خواتین کے عالمی دن کے موقع پر فیصل آباد میں منعقد ہونے والی "انیسویں سالانہ وویمن کانفرنس" کا احوال

جمعرات 8 اپریل 2021

Rana Zahid Iqbal

رانا زاہد اقبال

خواتین کے عالمی دن کے موقع پر فیصل آباد میں خواتین کی فلاح و بہبود کے لئے کام کرنے والی سماجی تنظیم ایوارڈ کے زیرِ اہتمام مقامی ہوٹل میں "انیسویں سالانہ وویمن کانفرنس" کا انعقاد کیا گیا۔ جس کی مہمانِ خصوصی محترمہ آسیہ ناصر ( سابقہ ایم این اے) تھیں، صدارت محترمہ نجمہ افضل (سابقہ ایم پی اے) نے کی جب کہ محترمہ تہمینہ پاشا (پریذیڈینٹ فیصل آباد وویمن چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری)، محترمہ روبینہ امجد فاوٴنڈر پریذیڈینٹ (فیصل آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری فیصل آباد)، محترمہ شاہدہ آفتاب (وائس پریذیڈینٹ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری فیصل آباد) اورمحترمہ یاسمین سیسل چےئر پرسن ایوارڈ و پرنسپل ڈویژنل پبلک سکول فیصل آباد مہمانانِ اعزاز تھیں۔

خواتین مقررین عائشہ رفیق ایڈووکیٹ، رخسانہ اور مس کہکشاں جبران کا کہنا تھا کہ عورتوں نے مردوں کے شانہ بشانہ زندگی کے ہر مرحلے کو طے کرنے میں اپنی بھر پور صلاحیتوں کا استعمال کیا۔

(جاری ہے)

معاشرتی زندگی میں عورت کی شرکت کی یہ فلاسفی رکھی کہ اس کے تعاون اور اشتراک سے سماجی زندگی میں آسانی پیدا ہو گی۔ معاشرتی زندگی میں عورت مرد کی شرکت کا محرک وہ نکتہ ہے جو اسے بہت سارے میدانوں میں کام کرنے کے مواقع فراہم کرتا ہے۔

اس کو مختلف و متنوع تجربات سے ہم کنار کرتا ہے اور اس کی اہمیت میں اضافہ کرتا ہے۔ اس دن کے منانے کا مقصد خواتین کو ان کے بنیادی حقوق کے بارے میں آگاہی دینا اور ان کی معاشرتی اہمیت کو جاگر کرناہے۔ صنفی امتیاز، جنسی ہراسانی، جہیز کے خاتمے، عورتوں کو معاشی آزادی، وراثت میں حق اور کام کی جگہ پر یکساں حقوق و مراعات دینے کے مطالبات کئے گئے۔


مہمانِ خصوصی محترمہ آسیہ ناصر ( سابقہ ایم این اے) کا کہنا تھا کہ دنیا بھر کی خواتین اپنے حقوق کی بازیابی کے لئے مختلف ممالک میں کوشاں ہیں۔ اس حوالے سے اقوامِ متحدہ نے بھی 8 مارچ کا دن مقرر کر رکھا ہے مگر دنیا بھر میں خواتین کے مسائل اس قدر گہرے ہیں کہ ایک دن میں کچھ بھی نہیں ہو سکتا ہے۔ دنیا بھر میں خواتین مختلف مسائل کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہیں۔

انہیں بچانے والا کوئی نہیں ، جو ہے وہ صرف نعرے کی حد تک ان کے ساتھ ہے۔ جب کہ خواتین کو سنگین مسائل کا سامنا ہے، کہیں ان پر سیاسی سرگرمیوں کے دروازے بند ہیں، وہ کہیں وزیرِ اعظم تو کہیں صدر منتخب ہونے سے قاصر ہیں۔ پاکستان میں خواتین کو قتل، آنر کلنگ، اغواء، زیادتی، تیزاب گردی اور گھریلو تشدد کا سامنا ہے۔ بہت سی خواتین گھر کے اندر بہت بے بس اور مظلومیت کی زندگی بسر کرتی ہیں۔

کھیتوں میں کام کرنے والی کروڑوں خواتین کا سرے سے کوئی حق ہی نہیں، گھریلو ملازمین کے لئے آج تک کسی حکومت نے کوئی قانون بنایا ہی نہیں۔ جس کا دل چاہتا ہے، ننھی ملازمہ پر اپنی طاقت آزماتا ہے۔ 8 مارچ ہو یا 8 دسمبر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ خواتین کی زندگی پہلے کی طرح پرانے مسائل کے ساتھ رواں دواں رہتی ہے۔ ہماری خواتین محفوظ ماحول کی تلاش میں ہیں، ایسا ماحول جس میں وہ اپنی پسند کے مطابق رہ سکیں، اپنی خوشی منا سکیں، انہیں یہ خوف نہ ہو کہ کوئی ان کا پیچھا کر رہا ہے، کوئی انہیں دیکھ رہا ہے۔

گھر سے نکلنے والی عورت کو یہ نہ سوچنا پڑے کہ مڑ کر مت دیکھو، پتہ نہیں کتنی نظریں پیچھا کر رہی ہیں، یہ وقت کب آئے گا۔
محترمہ نجمہ افضل (سابقہ ایم پی اے)عورتوں کے حقوق کی سیاسی جد و جہد کی طویل تاریخ ہے۔ یہ تقریباً ڈیڑھ صدی پر محیط ہے۔ مغربی جمہوریتوں میں گزشتہ ایک صدی کی دوسری اور کہیں تیسری دہائی میں جا کر عورتوں کو ووٹ دینے کا حق ملا تھا۔

ہمارے معاشرے کی طرح مغرب کے صنعتی معاشرے میں بھی مرد کے قائم کردہ سماجی اور سیاسی نظام میں برابری کے درجے کا مطالبہ کرنا آسان نہ تھا۔ سب معاشروں میں وہی جاگیردارانہ سماج کا بیانیہ غالب تھا کہ مرد اور عورتیں بھلا کیسے برابر ہو سکتی ہیں؟عورتوں کی جگہ گھر میں ہے، باہر کی دنیا میں سیاست، حکمرانی، معیشت اور روزی کمانا مرد کی ذمہ داری ہے۔

یہ صرف ہمارے اور دیگر مشرقی مذاہب کا نقطہٴ نظر نہیں کہ مرد عورت کا محافظ ہے یہ تو صدیوں تک مغرب کا بھی مقالہ رہا ہے۔
محترمہ تہمینہ پاشا (پریذیڈینٹ فیصل آباد وویمن چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری) کا کہنا تھا کہپاکستان میں عورتوں کے حقوق کے جواز اورا ن کے خلاف دلائل اور خدشات دونوں مغرب میں کئی دہائیوں سے جاری سماجی تصادم کا عکس ہیں۔

صرف ہماری محدود پاکستانی دنیا نہیں بلکہ تمام عالم جس ترقی کی زد میں ہے اس تصادم سے نہ تو بچا سکتا ہے اور نہ ہی اس کا کوئی آسان سیاسی حل کسی کے پاس موجود ہے۔ عورتوں کو برابری کے حقوق کہیں بھی اور خصوصاً قدامت پسند مذہبی سماجوں میں میسر نہیں۔ ہمارا قبائلی اور جاگیردرانہ معاشرہ مردانہ نوعیت کا ہے۔ لاکھوں نہیں کروڑوں عورتوں کے حقوق کا مسئلہ وطنِ عزیز میں بہت گھمبیر ہے۔

عورتوں نے آواز بلند کرنا شروع کی ہے۔ 1968ء میں کارل مارکس نے کہا تھا کہ جو کوئی تاریخ کے بارے میں ذرا سا بھی علم رکھتا ہے اسے معلوم ہے کہ عورتوں کی پرجوش شرکت کے بغیر کوئی بڑا سماجی انقلاب نہیں آ سکتا۔ کارل مارکس کہنا تھا کہ سماجی ترقی کا اندازہ عورتوں کے سماجی مقام سے لاگیا جا سکتا ہے

محترمہ روبینہ امجد فاوٴنڈر پریذیڈینٹ (فیصل آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری فیصل آباد) کا کہنا تھا کہ ہر معاشرے میں عورتوں کو احتجاج کا حق حاصل ہے، یہ ان کا آئینی حق بھی ہے، بجائے اس کے ہم ان کے حق میں آواز بلند کریں ان کے ساتھ روزانہ کی بنیاد پر ہونے والی نا انصافیوں کے خلاف کھڑے ہوں، الٹا فحاشی، عریانی اور بے حیائی کے لیبل ان عورتوں کے ماتھے پر چسپاں کرنے لگتے ہیں۔

بچیوں کی شادیاں کمسنی میں کر دی جائیں، انہیں زیورِ تعلیم سے محروم رکھا جائے، وہ شعور و آگہی کی دولت سے محروم رہیں اور مالی معاملات میں مرد کے زیرِ تسلط رہیں۔ عورتوں کی کفالت کی ذمہ داری بھی کیا خوب دھوکا ہے کہ وہ ہر وقت کچھ لینے کے لئے ترستی رہیں اور مرد حضرات کی دستِ نگر رہیں۔ ماہر معالج کو یہ کہہ کر گھر بٹھا دیا جائے کہ خاندان کو پیسوں کی ضرورت نہیں۔

ہزاروں معالجوں کو ہم نے گھروں تک محدود کر رکھا ہے کہ خاوند یا اس کا باپ اصرار کرتا ہے کہ باہر کام کرنے کی ضرورت نہیں۔
دیگر مقررین نے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جب عورت اور مرد کے حوالے سے برابری کی بات کی جاتی ہے تو یہ مکمل طور پر انسانی شعور کے ارتقاء کا نتیجہ ہے، کلچر اور تہذیب کی ترقی ہے، انسان نے صدیوں کی تعلیم، تجربے اور تہذیب و تمدن کے بعد یہ سیکھا ہے کہ تمام انسان مرد و عورت برابر ہیں۔

یوں برابری کا یہ تصور انسانی تصور ہے جو فطرت کے کسی اور مظہر یا مخلوق میں نظر نہیں آتا۔ یہ فیصلہ ہم نے کرنا ہے کہ اگر ہم نے ایک انسانی معاشرے کو تشکیل دینا ہے تو پھر ہمیں انسانی تصور کے مطابق زندگی گزارنی ہو گی اور اگر جنگل کا معاشرہ ہمارا مقصد ہے تو پھر طاقتور اور کمزور، برتر اور کمتر کی تقسیم کو برقرار رکھنا پڑے گا۔ ہو سکتا ہے بعض معاملات میں مرد جسمانی طور پر عورت سے زیادہ طاقتور ہو خصوصاً جب عورت حاملہ ہوتی ہے تو وہ سخت کام نہیں کر سکتی، تیز حرکت نہیں کر سکتی، اس وقت مرد اسے جنگل کی آفات سے محفوظ رکھتا ہے، لیکن یہ بھی دیکھیے کہ اس دور میں عورت کا کام کتنا طاقتور ہے، وہ بچے کو جنم دیتی ہے، زندگی کو محفوظ کرتی ہے۔

جدید معاشرے میں جسم کی طاقت سے زیادہ علم و فنون میں مہارت کو اہمیت دی جاتی ہے۔ اگر آج عورت کے مطالبات پر غور کریں تو وہ ایک فرد ایک انسان کے طور پر زندہ رہنے کی خواہاں ہے۔ وہ چاہتی ہے کہ اسے کمزور، لاچار اور بوجھ بنا کر ترس نہ کھایا جائے، بلکہ سر اٹھا کر جینے اور صلاحیتیں آزمانے اکاموقع فراہم کیا جائے۔ بہر حال اتنے اسلوں کی جد و جہد اور شعور نے آج کی عورت کو اس مقام پر لا کھڑا کیا ہے کہ اب غلامی کی زنجیریں پہن کر جینا اس کے بس میں نہیں رہا۔

وہ بطور انسان جینا چاہتی ہے۔ عورت نے کسی ایسے عمل کی نفی نہیں کی جو اس کے وجود کا وظیفہ ہے۔ اس نے بچے پیدا کرنے ترک نہیں کئے، صرف اولادِ نرینہ کی خواہش میں درجن بھر بچے اور دوسری شادی کی اجازت دینے سے انکار کیا ہے۔اس نے ونی ہونے، کم عمری میں شادی، تعلیم ترک کرنے، غیرت کے نام پر قتل ہونے اور مالِ غنیمت بننے سے انکار کیاہے۔ آج 8 مارچ ہے آج اس کو احساس دلائیے کہ وہ کتنی اہم ہے۔

اس کے ذہن کی سلیٹ سے ڈر، خوف اور خدشات زائل کرنے کے لیے پورے معاشرے کو کردار ادا کرنا پڑے گا۔
ایگزیکٹو دائریکٹر ایوارڈ محترمہ کرسٹینا پیٹر کا کہنا تھا کہمعاشی شراکت داری اور معاشی مواقعوں کے شعبوں میں مردوں اور عورتوں کا فرق دنیا بھر میں 58 فیصد کا ہے یعنی مرد 100 فیصد کام کر رہے ہیں تو خواتین کو 58 فیصد مواقع میسر ہیں۔ مجموعی طور پر عالمی سطح پر صنفی فرق 68 فیصد ہے۔

اس حوالے سے غالباً 2018 میں عالمی ماہرین نے 144 ممالک میں خواتین کے بارے میں ڈیٹا مکمل کیا گیا جس میں پاکستان صرف شام سے اوپر 143 ویں نمبر پر تھا۔ جہاں تک معاشی شعبے میں شراکت داری کا تعلق ہے تو پاکستان میں صورتحال انتہائی خراب ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایوارڈ خواتین کو چھوٹے کاروبار کے لئے قرضہ جات مہیا کرتی ہے تا کہ وہ اپنے اور اپنے خاندان کے معاشی حالات بہتر کر سکیں۔

خواتین کو آمدنی بڑھانے کے لئے ایوارڈ تنظیم ٹریننگ کورسز کراتی ہے۔ 6 ماہ کا فینسی ایمبرائیڈری، کچن گارڈننگ، بیوٹی پارلر، 6 ماہ کا موبائل کی مرمت اور ایک سال کے ٹیلرنگ و ہینڈ ایمبرائیڈری کورسز کرائے جاتے ہیں تا کہ خواتین میں معاشی خود مختاری پیدا کی جا سکے۔ ان کا کہنا تھا اس سلسلے میں ایوارڈ دیہات اور شہروں کی محنت کش خواتین کو قرضہ حسنہ کی صورت میں کاروبار کرنے کے لئے فنڈز مہیا کرتی ہے اس کا نتیجہ ہے کہ آج بہت سی خواتین بڑی کامیابی سے کاروبار کر کے خاندان کی معاشی کفالت میں مددگار ہو رہی ہیں۔ پروگرام میں خواتین نے خوبصورت بھنگڑے اور گدے ڈالے جس سے حاضرین بہت محظوظ ہوئے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :