عمران خان کیوں مقبول ہوئے؟

پیر 23 نومبر 2020

Rana Zahid Iqbal

رانا زاہد اقبال

تحریکِ انصاف پر تنقید کی جاتی ہے کہ ایجنسیوں کی سپورٹ کی وجہ سے بڑے بڑے سیاستدان تحریکِ انصاف میں شامل ہوئے تھے۔ جیسے جیسے عمران خان کی مقبولیت میں اضافہ ہوا اس کے ساتھ ساتھ مختلف سیاسی پارٹیوں اور حلقوں کی جانب سے عمران خان پر تنقید بھی ہونی شروع ہو گئی تھی اور عمران خان کی سیاست کو مسترد کرنے کا سلسلہ بھی چل نکلا۔

ویسے تو پاکستان میں لیفٹ اور رائٹ کی سیاست کرنے والے دونوں ہی عمران خان اور تحریکِ انصاف پر تنقید کرتے رہے ہیں۔ لیفٹ کے نزدیک تحریکِ انصاف رائٹ اور لبرلز کا ملغوبہ ہے جب کہ رائٹ ونگ سیاسی پارٹیوں کے نزدیک اسٹیبلشمنٹ کی چھتری تلے قائم ہونے والی جماعت ہے۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ تحریکِ انصاف کو پنجاب، سرائیکی خطے، کراچی اور خیبر پختونخواہ میں پروفیشنل مڈل کلاس اور نوجوانوں کی جانب سے حمایت ملی، اسی وجہ سے ان علاقوں کی اشرافیہ جو ہر وقت حکومت میں رہنا چاہتی ہے انہوں نے تحریکِ انصاف میں شمولیت کوہی بہتر سمجھا۔

(جاری ہے)

ان سیاست دانوں کو نظر آ رہا تھا کہ عمران خان نوجوانوں میں بہت مقبول ہیں اور ان کے پیچھے چلنے والے نوجوانوں کے مسائل کچھ اور ہیں۔ یہ وہ نوجوان ہیں جو مروجہ سیاسی پارٹیوں خاص طور پر پیپلز پارٹی کی حکومت اور نواز لیگ کی بے عمل سیاست سے بیزار ہیں۔ دوسرا نوجوانوں کو جس چیز کی زیادہ ضرورت ہے وہ ہے سوشل آرڈر۔
عمران خان نے حکومت حاصل کرنے کے لئے دوسری پارٹیوں کی طرح روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ نہیں لگایا تھا بلکہ انہوں نے لوٹ مار اور کرپشن کو اپنے سیاسی منشور کا حصہ بنایا تھا۔

اقرباء پروری اور میرٹ کی خلاف ورزی جس طرح نوجوان دیکھتے چلے آ رہے تھے اور سب سے بڑھ کر کسی مٴوثر متبادل کا نہ ہونا یہ تمام عوامل مل کر نوجوانوں کو عمران خان کے پیچھے لے آئے تھے۔ نوجوان سمجھتے تھے اور ہیں کہ ملک کے غریبوں کے لئے صحت اور تعلیم کے میدان میں فلاحی منصوبے لانے والے عمران خان نے کبھی چوری سے دولت نہیں کمائی۔ دراصل یہ پورے ملک کے عوام کی خواہش بھی تھی کہ ملک سے کرپشن ختم ہو اور غریبوں اور امیروں کے لئے ایک طرح کے نظام ہوں۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ عمران خان اقتدار میں آنے کے بعد بھی اپنے نظریے سے ہٹا نہیں ہے وہ کرپٹ لوگوں کے خلاف آج بھی وہیں کھڑا تھا جہاں وہ اقتدار میں آنے سے پہلے تھا لیکن یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ وہ کامیاب ہوا کہ نہیں لیکن بہت واضح ہے کہ کرپٹ افراد کے خاتمے سے کرپشن ختم نہیں ہو سکتی ۔ جس نظام میں ہم رہتے ہیں کرپشن اسی نظام کی بناوٹ کی وجہ سے ہے۔

یہ درست ہے کہ جمہوریت ہی موجودہ نظاموں میں سب سے اچھا نظامِ حکومت ہے اور یہ دنیا کے بہت سے ملکوں میں بڑی کامیابی کے ساتھ چلایا جا رہا ہے لیکن افسوس کی بات ہے کہ ہمارے یہاں اول تو اسے پھلنے پھولنے کا موقع ہی بہت کم ملا ہے اور جب بھی ملا تو اس کے ذریعے حکومت بنانے والوں نے اسے صرف اپنے مفاد اور ذاتی فائدے کے لئے ہی استعمال کیا۔ عوام الناس کی بہتری اور ملکی ترقی و خوشحالی شائد ہی ان کی ترجیحات کا حصہ رہی ہوں۔

ہر غلط اور برے کام کو جمہوریت کا حسن قرار دے کر اس سے صرفِ نظر اور در گزر کر کے اسے مزید فروغ دیا گیا۔
اس صورتحال میں عوام نے متبادل قیادت کے روپ میں عمران خان کو منتخب کیا۔ اپنے مقصد اور ایجنڈے میں عمران خان کامیاب رہتے ہیں یا ناکام اس کے بارے میں فی الوقت کچھ نہیں کہا جا سکتا ہے لیکن عمران خان نے 22کروڑ عوام کے دلوں میں یہ بات پوری طرح واضح کر دی ہے کہ نواز شریف اور آصف زرداری در اصل ایک ہی سکے کے دورخ ہیں جو اپنے اپنے مفادات کے تحفظ کی خاطر یک جا ہو گئے ہیں۔

جن کے دلوں میں عمران خان کی یہ بات بیٹھ گئی ہے اسے اب محو کرنا یا کھرچ دینا مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی قیادت کے بس کی بات نہیں رہی۔ خان نے خود کو ایک متبادل کے طور پر پیش کیا ، ایک ایسے سیاستدان کی صورت میں جس کے ماضی کا زیادہ تر حصہ بے داغ رہا ہے اور جو مالی معاملات میں بھی شفاف ہے۔ ماضی میں ایک دوسرے کی دشمن اپوزیشن جو اب عمران خان کے خلاف اکٹھی ہو گئی ہے جانتی ہے کہ وہ صحیح رخ پر معاملات کو لے کر جا رہا ہے اگر اسے کھلی چھٹی دے دی گئی تو وہ کامیاب ہو جائے گا اس لئے سب اکٹھے ہو کر اس سے نجات کے ایجنڈے پر گامزن ہیں۔

عمران خان نے کرپٹ مافیا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے، بوسیدہ روایتوں میں لپٹے ہوئے نظام کو تہہ و بالا کر دیا ہے۔ یہ ثابت کیا ہے کہ یہ ملک خاندانی سیاست کے لئے آزاد نہیں ہوا تھا۔ عمران خان نے پاکستانی عوام کو شعور دیا ہے کہ آج ہر طبقے کا فرد خواہ وہ غربت کی لکیر سے نیچے جی رہا ہے، یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ ملک کو بنے ہوئے 73 سال گزر گئے مسلسل بے ایمانی، ظلم و جبر، استبداد کیوں ہیں۔

ہر وسیلہ اور وسائل صرف محلوں اور کوٹھیوں کے لئے ہی کیوں مخصوص ہیں۔ غریب چوری کرے تو اس کی کھال کھینچ دی جائے اور امراء کی چوری کے لئے این آر او بنا دیا جاتا ہے۔
عوام جو اس حکومت کو لے کر آئے ہیں وہ باشعور ہیں، جانتے ہیں کہ راتوں رات مہنگائی کے جن کو پچھاڑا نہیں جا سکتا، 20ارب ڈالر کا خسارہ فوراً کم نہیں ہو سکتا، غربت کی سطح سے نیچے زندگی گزارنے والے کروڑوں پاکستانیوں کو فوراً دو وقت کا کھانا نہیں مل سکتا۔

ذاتی اقتدار کو طول دینے کی خاطر ماضی کے حکرانوں نے ملک کو غربت، مہنگائی کے جس بھنور میں پھنسا دیا ہے اس سے فوری نجات ممکن نہیں۔ ملک کی خود مختاری جس طرح بیرونی طاقتوں کے ہاتھوں فروخت ہوئی اسے دوبارہ حاصل کرنے میں بھی وقت لگے گا۔ لیکن یہ بھی ہے کہ عمران خان کو قوم نے بڑی ا مید کے ساتھ ووٹ دئے ہیں ابھی تک لوگوں کی مشکلات کم نہیں ہوئی ہیں۔ آپ قوم سے کئے گئے وعدے ضرور پورے کیجئے گا۔ ورنہ قوم بہت مایوس ہو گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :