیح بخاری، کتاب المناقب، باب مناقب الحسن والحسین)
حضرت بریدہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم خطبہ دے رہے تھے اس دوران حسن و حسین آگئے ان پر سرخ قمیضیں تھیں اور وہ گرتے پڑتے چلے آرہے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم منبر سے اترے دونوں کو اٹھایا اور سامنے بٹھالیا پھر فرمایا اللہ نے سچ فرمایا ہے "انما اموالکم واولادکم فتنة" بیشک تمہارا مال اور تمہاری اولاد آزمائش ہیں۔

میں نے ان دونوں بچوں کو دیکھا تو صبر نہ کرسکا اور اپنہ بات چھوڑ کر ان کو اٹھالیا۔ ( ترمذی، ابو داؤد ، نسائی، ابن ماجہ)
دو گروہ کے درمیان صلح:
حضرت حسن بصری علیہ الرحمة بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت ابو بکر کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو برسر منبر یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ آپ کے ایک پہلو میں حضرت حسن تھے آپ نے ایک بار لوگوں کی جانب دیکھا اور دوسری بار ان کی جانب دیکھ کر فرمایا : میرا یہ بیٹا سردار ہے۔

اللہ اس کے ذریعے مسلمانوں کے دو گروہوں کے درمیان صلح کروائے گا۔
مشابہت رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم:
زہری بیان کرتے ہیں کہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ نے ہمیں بتایا ہے کہ حضرت حسن بن علی سے زیادہ نبی سے کوئی اور مشابہت نہیں رکھتا تھا۔( صحیح بخاری، کتاب المناقب، باب مناقب الحسن والحسین،)
شانہء اقدس پر سوار:
حضور پُرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ حضرت حسن مجتبیٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کو شانۂ اقدس  پرسُوار کئے ہوئے تھے تو ایک آدمی نے عرض کی : نِعْمَ الْمَرْکَبُ رَکِبْتَ یَا غُلَام یعنی صاحبزادے ! آپ کی سواری تو بڑی اچھی ہے۔

رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : وَنِعْمَ الرَّاکِبُ هو یعنی سواربھی تو کیسا اچھا ہے!       (ترمذی)
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حسن و حسین کو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے کندھوں پر سوار دیکھا تو ان سے کہا کہ اپ کی سواری کتنی اچھی ہے ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا یہ بھی تو دیکھو کہ سوار کتنے اچھے ہیں۔ ( مجمع الزوائد)۔
اللہ کریم ہمیں آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی سیرت مطہرہ پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :