اقوامِ متحدہ کی 75 ویں سالگرہ

منگل 20 اکتوبر 2020

Rana Zahid Iqbal

رانا زاہد اقبال

ایک صدی قبل نومبر 2018ء کو پہلی عالمی جنگ کا خاتمہ ہوا۔ پانچ برس تک جاری رہنے والی اس جنگ میں تقریباً دو کروڑ عام نہتے شہری اور فوجی ہلاک ہوئے جب کہ دو کروڑ افراد ہی زخمی ہوئے۔ سینکڑوں بارونق بستیاں، شہر اور آبادیاں کھنڈرات میں تبدیل ہو گئیں۔ لہلہاتے کھیت کھلیان راکھ میں بدل گئے۔ دنیا میں بھوک، غربت اور کسمپرسی نے ڈیرے ڈال لئے۔

اس عالمگیر جنگ کا محور یورپ تھا اور اس میں جرمنی، آسٹریا، ہنگری اور سلطنتِ عثمانیہ، فرانس، برطانیہ، سربیا اور روس مدِ مقابل تھے۔ اس جنگ میں جرمنی اور اس کے حلیفوں کو شکستِ فاش ہوئی اور انہیں غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈالنا پڑے، جب کہ مذکورہ معاہدے کے بعد جرمنی بالکل بے بس ہو گیا۔ اس کے اکثر علاقوں پر فاتح ممالک نے قبضہ کر لیا اور اس پر فوج نہ رکھنے کی پابندی عائد کر دی گئی۔

(جاری ہے)

اس جنگ کا سب سے بڑا نقصان مسلم امہ کو یہ ہوا کہ 1300 سال تک قائم رہنے والی سلطنتِ عثمانیہ ٹکڑوں میں بٹ گئی۔ اس جنگ کے اختتام پر 18 جنوری 1919ء کو فرانس کے شہر ورسلیزمیں ایک امن کانفرنس منعقد ہوئی جس کے نتیجے میں جون 1919ء میں فاتح اتحادی ممالک اور جرمنی کے مابین ایک معاہدہ ہوا ،جو معاہدہ ورسلیز ( Treaty of Versailles ) کے نام سے موسوم ہوا۔ جس میں جرمنی کو جنگ کے آغاز کا ذمہ دار قرار دے کر اس پر بہت سخت پابندیاں عائد کی گئیں۔

امریکی صدر وڈرو ولسن نے جنوری 1918ء میں کانگرس سے خطاب کرتے ہوئے مستقبل میں دنیا میں امن قائم رکھنے کے 14 نکات پیش کئے اور " جنرل ایسوسی ایشن آف نیشنز" کے قیام کی تجویز پیش کی جو دنیا کے مختلف ممالک کے درمیان پیدا ہونے والے جھگڑوں کو نمٹانے میں مددگار ہوگی۔ اس طرح "لیگ آف دی نیشن" کے نام سے تنظیم معرضِ وجود میں آ گئی، جس کا مقصد ممکنہ دوسری جنگِ عظیم کو روکنا تھا۔

لیکن یہ عالمی ادارہ 1930ء کی دہائی میں دنیا کو دوسری عالمی جنگ کی جانب بڑھنے سے روکنے میں ناکام رہا۔ دوسری عالمگیر جنگ پہلی جنگ سے بھی زیادہ خوفناک اور ہلاکت خیز تھی۔
لیگ آف دی نیشن کے بنیادی ڈھانچے اور اس کے مقاصد سے تحریک لے کر 1944ء میں امریکہ، برطانیہ روس اور چین وغیرہ طاقتور ممالک نے واشنگٹن میں ملاقات کی ایک عالمی سطح کے ادارے کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے ایک خاکہ تیار کیا گیا اور اسی خاکہ پر عمل کرتے ہوئے 24 اکتوبر 1945ء کو 50 ممالک کے نمائندگان نے کافی غور و حوض کے بعد اقوامِ متحدہ کے قیام کا اعلان کیا۔

اقوامِ متحدہ کے منشور کو اسی سال 26جون کو منظوری دی گئی اور انہی 50 ممالک نے اس پر دستخط بھی کئے۔ حقوقِ انسانی کا تحفظ اور آنے والی نسلوں کو جنگ کی آگ سے بچانا اقوامِ متحدہ کی بنیادی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس عالمی ادارے کی ذمہ داریوں کا دائرہ وسیع ہوتا چلا گیا۔ ذمہ داریاں بڑھیں تو اس میں ہاتھ بٹانے والے بھی بڑھتے چلے گئے۔

آج دنیا کے تقریباً سبھی ممالک کی نمائندگی کرنے والا اقوامِ متحدہ کا صدر دفتر امریکہ میں ہے۔ مالیاتی توازن پیدا کرنے کے لئے آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، اسلامک ڈویلپمنٹ بینک، ایشین ڈویلپمنٹ بینک اور برکس جیسے ادارے تشکیل دئے گئے۔ اس کے علاوہ مختلف ممالک کے درمیان تعاون بڑھانے کے لئے مختلف تنظیمیں بھی بنائی گئیں۔ جن میں یورپی یونین سب سے زیادہ جامع اور متحرک ثابت ہوئی۔

مزید براں نیٹو، وارسا پیکٹ، آسیان، سارک، سینٹو، سیٹو اور شنگھائی تعاون تنظیم جیسے بین الاقوامی پلیٹ فارم سامنے آئے۔ جن کے سبب گلوبلائزیشن یا عالمگیریت کو تقویت ملی اور دنیا نے ایسی ناپائیدار تیز رفتار ترقی کا مشاہدہ کیا جس کا تصور بھی ممکن نہ ہو۔ اسی دوران عالمی منڈی کے تصور نے ابھرتی ہوئی معیشتوں، بالخصوص چین کو ایک عالمی اقتصادی طاقت بننے میں مدد فراہم کی اور سرمائے کا بہاوٴ مغرب سے مشرق کی جانب ہو گیا۔


پہلی عالمی جنگ کے بعد کی ایک صدی کے دوران دنیا کی آبادی کئی گنا بڑھ کر تقریباً سات ارب ہو گئی ہے۔ تب دنیا کی آبادی ایک ارب تھی۔ اس دوران ٹیکنالوجی کی ترقی نے امیر اور طاقتور ملکوں کو مزید طاقتور بنا دیا اور ان کے عوام زندگی کی تمام آسائشوں سے لیس بھرپور معیارِ زندگی سے لطف اندوز ہو رہے ہے جب کہ دوسری جانب غریب اور ترقی پزیر ممالک کے عوام کا وہی حال ہے جہاں غربت، بیروزگاری، مفلسی، غیر صحت مندانہ ماحول اور بیماریوں نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔

آج دنیا کی آبادی کا ایک بڑا حصہ غربت کی چکی میں پس رہا ہے اور تعلیم و صحت جیسی بنیادی سہولتوں سے بھی عاری ہے۔ دنیا کے بڑے طاقتور ممالک سب کچھ سمیٹنے کے بعد بھی خوش نہیں ہیں وہ ان غریب اور ترقی پزیر ممالک کے وسائل پر قبضہ کرنے کے لئے نت نئے بہانے تراشتے رہتے ہیں۔ ان پر جنگیں مسلط کر کے ان کو مزید کمزور اور مشکلات کی دلدل میں دھکیلنے میں مصروف ہیں۔

یورپ اور امریکہ کو دیکھیں تو گزشتہ تین دہائیوں کے دوران جب سے روس اپنی طاقت کھویا ہے دنیا نے نئے ورلد آرڈر کی آڑ میں کمزور قوموں کا بے انتہا استحصال کیا ہے۔ ایسی ایسی بے تکی باتوں اور مسائل پر ان کمزور ممالک کے ساتھ جنگیں کی ہیں جس کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ ڈنڈوں اور بندوقوں سے لیس انسانوں پر ایسے بم برسائے ہیں کہ جس سے انسانیت کانپ اٹھی۔

اپنے آپ کو فاتح کہلانے والے ممالک کا طاقت کے توازن کے حوالے سے ان ممالک کے ساتھ کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ یعنی دنیا نے ماضی کی جنگوں سے کچھ نہیں سیکھا اور اپنا ظلم کمزور ممالک پر جاری رکھا۔ عراق، افغانستان، مصر، شام، ایران، لیبیا اور دوسرے بہت سے ممالک میں لاکھوں لوگوں کو ہلاک کر دیا۔ چونکہ یہ ممالک طاقت میں ان کے ہم پلہ نہیں تھے اس لئے وہ ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکے۔


 دوسری عالمی جنگ کی ہولناک تباہیوں نے انسانیت کی جو تذلیل و تحقیر کی جس طرح خون کی ندیاں بہائی گئیں اور جس طرح سائنس اور حکمت کی ترقی کے بل بوتے پر طاقتور قوموں نے چھوٹی قوموں کے انسانوں کے ساتھ سلوک کیا اس کی مثال تاریخ عالم میں نہیں ملتی۔ اس صورتحال سے طاقتور قوموں نے خوب فائدہ اٹھایا مغلوب قوموں کی دولت کو دونوں ہاتھوں سے خوب لوٹا۔

اس جنگ کے نتیجے میں قائم کئے گئے ادارے یونائیٹڈ نیشنز کا مقصد قوموں کو ایک پلیٹ فارم پر لاکر مستقبل میں ایسی صورتحال سے بچا جا سکے۔ مگر اقوام متحدہ کے قیام میں ایک بنیادی غلطی ایسی ہوئی جس کا خمیازہ دنیا کے چھوٹے ممالک کو آج تک بھگتنا پڑ رہا ہے بلکہ طاقتور قوموں نے اپنے مفادات کے پیش نظر یہ غلطی دانستاً کی۔ اقوام متحدہ کے قیام کے وقت جہاں یہ تسلیم کیا گیا کہ تمام قومیں برابر ہیں اور ان کے مساوی حقوق ہیں اور ان کو یکساں تحفظ دیا جائے گا وہاں پانچ طاقتوں کو بڑی طاقت تسلیم کر لیا گیا اور یہ اس جنگ کی فاتح طاقتیں تھیں یا فاتحین کی حلیف تھیں اور ان پانچ طاقتوں کو فوقیت دے کر ایسے حقوق دے دئے جو دوسری قوموں کے پاس نہیں تھے۔

اس صورتحال میں ایسے قائم ہونے والے پلیٹ فارم کی کوششوں کے نتیجے جو نتائج ظاہر ہو سکتے تھے وہ غیر متوقع نہیں تھے جو ہم آج دیکھ رہے ہیں۔ ویٹو پاور کے حامل ملکوں نے چھوٹے کمزور ملکوں کا بہت استحصال کیا۔اگر اقوام متحدہ کے قیام کے اغراض و مقاصد پر نظر ڈالی جائے تو اس کا مقصد وجود نہایت مستحکم ہے اور اس کا مقصد جہاں دنیا کو جنگ سے محفوظ رکھنا ہے وہاں تعلیم میں، ثقافت میں، علاج میں پسماندہ قوموں کی مدد کرنا اور زندگی کے تمام شعبوں میں مختلف طرز کے ترقی کے اقدامات شامل کرنا ہے۔

لیکن عملی طور پر اقوام متحدہ نے ان شعبوں کی بہتری کے لئے اقدامات بھی طاقتور قوموں کے مفادات کو ملحوظ خاطر رکھ کر کئے۔ جہاں تک اس بڑے مقصد کا تعلق ہے جو اقوام متحدہ کے قیام کے منصوبے میں بنیادی مقصد کی حیثیت رکھتا ہے امن کے قیام اور اس کے حصول کے سلسلے میں اقوام متحدہ کو خاطر خواہ کامیابی نصیب نہیں ہوئی اس سلسلے میں وہ نہ صرف مصلحتوں کا شکار ہو گئی بلکہ بڑی طاقتوں کی ڈپلو میسی کا شکار بھی ہوئی اور ان کے مفادات کی چراہ گاہ بنی رہی۔

بڑی طاقتوں کے باہمی گٹھ جوڑ نے اس عظیم ادارے کو گہنا دیا۔ یہی وجہ ہے کہ آہستہ آہستہ خاص طور پر چھوٹی قوموں کو اس ادارے سے مایوسی ہوتی جا رہی ہے اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ جب تک بڑی طاقتوں کی باہمی مصلحتیں اجازت نہیں دیتیں اور اس ادارے میں ان کو برتری حاصل ہے اس وقت تک یہ ادارہ موئثررول ادا نہیں کر سکتا۔
امریکہ کی سرزمین پر قائم اس نام نہاد عالمی ادارے کی حیثیت ایک کھیل سے زیادہ نہیں۔

سات ارب انسانوں کی قسمت ایک سپر پاور کے قبضہ قدرت میں ہے۔ امریکہ اپنے مغربی حواریوں کی پشت پناہی سے من مانیاں کرتا رہتا ہے ہر معاملے میں اس کا فیصلہ حکم کا درجہ رکھتا ہے۔ آزادی اور جمہوریت کے سب سے بڑے علمبردار نے اس ادارے میں قوموں اور نسلوں کی آزادی کو یرغمال بنا رکھا ہے۔اس ادارے میں بنیادی انسانی حقوق اور عددی اکثریت کی کوئی وقعت نہیں ہے۔

اس ادارے میں سرمایہ دار اور اشتراکی دنیا کو قوت و نمائندگی تو حاصل ہے لیکن تیسری دنیا کو نہ عزت حاصل ہے نہ قوت۔اس ادارے کی آڑ میں استعماری طاقتیں چھوٹی اقوام کا شکار کھیل ہی ہیں۔ اس ادارے نے اپنے طور پر ایک مسئلہ بھی حل نہیں کروایا ہے اور نہ ہی امن عالم کے قیام میں حقیقی مدد فراہم کی ہے۔ جب کوئی واقعہ رونما ہو جاتا ہے تو اس کے بعد معاملہ قابل دست اندازی اقوام متحدہ بن جاتا ہے۔


اقوام متحدہ کو چاہئے کہ اپنے قیام کی 75ویں سالگرہ کے موقع پر وہ بڑی طاقتوں کو مجبور کرے کہ وہ جھگڑوں کو جنگ کی بجائے پرامن ذرائع سے حل کریں۔ اس کے ساتھ اقوام متحدہ کو اپنے اثرورسوخ سے یورپ اور امریکہ کو مجبور کرنا چاہئے کہ وہ عالمی برادری کے شہریوں کی آزادی اور انسانی حقوق کا خیال رکھیں۔ اقوام متحدہ کو ایک ایسا مرکز بننا چاہئے جس کے گرد جمع ہو کر دنیا کے سارے ملک مل کر سلامتی اور ماحول کو لاحق خطرات سے لڑیں نہ کہ یورپ اور امریکہ صرف تیسری دنیا کے غریب ملکوں کے وسائل ہتھیانے کے لئے ان پر ظلم کرتے رہیں۔

امریکہ اور یورپ تو صرف یہی چاہتے ہیں کہ وہ اقوام متحدہ کی مدد سے غریب اقوام کو مغلوب بنا کر ان کے وسائل سے استفادہ کرتے رہیں اور اب کچھ مزید اقوام بھی چاہتی ہیں کہ وہ سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت حاصل کر کے غریب قوموں کا استحصال کر سکیں۔
ہر سال ستمبر کے مہینے میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس نیو یارک میں ہوتا ہے جس کا مقصد اس عالمی ادارے کے اراکین ممالک کو اس بات کا موقع فراہم کرنا ہے کہ عالمی مسائل پر اپنی آرزووٴں اور تمناوٴں کے مطابق اپنے خیالات کا اظہار کر سکیں۔

اس سال کا اجلاس اس لئے بھی اہم تھا کہ اقوامِ متحدہ کے قیام کی 75 ویں سالگرہ منائی جا رہی ہے۔ یہ اچھا موقع ہے ماضی کی کامیابیوں اور ناکامیوں کا تجزیہ کرتے ہوئے مستقبل کے قدموں کی آہٹ کو بغور سنا جا سکتا ہے کیونکہ ادھر چند برسوں سے اقوامِ متحدہ میں اصلاحات کی آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔وزیرِ اعظم عمران خان نے اس موقع پر اپنی تقریر میں کہا ہے مقبوضہ کشمیر میں بھارت مسلم اقلیتوں پر مظالم ڈھا کرانسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کر رہا ہے جو کہ خطے میں کشیدگی بڑھنے کا باعث بن رہا ہے۔

کشمیر کا ایشو پاکستان اور بھارت میں کشیدگی کی بنیادی وجہ ہے جس کو بھارت خود ہی 1948ء میں اقوامِ متحدہ میں کر کے گیا تھا اور اس نے کہا تھا کہ کشمیریوں کے حقِ خود ارادیت کے تحت اس مسئلے کو حل کیا جائے گا۔اقوامِ متحدہ کی اس حوالے سے قرار دادیں بھی موجود ہیں۔ اقوامِ متحدہ کو اپنی 75ویں سالگرہ کے موقع پر اس دیرینہ جھگڑے کو کشمیری عوام کی خواہش کے مطابق حل کر کے اپنے آپ کو منوانے کی کوشش کرنی چاہئے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :