خدا کرے ایسا نہ ہو!

پیر 26 اکتوبر 2020

Rana Zahid Iqbal

رانا زاہد اقبال

پاکستان کی سیاست میں ایک دم سے تیزی آ گئی ہے جس سے پہلے سے متاثر معیشت مزید مشکلات کا شکار ہو گی۔ جوں جوں سیاسی بحران میں تیزی آئے گی اسی رفتار سے معاشی سرگرمیوں پر اس کے منفی اثرات بڑھنا شروع ہو جائیں گے، جس سے حکومت کے لئے آئی ایم ایف کے مشورے سے طے کردہ معاشی ترقی کے اہداف پورے کرنے خاصے مشکل ہو جائیں گے۔ اس کے نتیجے میں حکومت کو مزید ٹیکس لگا کر ریونیو کی وصولی کے اہداف پورے کرنے پڑیں گے۔

ملکی و غیر ملکی سرمایہ کاروں میں بداعتمادی بڑھ سکتی ہے۔ اس وقت کرونا کی وجہ سے عملی طور پر کاروباری سرگرمیوں بہت محدود ہیں، کسی کو روزگار بچانے کی فکر ہے اور کوئی روزگار کے حصول کے لئے سرگرداں ہے اور کسی کو یہ پریشانی ہے کہ آنے والا کل اس کے لئے کیا خبر لائے گا۔

(جاری ہے)

ایسے حالات میں جب بے یقینی اور بد اعتمادی کی فضا بڑھتی ہے تو پھر اس سے معیشت کا پہیہ رک جاتا ہے جس سے گروتھ بری طرح متاثر ہوتی ہے۔

کاروباری حلقے اس بات پر فکر مند نظر آ رہے ہیں کہ ان کے کار خانے، فیکٹریاں، کاروبار کیسے چلیں گے۔ پہلے ہی انہیں بہت سے مسائل درپیش تھے کہ اب سیاسی فرنٹ پر نئے حالات نے انہیں مزید پریشان کر دیا ہے۔ اس لئے بڑے بڑے کاروباری افراد اور ٹیکنو کریٹس کی اکثریت کا مشورہ ہے کہ ہمارے سیاست دان ملک کو پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی کی طرح نہ چلائیں بلکہ کارپوریٹ پبلک لمیٹڈ کمپنی کی طرز پر چلائیں۔

وہ خاندانی سیاست کے طلسم سے نکلیں اور ملک و قوم کے مفاد کے لئے تمام بنیادی اکنامک ایشوز پر اتفاق کریں ایسا نہ ہوا تو اندرون و بیرون ملک سرمایہ کاری میں کمی آ سکتی ہے۔
اگر عوام نے پی ٹی آئی کو مینڈیٹ دیا ہے تو ملک کی تقدیر کے فیصلے اسے کرنے دیں۔ عوام اسے پسند نہیں کریں گے تو وہ آئندہ انتخابات میں انہیں مسترد کر دیں گے لیکن اس جمہوری برداشت کا مظاہرہ نہیں کیا جا رہا ہے اور قوم آگے لے جانے کے دعویدار ہمیں پھر 70ء،80ء، 90ء اور موجودہ صدی کی پہلی دہائی میں واپس لے گئے ہیں۔

ایک طرف پی ٹی آئی اور اس کے حامی دوسری طرف پی ٹی آئی کے مخالفین ، کیا ہم سول سوسائٹی ہیں۔ معاملات کو ہم سنجیدگی سے طے کرنے کی بجائے قبائلی جنگجووٴں کی طرح ایک دوسرے کے خلاف صف آراء ہو جاتے ہیں۔ جلسے جلوس کئے جا رہے ہیں،صورتحال کی نذاکت کا اندازہ نہیں کیا جا رہا ہے۔ یہ کیسے قائدین ہیں جو اپنے وطن کو درپیش مسائل کی سنگینی کا ادراک نہیں رکھتے ہیں۔

دونوں ایک دوسرے کو نہیں عوام کو دھوکا دے رہے ہیں۔70ء کی دہائی میں جو قوتیں پاکستان پیپلز پارٹی کے خلاف تھیں وہ آج پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے ساتھ مل کر پھر سرگرم ہیں۔ اگر بالفرض پی ڈی ایم کو پرجوش کارکنوں کی عوامی حمایت ہو جاتی ہے اور یہ ایسی شدت اختیار کر جاتی ہے کہ حکومتی طاقت بے بس ہو جائے تو اس کا نتیجہ فوجی مداخلت کی صورت میں نکل سکتا ہے۔

جمہوریت کی بساط پھر لپیٹی جا سکتی ہے۔ مسلح افواج نے دو ٹوک بتا دیا ہے کہ ملک اس وقت اس قسم کی انارکی کا متحمل نہیں ہو سکتا ہے اس لئے ا پنے مقدمات کے لئے عدالتوں سے رجوع کیا جائے اور سیاسی معاملات کے لئے پارلیمنٹ کو ذریعہ بنایا جائے۔ افواج پاکستان غیر جانبداری کی راہ پر چل رہی ہیں اس لئے وہ کسی کی حمایت نہیں کریں گی لیکن ہر صورت میں حکومتی احکامات بجا لائیں گی۔

کیونکہ وطنِ عزیز میں بیرونی قوتوں کے ایماء پر ایک بار پھر سے دہشت گردی سر اٹھا رہی ہے اور اس کے لئے ہمارے سیکورٹی اداروں نے بہت قربانیاں دی ہے ملک ایک بار پھر اس صورتحال کا متحمل نہیں ہو سکتا ہے۔
اس وقت ملک میں جو صورتحال ہے میڈیا پر بیانات، تجزئیے اور پورا پیش منظر تو یہ احساس ہونے ہی نہیں دیتا یہ 2020ء ہے۔ سیاسی رہنما، سماجی، مذہبی قائدین ماہرین کے بیانات وہی ہیں جو گزشتہ تین چار عشروں میں دیتے رہے ہیں کیا یہ قائدین ہمیں آگے کی بجائے پیچھے لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

مفاہمت کا وقت گزر چکا ہے، اب تو لڑائی کے لئے صف بندی ہو رہی ہے۔70ء، 80ء، 90ء کی دہائیوں میں بھی ہم سیاسی، سماجی، صنعتی، علمی سطح پر آگے بڑھتے ملکوں سے کم از کم نصف صدی پیچھے تھے۔ اب 2020ء میں ترقی یافتہ دنیا بشمول چین، بھارت، دبئی سے تو ہم ایک صدی پیچھے چلے گئے ہیں۔ یہ فاصلہ تیزی سے کم کرنے اور اس بدقسمت قوم کو آگے لے جانے کے لئے ہمارے سیاسی رہنماوٴں کو اقتصادی، علمی، سائنسی اور شہری انفراسٹرکچر کی تعمیر کے لئے جو حکمتِ عملی اور منصوبہ بندی مرتب کرنی چاہئے اس محنت کی بجائے تصادم اور محاذ آرائی کا وہ راستہ اختیار کیا جا رہا ہے جو فوجی حکومتوں کے خلاف کیا جاتا تھا ۔

مارشل لاء کے خلاف تحریک تو اس کے خاتمے پر منتج ہو جاتی ہے لیکن کسی منتخب آئینی سیاسی حکومت کے خلاف تحریک زیادہ شدت اختیار کر جائے تو وہ مارشل لاء کے نفاذ کا سبب بنتی ہے۔ آج کی دنیا میں جمہوریت مستحکم کرنے کے لئے کیا ہمارے قائدین وہ راستے اختیار نہیں کر سکتے جو ترقی یافتہ مہذب دنیا کے لیڈر استعمال کرتے ہیں۔ جس سے ملک آگے جاتے ہیں، ان کی سڑکوں پر ٹریفک چلتا رہتا ہے، سکول، دوکانیں، فیکٹریاں بند نہیں ہوتیں مطلوبہ تبدیلیاں بھی رونما ہوتی رہتی ہیں۔

آصف زرداری، نواز شریف دو بڑی سیاسی جماعتوں کے قائد ہیں تاریخ میں وہ اپنا نام تعمیر کے حوالے سے لکھوانا چاہتے ہیں یا تخریب کے۔ دونوں کے پاس برابر کے امکانات ہیں پارلیمنٹ جس کی بالا دستی کا دعویٰ دونوں کرتے ہیں کیوں نہ اس کی سربلندی کے لئے کچھ اقدامات کئے جائیں۔ صورتحال پر نعرے بازی کے بجائے سنجیدہ بحث کر کے آئندہ کے لئے لائحہ عمل مرتب کیا جائے۔

جماعتیں اگر ملک سے مخلص ہیں تو وہ ترقی اور تعمیر کے لئے مشترکہ منصوبے بنائیں۔ سب سیاست دان اور نظام چلانے والے مل بیٹھ کر سوچیں کہ ہمارے ملک کی سلامتی کے لئے بڑھتے ہوئے خدشات اور خطرات کا مقابلہ کیسے کیا جا سکتا ہے اگر اس کام میں غفلت ہو گئی تو پھر تاریخ انہیں کبھی معاف نہیں رے گی اور بے چارے عوام ایک اور نئے نظام کی غلامی میں چلے جائیں گے۔ خدا کرے ایسا نہ ہو ابھی وقت ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کوئی ایسا راستہ اختیار کریں جس سے ملکی معیشت متاثر نہ ہو اگر معیشت متاثر ہوئی تو سمجھیں سب کچھ گیا۔ 73 برس سے مسائل کا شکار عوام کب تک بڑوں کے درمیان لڑائی کا ایندھن بنتے رہیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :