
عمران خان ایک تجربہ ہیں انہیں کامیاب ہونا چاہئے
اتوار 27 ستمبر 2020

رانا زاہد اقبال
(جاری ہے)
عوام اس سے بے زار ہو گئے تھے اور کسی نجات دہندہ کی تلاش میں تھے۔ یہ نجات ایک قطعاً غیر سیاسی اور کھیل کود کا شوقین نوجوان تھا جسے سیاست کا شوق ہوا اور وہ سیاست میں جب کھل کر سامنے آیا توآتا ہی چلا گیا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ اسے اپنے نئے پسندیدہ کھیل کا ایک بنا بنایا میدان مل گیا۔ یہ میدان اس کے حریف سیاست دانوں نے تیار کیا تھا۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے سیاست دانوں سے نالاں اور بے زار عوام دوڑ کر اس نئے سیاست دان کے ساتھ مل گئے اورا یک انوکھے انداز میں اس ملک میں پہلی بار دیکھا گیا۔ اس طرح سیاسی نوخیز عمران خان یکا یک سیاسی عروج پر پہنچ گیا۔ انہوں نے سیاست تو برسوں سے شروع کر رکھی تھی لیکن اس کا غلغلہ اب شروع ہوا۔ اس سیاسی کامیابی میں جہاں ان کے مخالفین کا ہاتھ تھا اور حکومتی خرابیوں کا لامتناہی سلسلہ تھا وہاں ان کی شخصیت پر بھی بد عنوانی اور کرپشن کا پاکستانی روایتی داغ نہیں لگا تھا اور یہ بہت بڑی بات تھی ورنہ ہماری سیاسی دنیا میں ہر طرف داغ ہی داغ ہیں۔ ان میں اگر کوئی بے داغ ہے تو یہ انوکھی اور نادیدہ بات ہے۔ 2018ء کے انتخابات سے قبل ہی مسلم لیگ (ن) سجھتی تھی کہ یہ الیکشن جیسے بھی ہوں تحریکِ انصاف یا ان کے علاوہ کوئی بھی جماعت اقتدار میں آئے، حکومت کی جیسی بھی کارکردگی ہو انہوں نے سڑکوں پر رہنا ہے اور الیکشن کے نتائج کو تسلیم نہیں کرنا اور ایسا ہی ہوا فرق صرف اتنا پڑا کہ بری طرح ہارنے والی پاکستان پیپلز پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام بھی اس کی ہم رکاب بن گئیں۔ اب پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی ٹیم، مولانا فضل الرحمان کی مدد سے ایسا ہی کر رہے ہیں۔ انٹرنیشنل پروپیگنڈا کر رہے ہیں کہ یہ الیکشن دھاندلی سے جیتا گیا اورا س میں بھرپور ہاتھ اسٹیبلشمنٹ کا ہے۔
لیکن کیا کسی نے سوچا ہے کہ ایک ایسا ملک جس کے وسائل لا محدود ہوں، جس کے موسم مثالی، جس کی زمین سونا اگلنے والی، جس کے زیرِ زمین ذخیروں میں سونا چاندی اور دیگر قیمتی دھاتوں کے علاوہ گیس اور تیل کے ذخائر بھی موجود ہوں آج بین الاقوامی بھیک منگا بن چکا ہے۔ اگر ہماری معیشت تباہ ہوئی، ہماری زراعت کی کارکردگی پہلے کے مقابلے میں خراب ہو گئی ہے اور اگر بے روزگاری اور مہنگائی نے لوگوں کا جینا دو بھر کر دیا ہے تو کیا اس میں کوئی شبہ ہے کہ ہم غلطیاں کرتے رہے ہیں اور ہم صحیح راستے سے بھٹک گئے ہیں۔ جو ریل دورِ غلامی میں آمدنی کا بڑا ذریعہ تھی آج خسارے میں چل رہی ہے۔ پی آئی اے منافع بخش ادارہ تھا آج اربوں کا مقروض ہے، اسٹیل مل گھاٹے میں ہے، آخر یہ سب کیوں اور کیسے ہوا، یہ جاننے کے لئے ہمیں اپنی اپنی غلطیوں کا جائزہ لینا اور ان کا اقرار کرنا ہو گا کیونکہ جب تک ہم ان کا اعتراف نہیں کرتے مسلسل ان کا شکار ہوتے رہیں گے۔ اس کے لئے موجودہ حکومت کا احتساب کا عمل بہترین طریقہ ہے ہر ایک کو جواب دینا چاہئے کہ اس نے اپنے اپنے دورِ اقتدار میں ملک کو معمول کے راستے سے ہٹا کر غلط راہ پر ڈالا ایسے رہنما قومی مجرم ہیں۔ عوام بھی یہی چاہتے ہیں کہ احتساب ہو یہ مطالبہ شائد نہ ہوتا اگر ملک میں خوشحالی ہوتی اور عوام امن و چین کی زندگی بسر کر رہے ہوتے۔ بد قسمتی سے عوام وعدوں اور فاقوں پر زندگی بسر کرنے پر مجبور رہے ہیں۔ جب لوگوں کو معلوم ہوتا ہے کہ حکمرانوں کی بیرونِ ملک رکھی منقولہ اور غیر منقولہ دولت ناجائز ذرائع سے لوٹی اور قومی دولت میں ٹانکہ لگا کر اکٹھی کی گئی ہے تو وہ ان سے انسپائر ہو کر چوری، ڈکیٹی، فراڈ کا راستہ اپناتے ہیں اور وہ جنہیں مذکورہ تین ذرائع رسکی معلوم ہوتے ہیں شریفانہ ملاوٹ، منافع خوری، دلالی اور رشوت خوری پر قناعت کر لیتے ہیں۔ عوام ہمیشہ اپنے حکمرانوں کا چلن اختیار کرتے ہیں۔
موجودہ حکومت سابقہ حکمرانوں کے پیدا کئے گئے مسائل کو سلجھانے کی کوشش میں ہے لیکن ایسا کرنااسے بہت مہنگا پڑ رہا ہے، اب تو معیشت کی خرابی کا تمام تر ذمہ دار بھی موجودہ حکومت کو ہی کہا جا رہا ہے۔ ملک میں کسی اچھے کام کی تشہیر کرنا بھی حکومت کے لئے جان جوکھوں کا کام ثابت ہو رہا ہے۔ آج وزیرِ اعظم عمران خان کی لڑائی ایک مافیا سے ہے۔ اس وقت ضرورت ہے صرف تحمل اور صبر کی۔ عمران خان کو اس وقت دیگر مسائل کے ساتھ اپنے اتحادیوں کے مسائل کا بھی سامنا ہے جو اس کے وژن کے مطابق اسے کام نہیں کرنے دے رہے ہیں۔ اپوزیشن کے ساتھ ساتھ حکومتی اتحادیوں کی مرحلہ بہ مرحلہ کچھ لو اور کچھ دو کی بازی بھی چل رہی ہے۔ عمران خان عوام کی آخری امید ہیں اور انہیں کچھ وقت دیا جانا چاہئے۔ کیونکہ عمراں خان ایک تجربہ ہے اسے کامیاب ہونا چاہئے۔ عمران خان نے اس قوم کے دل میں ایک نئی جوت جگائی ہے ہے، ولولہ تازہ پیدا کیا ہے۔ عمراں خان کی ناکامی صرف دنیائے سیاست کا ایک واقعہ نہیں ہو گا۔ اس کے اثرات بہت سنگین ہوں گے۔ کیونکہ طویل مدت کے بعد معاشرے نے ایک خواب دیکھا تھا۔ جمہوری نظام کے زیرِ سایہ ہماری نسل نے یہ آخری کوشش کی ہے۔ اگر یہ کوشش ناکام ہوئی تو مایوسی پھیلے گی۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
رانا زاہد اقبال کے کالمز
-
آج مہنگائی عوام کا سب سے بڑا مسئلہ
اتوار 25 جولائی 2021
-
خواتین کے عالمی دن کے موقع پر فیصل آباد میں منعقد ہونے والی "انیسویں سالانہ وویمن کانفرنس" کا احوال
جمعرات 8 اپریل 2021
-
عمران خان کیوں مقبول ہوئے؟
پیر 23 نومبر 2020
-
کشمیر پر غاصبانہ تسلط کو طوالت دینے کے بھارتی ہتھکنڈے
اتوار 1 نومبر 2020
-
خدا کرے ایسا نہ ہو!
پیر 26 اکتوبر 2020
-
اقوامِ متحدہ کی 75 ویں سالگرہ
منگل 20 اکتوبر 2020
-
پلاسٹک بیگز کا کچرا ماحول کے لئے انتہائی مضر
پیر 12 اکتوبر 2020
-
عمران خان ایک تجربہ ہیں انہیں کامیاب ہونا چاہئے
اتوار 27 ستمبر 2020
رانا زاہد اقبال کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.